میرٹ کی بات کرنے میں عمران خان صاحب‘اس ملک کے سب سے بلند آہنگ سیاست دان ہیں؟عوام لیکن آج تک یہ نہیں جان سکے کہ ان کا تصورِ میرٹ ہے کیا؟
ان دنوں سب سے زیادہ بات سپہ سالار کے تقرر پر ہو رہی ہے۔یہ وہ موضوع ہے جو خان صاحب کی سیاست کا مرکز بن چکا۔ان کا کہنا یہ ہے کہ وہ کسی خاص فرد کی بات نہیں کر رہے۔وہ صرف اتناچاہتے ہیں کہ جو بھی آئے‘وہ میرٹ پر آئے۔اب یہ میرٹ ہے کیا‘اس کا کوئی جواب ان کی طرف سے نہیں آرہا۔میرٹ تو الگ بات ہے‘ایک سپہ سالار کا آئینی کردار کیا ہے‘معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان صاحب اس بارے میں بھی شدید ابہام کا شکار ہیں۔
ارشاد ہوا: ''نوازشریف اپنا آرمی چیف لگوا کر‘اس سے پہلا کام یہ لے گا کہ مجھے نااہل کروائے گا‘‘۔یہ جملہ دو سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ایک: نواز شریف صاحب اپنی مرضی کا آرمی چیف کیسے لگوائیں گے؟ دوسرا:ایک آرمی چیف کسی سیاست دان کو نااہل کیسے کرواسکتا ہے؟دوسری بات کی وضاحت ان کے اس جملے سے ہو رہی ہے: ''چیف الیکشن کمشنر نہ صرف نون لیگ کے قریب ہے مگر 'ہینڈلرز‘ بھی اس کو کنٹرول کرتے ہیں‘‘۔گویاوہ یہ کہہ رہے ہیں کہ سپہ سالار چیف الیکشن کمشنر پر اثر انداز ہو کر‘انہیں نااہل کروا دے گا۔
ان کی وضاحت سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مستقبل میں آرمی چیف کو سیاست میں ایک مؤثر کردار ادا کرتا دیکھ رہے ہیں۔ماضی کو سامنے رکھا جائے تو یہ خدشہ بے بنیاد نہیں۔عمران خان صاحب سے بہتر کون جانتا ہے کہ وہ کس کردار کا ذکر کر رہے ہیں اور ماضی قریب میں ان کے اس خدشے کی واقعاتی شہادت2018ء کے انتخابات ہیں۔سوال یہ ہے کہ وہ کون ہے جس سے یہ خدشہ وابستہ ہے اور کون ہے جس کے بارے میں یہ گواہی دی جا سکتی ہے کہ وہ کوئی سیاسی کردارادا نہیں کرے گا؟
ماضی‘جو اس خدشے کی بنیاد ہے‘وہ یہ بتاتا ہے کہ جو صاحبان اپنی شہرت کی بنا پر سب سے زیادہ غیر سیاسی شمار ہوتے تھے‘وہ آرمی چیف بنائے گئے توسب سے بڑھ کر سیاسی ثابت ہوئے۔جنرل ضیا الحق مرحوم کو اپنے مذہبی رجحانات کی وجہ سے 'ملا‘ کہا جا تا تھا۔بھٹو صاحب نے انہیں سپہ سالار بنا دیا۔اس کے بعد کیا ہوا‘سب کو معلوم ہے۔کچھ ایسا ہی خیال جنرل پرویز مشرف صاحب کے بارے میں نواز شریف صاحب کا بھی تھا۔ان کی کہانی بھی درس گاہ عبرت کے نصاب میں شامل ہے۔اس لیے کسی فرد کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آنے والے کل میں‘وہ کیا کرے گا۔ دوسرا یہ کہ جو واقعہ ابھی نہیں ہوا‘اس کے بارے میں کسی منفی تاثر کا اظہار محض بد گمانی ہے۔خان صاحب کے خلاف نااہلی کا مقدمہ جن بنیادوں پر کھڑا ہے‘وہ ظاہر وباہر ہیں۔اگر ان کے خلاف کوئی فیصلہ ہوتا ہے تویہ عمل صرف الیکشن کمیشن میں نہیں ہونا‘یہ ملک کے پورے عدالتی نظام سے ہوکرہی فیصلہ کن بنے گا۔خان صاحب یوں بھی ہر معاملے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہیں۔ان کو امید رکھنی چاہیے کہ عدالتی نظام سے پورا انصاف ملے گا۔
اب آئیے‘پہلی بات کی طرف۔نواز شریف صاحب اپنی مرضی کا آرمی چیف کیسے لگا سکتے ہیں؟ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ یہ انتخاب ایک مخصوص دائرے میں ہونا ہے۔یعنی فوج کے وہ سینئرترین افراد جو ایک عمر کی مشقت کے بعد‘اس درجے تک پہنچتے ہیں کہ پاک فوج ان میں سے ہر ایک کو قیادت کے قابل سمجھتی ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ نواز شریف صاحب گوالمنڈی سے کسی کو اٹھائیں اور آرمی چیف بنا دیں۔یہ بات اتنی طفلانہ ہے کہ کسی سنجیدہ فورم پر زیرِ بحث ہی نہیں آنی چا ہیے۔
رہامیرٹ تو اس کی دوبنیادیں ہوتی ہیں۔ایک اخلاقی اور ایک قانونی۔اخلاقی بنیاد کو جاننے کا کوئی ظاہری پیمانہ نہیں ہے لیکن قانونی بنیاد کو پرکھنے کے لیے خود قانون ایک پیمانہ ہے۔یعنی کسی فیصلہ پر ہم واضح طور پر غلط یا صحیح کا حکم اسی وقت لگا سکتے ہیں جب وہ کسی قانون کے دائرے میں آتا ہو۔آرمی چیف کے تقرر کی ایک اخلاقی بنیاد یہ ہو سکتی ہے کہ جو سب سے سینئر ہے‘اسے یہ ذمہ داری سونپ دی جائے۔دوسری بنیاد فیصلہ ساز کا ضمیر ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ کون بہتر ہے۔قانونی بنیاد یہ ہے کہ یہ انتخاب فوج کے سینئر ترین افراد ہی میں سے ہو سکتا ہے۔یا یہ کہ انتخاب کا یہ حق صرف وزیراعظم پاکستان کے پاس ہے۔
اخلاقی بنیادیں جاننے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں۔اس لیے جو میرٹ بنے گا‘وہ صرف قانونی بنیادوں ہی پر بن سکتا ہے۔اگرآرمی چیف کے انتخاب میں کوئی قانونی بنیاد نظر انداز ہو رہی ہے تو خان صاحب اس کی نشاندہی کریں۔ اب تک اس معاملے میں کوئی ایسی پیش رفت سامنے نہیں آئی جس سے اندازہ ہوتا ہو کہ اس اہم منصب پر جو تقرر کیا جا رہا ہے‘اس میں میرٹ کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ ایک مفروضہ ہے جس کی کوئی قانوی بنیادی ہے نہ اخلاقی۔
اگر یہ بات درست ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ خان صاحب کے نزدیک‘ میرٹ سے کیا مرادہے؟اگر ان کے سیاسی ماضی کو سامنے رکھا جائے تو ان کے خیال میں میرٹ صرف ان کے فرمان کا نام ہے۔وہ اگر کسی کو کسی منصب کے لیے اہل قرار دے دیں تو یہی میرٹ ہے۔اگروہ اپنے فرمان کے مطابق کسی صوبے کے سب سے بڑے ڈاکو کواس کا وزیر اعلیٰ بنا دیں تو یہ میرٹ ہے۔اگر عثمان بزدار صاحب کو تمام پارٹی اور ریاستی اداروں کی مخالفت کے باجود پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر سال ہا سال قائم رکھیں تو یہ میرٹ ہے۔ اگر خود ہی اپنے ایک وزیر کو کرپشن کے الزام پر وزارت سے ہٹا کر پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنا دیں تو یہ میرٹ ہے۔
ایک آدمی کی ہر بات کواسی وقت حق کہا جا سکتاہے جب وہ مامور من اللہ ہو۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے فیصلے کے پیچھے عالم کا پروردگار کھڑا ہوتا ہے۔ختمِ نبوت کے بعد یہ باب بند ہو گیا۔اب کسی فردِواحد کا فیصلہ‘ اس کافرمان‘ میرٹ کا فیصلہ نہیں کرسکتا۔یہی سبب ہے کہ نظامِ حکومت و ریاست چلانے کے لیے میرٹ کو قانونی صور ت دینا پڑی ہے۔ آج اگر کسی دفتر کے لیے نائب قاصد کا انتخاب کرنا ہے تو اس کے لیے ایک قانونی معیار ہے۔ملک کا وزیراعظم بھی چاہے تو اس کو ختم نہیں کر سکتا۔ایک نظام کو قائم رکھنے کا اس کے سوا کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا۔
نظام میں جہاں گنجائش ہوتی ہے وہاں‘لوگ اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور سماج کو اس کے اثرات بھگتنا پڑتے ہیں۔پنجاب کے وزیراعلیٰ کے لیے عمران خان صاحب چاہتے ہوئے بھی کسی ایسے فرد کو یہ ذمہ داری نہیں سونپ سکتے تھے جو پنجاب اسمبلی کا رکن نہ ہو۔ان ارکان میں سے لیکن عثمان بزدارکا انتخاب کیا جائے یا کسی اور کا‘یہ ان کی صوابدید تھی اور اسی کو ہم کسی فیصلے کی اخلاقی بنیاد کہتے ہیں۔
قانون اعتبار سے اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ سپہ سالار کا انتخاب میرٹ پر نہ ہو۔عمران خان صاحب کا واویلا ایک فیصلے سے سیاسی مفاد کشید کرنے کی ایک کوشش ہے۔