احسان‘ محسن‘ محسن کش... یہ اشرافیہ کے باہمی تعلق کا بیان ہے۔مجھے تو ان احسانات سے غرض ہے جو عوام پر کیے گئے۔عوام محسن کش ہیں نہ احسان فراموش‘اس لیے ہمیں یہ بندہ پروری اچھی طرح یاد ہے۔
میڈیا میں جنرل باجوہ صاحب کے جومصاحبین رہے ہیں‘اس سے ان کے ذوق کا کچھ اندازہ ہو تا ہے۔وہ اگر جنرل ایوب خان یا جنرل ضیاالحق کے ہم ذوق ہوتے اور انہوں نے قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر یا پھر صدیق سالک اورزیڈ اے سلہری جیسوں کی صحبت تلاش کی ہوتی تو عمران خان کے تازہ ترین ارشادات پر انہیں فیض صاحب ضرور یاد آتے:
وقفِ حرمان و یاس رہتا ہے
دل ہے‘ اکثر اُداس رہتا ہے
تم تو غم دے کے بھول جاتے ہو
مجھ کو احساں کا پاس رہتا ہے
یہ ہم عوام کا معاملہ ہے کہ جو احسان کو یاد رکھتے ہیں۔فیض صاحب عوام کی ترجمانی کرتے تھے۔اس لیے جب کوئی ہم عوام پر احسان کرتا ہے تو ہمیں فیض صاحب یاد آتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ہم پر بھی باجوہ صاحب کے بہت احسانات ہیں مگر ہم عمران خان یا عمران اسماعیل نہیں کہ ان کا سرِ عام انکار کر دیں۔ہم پر باجوہ صاحب ہی کے نہیں‘ ان کے پیشروؤں کے احسانات بھی کم نہیں۔سچ یہ ہے کہ ہم انہی کے زیرِسایہ عمر گزار رہے ہیں۔ہم آج جو کچھ ہیں‘ا نہی احسانات کے باعث تو ہیں۔
ہم پر ایک احسان تو 1979-80ء میں ہوا جب ریاست ہی نہیں‘ پورے سماج کو افغانستان کی جنگ میں جھونک دیا گیا۔اگر یہ فیصلہ ریاست ہی کی حد تک رہتا تو شایدہماری سماجی بُنت اس طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوتی۔ایسا نہیں ہوا۔اسے پورے معاشرے میں پھیلادیا گیا۔ہمارا تو ریزہ ریزہ بکھر گیا۔امن ہم سے روٹھ گیا اور خوف نے ہمیں اپنے حصار میں لے لیا۔ہمارا دین ہمارے ہاتھ سے لے لیا گیا اور اس کی جگہ کلاشنکوف پکڑا دی گئی کہ اب یہی تمہارا دین ہے۔تمہارے لیے جنت کا راستہ‘اپنے ہی بہن بھائیوں کے مقتل سے گزر کر جاتا ہے۔
ہم اب تک اس احسان کا بدلہ اتار رہے ہیں۔میں یہ سطور لکھ رہا ہوں توآج کے ایک انگریزی اخبار کی خون آلود شہ سرخی میری نظروں کے سامنے ہے۔یہ خون بنوں اور لکی مروت میں بہا ہے لیکن نکلا تو میرے بدن سے ہے۔یہ ان کا خون ہے جو ہماری سلامتی پرمامور تھے۔بنوں میں یہی لوگ یرغمال ہیں اور انہیں قید کرنے والے‘اپنی پناہ گاہ امارتِ اسلامی افغانستان جانے کے لیے راستہ چاہتے ہیں۔یہ وہی امارت ہے جس کی 'تعمیر‘ کے لیے ہم نے ساری دنیا کی لڑائی مول لی۔کابل کے پنج ستارہ ہوٹل میں کافی کے ایک گھونٹ کے ساتھ فتح کا جشن منایاگیا۔یہ وہی 'صدقہ جاریہ‘ ہے جس کا آغاز1979-80 ء میں ہوا تھا۔یہ لہو بھی ان کے نامۂ اعمال میں درج ہوگاجنہوں نے سب سے پہلے یہ مقتل سجایا اور اس میں پورے پاکستانی معاشرے کو جھونک دیا۔ یہ باجوہ صاحب کے ایک پیشرو نے آباد کیا تھا اور بہت سی جماعتوں اور افراد نے اس کی آبادی میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔
1971ء میں ملک ٹوٹا تھا‘سماج نہیں۔ہماری سماجی بُنت باقی رہی۔'ہم‘ سے مراد مغربی پاکستان ہے ورنہ مشرقی پاکستان میں تو سماج بھی گھائل تھا؛ تاہم ملک ٹوٹا تو وہاں سماجی شکست وریخت کا عمل رُک گیا۔وہ زخم مگر ابھی رس رہا ہے۔آج بھی اُس مقتل سے اٹھنے والی آوازوں کی صدائے بازگشت ہمیں امریکی کانگرس سے سنائی دے رہی ہے جہاںہم سے 1970ء کے واقعات پرمعافی کا مطالبہ کیاجارہا ہے۔
مغربی پاکستان کی حد تک ہم سماجی ڈھانچے کو بچا نے میں کامیا ب ہو گئے۔سیاسی قوتوں نے بالغ نظری دکھائی اور ہم نے متفقہ آئین بنا لیا۔ ایک سمت کا تعین ہو گیا۔ 1979 ء میں مگر جو کچھ ہوا‘اس نے ریاست ہی کو نہیں‘سماج کوبھی ادھیڑ کر رکھ دیا۔ریاست کا معاملہ یہ ہوا کہ اس سے پہلے ہمیں صرف بھارت سے جڑی سرحدسے خطرہ تھا۔آج مگر اس کے ساتھ شمال مغربی سرحد بھی غیر محفوظ ہے۔سماج کا حال تو میں بیان کر چکا کہ آج بھی ہم اس کے اثرات کی زد میں ہیں۔
دوسرا بڑا حادثہ2014ء میں ہوا۔ ضیاالحق صاحب کے ایک جانشین اور باجوہ صاحب کے ایک پیشرو نے ایک قافلہ ترتیب دیا اور نئے سفرکا آغاز کیا۔ 2013 ء میں ایک ایسا سیاسی نظام وجود میں آچکا تھا جس میں تمام قابلِ ذکر سیاسی جماعتیں شریکِ اقتدار تھیں۔قومی سطح پر دہشت گردی جیسے مسئلے پراتفاقِ رائے سے ایک حکمتِ عملی اپنائی جا چکی تھی۔ توانائی جیسے بحران کا حل تلاش کر لیا گیا تھا اوراس کے خاتمے کے لیے تیز عمل شروع ہو چکا تھا۔اس فضا کو یک لخت ایک فساد کے حوالے کر دیا گیا۔ تفصیلات کا بیان تحصیلِ حاصل ہے کہ ہم سب اس کے عینی گواہ ہیں۔ باجوہ صاحب نے اس قافلے کو کامیابی کے ساتھ منزلِ مقصود تک پہنچا دیا‘جس کی تنظیم ان کے ایک پیشرو نے 2014 ء میں کی تھی۔
جنرل باجوہ صاحب نے خود اس کا اعتراف کیا جب انہیں لگا کہ منزل کھوٹی ہو گئی ہے۔ انہوں نے اعلان فرمایا کہ اب ہم سیاست سے دور رہیں گے۔اب ہم نیوٹرل ہو گئے۔اب لیکن دیر ہو چکی تھی۔جن کو کندھوں پہ بٹھا کر وہ اس چوٹی تک لائے تھے‘انہوں نے ان کا دامن پکڑ لیا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیں۔ ان کا اصرار تھا کہ آپ چھ ماہ اور رہیں اور ہمیں ایک بار پھراپنے کندھے پر بٹھاکر اس چوٹی پر بٹھائیں جہاں 2018ء میں بٹھایا تھا۔جب معاملات ان کے ہاتھ سے نکل گئے توحسبِ روایت تحریکِ انصاف ان کے پیچھے ڈھول پیٹنا شروع ہوگئی۔چودھری پرویز الٰہی کو اچھا نہیں لگا کہ 'اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے‘۔
بہرحال‘خان صاحب کو احسان کا پاس ہونہ ہو‘ہمیں تو ہے۔ 1979-80ء کے بعد‘یہ دوسرابڑا حادثہ تھا جو ہمارے سماج پر گزرا اور اس نے ہمارے تار وپود بکھیر کر رکھ دیے۔پہلے حادثے سے جو اثاثہ بچ سکا‘وہ اس میں کام آگیا۔ہیجان نے نئی نسل کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ آداب اور تہذیب سے بے نیازی کو سیاسی شعور سمجھ لیا گیا۔ بدتمیزی کو سیاسی کلچر بنادیا گیا۔سیاست اختلافِ رائے کے بجائے تقسیم کی لکیر بن گئی۔جھوٹ کا مسلمات بنا کر پیش کیا گیا۔اقتدار کی کشمکش میں شریک ایک سیاستدان کو مسیحا بنادیا گیا۔ہر وہ الزام جو نوازشریف صاحب اور زرداری صاحب کے لیے خاص تھا‘اب باجوہ صاحب بھی اس سے براہِ راست استفادہ کر رہے ہیں۔
میرے ساتھ کیا ہوا؟ میرا دامن خالی ہے۔میں عوام ہوں اور میرے پاس کچھ نہیں۔میری معیشت بر باد ہو چکی اور میری تہذیب آخری سانس لے رہی ہے۔میں تقسیم ہو چکا۔مستقبل میرے لیے ڈرونا خواب ہے۔میں ذہنی مریض ہوں اور ذہنی مریضوں کے درمیان رہتا ہوں۔خان صاحب اور چودھری پرویز الٰہی پر جو احسانات ہوئے‘مجھے ان سے کچھ لینا دینا نہیں۔وہ اس کاا عتراف کرتے ہیں یا بقول پرویز الٰہی‘محسن کشی کا مظاہرہ کرتے ہیں‘یہ میرا مسئلہ نہیں۔یہ اشرفیہ کی باتیں اور وہی جانیں۔مجھے تووہ احسانات اچھی طرح یاد ہیں جو مجھ پر کیے گئے۔
تم تو غم دے کے بھول جاتے ہو
مجھ کو احساں کا پاس رہتا ہے