کیا آنے والی گھڑی بھی عمران خان صاحب کی ہے؟
پچھلا کالم غزالی اور ابنِ رشدکے قضیے پر تھا۔ کاش میرے لیے ممکن ہوتا اور میں خود کو ان موضوعات تک محدود رکھ سکتا۔ صدیاں پہلے‘ کبھی زاویۂ سقراط میں اور کبھی حلقۂ افلاطون میں ان پر بحث ہوتی تھی۔ ہمارے بزرگوں نے بھی انہیں موضو ع بنایا اور ایک صدی بعد بھی یہ اسی طرح ترو تازہ ہیں۔ یہی وہ سنجیدہ مباحث ہیں‘ زندہ قومیں جن پرکلام کرتی ہیں۔ ہمارے لیے زندہ موضوع مگر کیا ہے؟ عمران خان کی گھڑی؟ میں ان موضوعات سے فرار چاہتا ہوں۔ اخباری کالم کا مزاج مگر یہ ہے کہ وہ انہی کے گرد گھومتا ہے۔ سیاستِ دوراں ہی اس کو مرغوب ہے۔
لوگ کہتے ہیں: اگر سیاست پر لکھنا ہے توعمران خان ہی کیوں؟ میرا جوابی سوال ہوتا ہے: تو پھرکوئی اور موضوع بتائیے؟ عمران خان کا دھرنا۔ عمران خان کی گھڑی۔ عمران خان کے بدلتے نصب العین اور اہداف۔ سیاست میں اس کے سوا رکھا کیا ہے؟ ان کے مداحوں کو توخوش ہونا چاہیے کہ ان کا لیڈر موضوعِ سخن ہے۔ یہ خان صاحب کی کامیابی ہے کہ سیاست ان کے گرد گھوم رہی ہے۔ ان کے حق میں یا ان کے خلاف۔ ان کا ہر تازہ ارشاد نئی بحث اٹھا دیتا ہے۔ مثال کے طور پر جمعہ کو فرمایا: ''اچھا چلو مان لیا‘ اسٹیبلشمنٹ حکومت کے خاتمے میں شامل نہیں مگر وہ روک تو سکتی تھی‘‘۔خان صاحب نے اس جملے میں اپنا مکمل بیانیہ بند کردیا ہے‘ یوں کہیے کوزے میں دریا بند کر دیا ہے۔ اب تک وہ اس باب میں جو کچھ کہتے رہے‘ اس کے مطابق ان کی حکومت کے خلاف جو سازش ہوئی‘ اس کے تین کردار ہیں۔ ایک امریکہ‘ دوسراپی ڈی ایم اور تیسرا کردار مقتدرہ کا تھا۔ ایک نے پسِ پردہ رہ کر کام کیا۔ دوسرے نے برسرِ زمین اس کو عملی شکل دی اور تیسرے نے (بقول عمران خان) نیوٹرلز‘ میر جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کیا۔
اب آہستہ آہستہ انہوں نے سازش کی اس داستان کو نئے سرے سے لکھنا شروع کیا ہے۔ سب سے پہلے امریکہ کے بارے میں لہجے کو نرم کیا۔ کہا: جو ہوا‘ اس کو بھول جائیں۔ ہم امریکہ سے دوستانہ تعلقات کے نئے دور کا آغاز کرتے ہیں۔ اب اس امکان کو بھی مان لیا ہے کہ مقتدرہ اس سازش کا حصہ نہیں تھی۔ پیچھے بچا پی ڈی ایم۔ گویا جو کیا دھرا ہے‘ وہ پی ڈی ایم کا ہے۔پی ڈی ایم نے کب انکار کیا ہے کہ یہ اس کا کام نہیں۔ یہ اتحاد اعلانیہ ان کی حکومت کے درپے تھا۔ وہ تو ڈنکے کی چوٹ پر اس بات کا کریڈٹ لیتے ہیں کہ یہ کام انہوں نے تنہا کیا ہے۔ اس سے سازش کا بیانیہ خود بخود دم توڑ دیتا ہے۔ سازش خفیہ منصوبے کو کہتے ہیں۔ یہ کھلی جنگ تھی۔ خان صاحب کی آڈیوز سامنے آچکیں کہ کیسے وہ اراکینِ اسمبلی کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے ہر حربہ آزما رہے تھے۔ ان آڈیوز کو خان صاحب یا تحریکِ انصاف نے جعلی نہیں کہا۔ دوسری طرف پی ڈی ایم ان کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے سرگرم تھی۔ پی ڈی ایم جیت گئی۔ گویا یہ تمام تر ایک سیاسی عمل تھا۔ اس میں سازش کہاں سے آگئی؟
اس سے یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ عمران خان صاحب فوج کے سیاسی کردار کے حق میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ ان کی حکومت کی تبدیلی میں شامل نہیں تھی تو اس نے سیاست دانوں کو روکا کیوں نہیں؟ سوال یہ ہے کہ مقتدرہ کس آئین کے تحت سیاست دانوں کو روکتی کہ وہ ایک وزیراعظم کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک نہ لائیں؟ کون سا قانون اسے یہ حق دیتا ہے؟ یہ بیان ایک بار پھر واضح کر رہا ہے کہ خان صاحب فوج کے سیاسی کردار کے خلاف نہیں ہیں۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ فوج ان کا ساتھ دیتی رہے۔
اس رویے کو کس بنیاد پر آئینی اور جمہوری کہا جا سکتا ہے؟ یہ تو فوج کو سیاست میں کھلم کھلا مداخلت کی دعوت ہے۔ عمران خان صاحب دراصل جمہوریت کے اس ماڈل پر یقین نہیں رکھتے جو دنیا میں رائج ہیں۔ وہ چین کے ماڈل کو مثالی سمجھتے ہیں۔ یہ ماڈل کیا ہے؟ یک جماعتی نظام‘ فوج بھی جس کا حصہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی یہی نظام ہو۔ ایک جماعت کی حکمرانی ہو اور وہ جماعت ان کی جیب میں ہو۔ جو مخالفت کرے‘ اسے آہنی ہاتھوں سے کچل دیا جائے۔خان صاحب نے جو سوت کاتا تھا‘ واقعہ یہ ہے کہ اس کے تارو پود اپنے ہاتھوں سے بکھیر دیے۔ اس کے ایک ایک جزو سے رجوع کیا۔ کسی کا انکار زبانِ قال سے کیا اور کسی کا زبانِ حال سے۔ اب منظر کچھ ہوں ہے کہ ''سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے‘‘۔ ان سے حسنِ ظن رکھنے والوں میں اگر کوئی سوچنے سمجھنے والا بھی تھا تورؤف کلاسرا صاحب جیسے باخبر لوگوں کے مطابق‘ وہ انگشت بدنداں ہے یا مہر بلب۔
مبینہ سازش میں امریکہ کے کردار پر خان صاحب نے نرم رویہ اختیار کر لیا ہے‘ اس لیے اس کے بارے میں مزیدکچھ کہناغیرضروری ہے لیکن ایک بات کا تذکرہ لازم ہے۔ ہمیں بتایا یہ گیا تھا کہ خان صاحب کا دورۂ روس امریکہ کی ناراضی کا باعث بنا۔ وہ روس سے پٹرول اور گیس خریدنا چاہتے تھے اور یہ بات امریکہ کو پسند نہیں تھی۔ امریکہ نے اپنی غلامی سے نکلنے کی اس کوشش کی پاداش میں ان کو ایوانِ اقتدارسے نکلوا دیا۔ اب حقیقت کیا ہے؟ خان صاحب کے دور میں اس سمت میں ایک قدم کی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اب موجودہ حکومت نے روس کو باضابطہ طور پر لکھ دیا ہے کہ پاکستان اُس سے پٹرول اور گیس خریدنا چاہتا ہے۔ گویا سازش کا شکار ہونے والے کچھ نہیں کر سکے مگر سازش کے نتیجے میں قائم ہو نے والی 'امپورٹڈ‘ حکومت نے پہلا قدم اٹھا دیا۔
خان صاحب کے بیانیے کی خشتِ اوّل تھی خان صاحب کی دیانت اور روپے پیسے سے بے نیازی۔ اس کا موازنہ دیگر اہلِ سیاست کی 'کرپشن‘ سے کیا جاتا تھا جسے اس بیانیے میں ایک مسلمہ کی حیثیت حاصل تھی۔ اس گھڑی تو یہی اینٹ نیچے سے سرک چکی۔ پہلی بار خان صاحب بیک فٹ پر کھیل رہے ہیں۔ ان کا جارحانہ انداز دفاعی انداز میں بدل گیا ہے۔ انہیں اور ان کی جماعت کو وضاحتیں دینا پڑ رہی ہیں۔ ہر وضاحت ایک نئے سوال کو جنم دے رہی ہے۔ ایک گھڑی میں وہ کہاں سے کہاں جا پہنچے۔ کل تک آرمی چیف کا تقرر ان کے نزدیک ملک کا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ فرمانِ امروز یہ ہے کہ یہ جس کو چاہیں آرمی چیف لگادیں‘ مجھے تو کوئی مسئلہ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب مسئلہ نہیں تھا تو یہ واویلا کیوں تھا؟ آپ نے قوم اور ریاست کو اس اضطراب میں کیوں مبتلا کیے رکھا؟ پسِ پردہ ملاقاتیں کیوں ہوتی رہیں؟ معلوم ہوتا ہے کہ خان صاحب نے نوشتۂ دیوار پڑھ لیا ہے اور اب نئے حقائق سے خود کو ہم آہنگ کر رہے ہیں۔سیاست اسی ہم آہنگی کا نام ہے۔ دیواروں سے سر ٹکرانا سیاست نہیں ہوتی۔ سیاست حکمت کا دوسرا نام ہے۔ خان صاحب کی ایک خوبی جہدِ مسلسل ہے۔ حکمت اگر اس قوتِ عمل کے ساتھ ہم قدم ہو جائے تو ان کا راستہ آسان ہو سکتا ہے۔ آدمی مگر افتادِ طبع کا اسیر ہے۔ خان صاحب افتادِ طبع ہی نہیں‘ اپنی ذات کے بھی اسیر ہیں۔ اگر وہ اس سے آگے دیکھ سکتے تو معاشرے کو بہت کچھ دے سکتے تھے۔ وہ حالات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں مگر ذات کے لیے۔آج کی گھڑی تو گزر جائے گی۔ کل کی گھڑی کس کی ہے‘ کوئی نہیں جانتا۔ گزری گھڑی مگر یہ بتا رہی ہے کہ فطرت کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔ ضروری ہے کہ سب کی نظر گھڑی پر لگی رہے۔
مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیحِ روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ