بالآخر انور ابراہیم ملائیشیا کے وزیراعظم بن گئے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس منصب پر کتنا عرصہ رہ پائیں گے۔
مہاتیر محمدنے ہر جائزناجائز حربہ اختیار کرتے ہوئے‘ان کا راستہ روکا۔ انور مگر ہمت نہیں ہارے۔یہاں تک کہ وہ وقت آیا کہ ایک طرف مہاتیر محمد کی ضمانت ضبط ہو رہی تھی اور دوسری طرف انور ابراہیم پر وزارتِ عظمیٰ کا دروازہ کھل رہا تھا۔یہ وزارت مگر خدشات میں گھری ہوئی ہے۔انور ابراہیم کی جماعت‘پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے باوجود‘ اقتدار کے لیے مطلوب نشستیں حاصل نہیں کر پائی۔اسے دوسری جماعتوں کی حمایت چاہیے۔ملائیشیا کی تاریخ یہ ہے کہ ایسے اتحاد زیادہ دیر قائم نہیں رہے۔اسی لیے ملائیشیا کی جمہوریت پربے یقینی کا سایہ ہے۔
مسلم ممالک کے جمہوری تجربات پر نظر ڈالنے سے ایک دلچسپ اور قدرے پریشان کن صورتِ حال سامنے آتی ہے۔پاکستان‘ ملائیشیا اور تیونیسیا (تیونس) کو دیکھیے تو جمہوریت نے عدم استحکام کو جنم دیا ہے۔داخلی تضادات نمایاں ہوئے ہیں اور انتشارِ فکر و عمل میں اضافہ ہوا ہے۔کہیں اس کا رخ پاپولزم کی طرف ہو گیا ہے جیسے پاکستان اور کہیں اس نے حقیقی جمہوری قوتوں کو دیوار سے لگا دیا ہے جیسے تیونیسیا۔
معاشی ترقی اور سیاسی استحکام کو پیمانہ مانا جائے تو مہاتیر محمد کا ملائیشیا‘طیب اردوان کاترکیہ اور حسینہ واجد کا بنگلہ دیش جمہوریت کے کامیاب ماڈل بن کر سامنے آئے۔ ان کے ساتھ مسئلہ مگر یہ رہا کہ یہ 'لبرل جمہوریت‘ کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ ان میں آمرانہ رنگ نمایاں رہا۔ مہاتیر محمد نے انور ابراہیم کی ایک عمر برباد کر دی اور یوں ملائیشیا کو ایک طویل عرصہ صاحبِ نظر قیادت سے محروم رکھا۔ آج جب وہ ایک کمزور حکومت میں وزیراعظم بنے ہیں تو ان کی عمر 75 سال ہو چکی۔
طیب اردوان نے ہر مخالف آواز کو دبانا چاہا۔ اہلِ سیاست‘ اہلِ مذہب‘ اہلِ دانش ‘میڈیا‘جس نے بھی ان سے اختلاف کیا‘اس کے لیے زندگی مشکل ہو گئی۔اس نے ایک سماجی اضطراب کو جنم دیا جس کے اثرات ترکیہ کی معیشت اورخارجہ پالیسی پر بھی پڑے۔بنگلہ دیش میں حسینہ واجد نے جس طرح عدالتوں اور ریاستی ڈھانچے کو اپنے سیاسی مخالفین کے لیے استعمال کیا اورجماعت اسلامی کے لیے پھانسی گھاٹ آباد کیا‘اس کو جمہوریت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔اسے ظلم ہی کہا جائے گا۔
ان مسائل کے ساتھ‘یہ بھی حقیقت ہے کہ مہاتیر محمد‘طیب اردوان اور حسینہ واجد کو عوام نے ووٹ دیے۔انہوں نے معیشت کوبہتر بنایا اور اس کے نتیجے میں سیاسی وسماجی ا ستحکام بھی آیا۔ان کے آمرانہ رجحا نات کے باوصف‘ان کے خلاف احتجاج کی کوئی تحریک نہیں اٹھی اورانہوں نے ایک سے زائد بار انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ترقی پزید ممالک کے لیے یہ ملک مثال قرار پائے۔جمہوریت اپنی روح میں مگر محض معاشی آسودگی کا نام نہیں۔جمہوریت میں ترقی کا پیمانہ جی ڈی پی میں اضافہ نہیں۔اس سے مراد ایک ایسا سیاسی نظام ہے جو ایک عام آدمی کی ذہنی‘فکری‘سیاسی‘معاشی اور سماجی آزادی کے لیے سازگار ماحول فراہم کرے۔ایک جمہوری معاشرہ وہی ہوتا ہے جو انسان کی آزادی کا ضامن ہو۔اگر فکری اور شخصی آزادی کو سلب کرکے‘اسے سونے کا نوالہ کھلا یا جائے تو انسانی ذہن اس کو قبول نہیں کرتا۔یہی وجہ ہے کہ مہاتیر محمد‘طیب اردوان اور حسینہ واجدکی حکومتوں کو جمہوری قرار دینا مشکل ہو جا تاہے؛ اگرچہ وہ عوام کے ووٹ سے حکمران بنے۔ 'پاپولزم‘ بھی اسی لیے جمہوریت سے مختلف ایک تصور ہے۔
مسلم دنیا کے جمہوری تجربات کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ ان میں کہیں بھی جمہوریت اپنی روح کے ساتھ جگہ نہیں بنا پائی۔اس میں صرف انڈونیشیا کا استثناہے۔ہر جگہ اس کی کوکھ سے آمریت نے جنم لیا۔اگر آمریت کا راستہ روکا گیا تو اس سے عدم استحکام پیدا ہوا یا پاپولزم۔مغربی اہلِ علم نے اس لیے اس سوال کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے کہ مسلم معاشروں کی فضا جمہوریت کے لیے کیوں سازگار نہیں؟میرے نزدیک اس کی وجہ مسلمانوں کی تاریخ ہے۔مسلمانوں میں ہمیشہ ملوکیت اور بادشاہت رہی۔خلافتِ راشدہ کے چند سال کاا ستثنا ہے۔مسلمانوں میں جن سیاسی افکارنے جنم لیا‘ان میں خاندانوں اور طبقات کی آمریت کو خلافت اورامامت کے عنوانات کے ساتھ دینی استدلال فراہم کیا گیا۔یوں آمریت مسلمانوں کی فطرت ثانیہ بن گئی۔ انہوں نے ہمیشہ یہی سوچاکہ ایک مسیحا آئے گا جو خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم کرے گا یا خدا کوئی 'السلطان العادل‘ بھیج دے گا جو زمین کو عدل سے بھر دے گا۔یہ بات کہ حکومت کا کوئی نظام عوامی سطح سے اٹھ سکتا ہے‘ان کے لیے زیادہ قابلِ فہم نہیں رہی۔مسلم مفکرین نے جب مسلمان حکمران یا امیر کے فرائض اور اس کے معیار کو موضوع بنایا تو اس کے اوصاف میں کہیں یہ بیان نہیں کیا کہ اسے اکثریت کا اعتماد حاصل ہو۔ ابن خلدون نے عصبیت کا نظر یہ دیا لیکن انہوں نے اسے ایک سیاسی حقیقت کے طور پر بیان کیا‘دینی ضرورت کے طور پر نہیں۔مسلم سیاسی مفکرین نے مسلم حکمران کے لیے اسے لازم نہیں قرار دیا۔یہی سبب ہے کہ جب مسلمان اہلِ علم نے اپنی کوئی جماعت بنائی تو اس میں امیر کے لیے سمع و طاعت کی بیعت کو لازم کہا۔ جو زیادہ روشن خیال تھے‘ انہوں نے امیر کو شوریٰ کا پابند بنایا لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ شریعت کا پابند ہو گا۔ اب شریعت کیا ہے‘اس کا تعین علما کریں گے۔اس طرح علما کے ایک طبقے کو شوریٰ پر بھی برتری حاصل ہوگئی۔ نظمِ حکومت میں اس کی جو عملی صورت سامنے آئی‘آج کا ایران اور افغانستان اس کی مثالیں ہیں۔
مولانا مودودی اس جمہوریت کو Theo-democracyکہتے ہیں۔ ترکیہ‘ بنگلہ دیش اور مہاتیر کا ملائیشیامگر اس کا مصداق نہیں۔یہ جمہوریت کا ایک دوسرا ماڈل ہے‘ میں جسے مسلم جمہوریت (Muslim Democracy) کہتا ہوں۔ یہ لبرل جمہوریت سے ایک مختلف تصور ہے جو جمہوریت اور آمریت کا ایک ملغوبہ ہے۔ میرا احساس ہے کہ یہ ماڈل جہاں بھی اختیار کیا جائے گا‘ چند سال بعد یہ آمریت میں بدل جائے گا یا عدم استحکام میں۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہر سماج کے لیے جمہوریت کا ایک مقامی ماڈل لازم ہے۔مسلم معاشرہ 'لبرل جمہوریت‘ کو اس طرح قبول نہیں کر سکتا جیسے یہ لبرل معاشروں میں پائی جاتی ہے؛ تاہم جمہوریت لبرل ہو یا مذہبی‘ اگر وہ شخصی و فکری آزادی کو یقینی نہیں بناتی تو اسے جمہوریت نہیں کہا جا سکتا۔ مسلم اہلِ دانش کا امتحان ایک ایسے جمہوری ماڈل کی تشکیل ہے جو جمہوریت کی اس روح کو سامنے رکھتے ہوئے‘ اسلامی معاشرت کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ یہ 'اسلامی جمہوریت‘ ہو گی جو 'تھیو ڈیموکریسی‘ اور 'مسلم ڈیموکریسی‘ سے مختلف ہو گی۔ شاید یہ وہی ہو جسے علامہ اقبال نے 'روحانی جمہوریت‘ کہا ہے۔ انور ابراہیم کہنے کو ملائیشیا کے وزیراعظم بن گئے لیکن ان کو سب سے پہلے جو چیلنج درپیش ہو گا‘ وہ حکومت کو مستحکم کرنا ہے۔ اس کے بعد وہ ملک کی خراب ہوتی معیشت کے بارے میں کچھ سوچ پائیں گے۔ یہ پل صراط عبور کرنا آسان نہیں۔ بادشاہت کا آئینی ادارہ اگر چہ ملائیشیا میں انارکی پیدا نہیں ہونے دیتا لیکن معاشی انارکی کو روکنا اس کے بس میں بھی نہیں ہو گا۔ انور ابراہیم ایک دانشور سیاستدان ہیں‘ ان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ جمہوریت کا ایک مقامی ماڈل تشکیل دے سکتے ہیں۔ وہ مذہبی ہونے کے باجود روایتی مذہبی گروہوں سے مختلف تصورات رکھتے ہیں۔ ملائیشیا کی چینی اور انڈین آبادی کیلئے وہ زیادہ قابلِ قبول ہیں جو مسلمان نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ 'فلاسفر کنگ‘ کے تصور کو زندہ کر سکتے ہیں یا نہیں۔ میں ان کی کامیابی کیلئے دعاگو ہوں۔