گزشتہ نو ماہ سے‘ ہر سیاسی جماعت‘ خسارے میں ہے‘ سوائے ایک کے۔ اور وہ ہے پیپلز پارٹی۔
نوا ز لیگ نے اپنی ہر شے داؤ پر لگا دی۔ سود وزیاں کو کوئی پیمانہ ہوگا اس کے پاس‘ جس کو سامنے رکھتے ہوئے‘اس نے یہ سودا کیا۔تحریکِ انصاف کا خسارہ بھی ظاہر و باہرہے۔پہلے حکومت گئی اور اب خان صاحب کے گرد تعمیر کی گئی فصیلِ رومان بھی مسمار ہو رہی ہے۔سیاسی انکشافات کی برسات میں سرخی و غازہ دھل رہا ہے۔جمعیت علمائے اسلام کا اخلاقی اثاثہ لُٹ چکا۔اور کس کا ذکر کروں کہ کوئی قابلِ ذکر ہے ہی نہیں۔سیاسی کساد بازاری کے اس موسم میں اگر کوئی استثنا ہے تو وہ پیپلزپارٹی کا ہے۔پیپلزپارٹی نے کھویا کچھ نہیں‘پایا بہت ہے۔
پیپلزپارٹی حکومت کا حصہ ہے لیکن اس کی ناکامیوں میں شریک نہیں۔ سارا ملبہ نون لیگ پر گر رہا ہے۔حکومت دو باتوں کو مجموعہ ہوتی ہے: گورننس اور معاشی استحکام۔ ملک میں کوئی استحکام ہے نہ معیشت سنبھل رہی ہے۔ گورننس کے مسائل ہوں تو لوگ سوالیہ نظروں کے ساتھ شہباز شریف صاحب کی طرف دیکھتے ہیں۔معیشت کی بات ہوتی ہے تو مفتاح اسماعیل سمیت‘ سب کا ہدف اسحاق ڈار ہوتے ہیں۔ ہر شکایت اور ہر غصے کا مخاطب یہی دو شخصیات ہیں اور دونوں کا تعلق نون لیگ سے ہے۔
کوئی یہ سوال نہیں اُٹھاتا کہ گورننس تو حکومت کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ پیپلز پارٹی‘ جمعیت علمائے اسلام اور کئی دوسری جماعتیں بھی اس میں شامل ہیں۔معیشت کی صورتِ گری میں‘پیپلزپارٹی کی وزیرِ مملکت بھی شامل ہیں۔ عوام کو لیکن ان سے کوئی غرض نہیں۔اس کی نظرمیں توحکومت صرف نون لیگ کی ہے۔وہ اس کو جوابدہ سمجھتی ہے۔عوام کی سوچ قابلِ فہم ہے۔اس کا جواز موجود ہے۔ پیپلز پارٹی کی سیاسی اساس سندھ میں ہے۔اس کی بنیادیں مضبوط ہے۔اس کو کوئی خطرہ نہیں۔بلاول بھٹو صاحب نے حکومت میں شمولیت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ عالمی سطح پر اپنا تعارف کرایا۔دنیا انہیں اب مستقبل کا لیڈر سمجھ رہی ہے۔گزشتہ نو ماہ میں‘قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیپلزپارٹی کی نشستوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پنجاب میں اس کی پذیرائی بڑھی ہے۔ صوبے میں اب اس کی موجودگی کا احساس ہو تا ہے۔ مزید یہ کہ جوڑ توڑ کے ایک ماہر کے طور پر‘ زارداری صاحب نے اپنا لوہا مزید منوایا ہے۔ حتیٰ کی پنجاب میں انہوں نے نون لیگ کا ہاتھ تھاما اور اسے بحرانوں سے نکالا ہے۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی پیپلزپارٹی کے تعلقات باوقار ہیں۔
سیاست اسی کا نام ہے۔ یہ واقعات کا رُخ اپنی طرف موڑنے کا فن ہے۔ یہ صبر کا تقاضا کرتی ہے۔ اس صلاحیت کا سب سے اچھا مظاہرہ پیپلزپارٹی نے کیا ہے۔ زرداری صاحب صحیح معنوں میں ایک ماہر سیاستدان کے طور پر سامنے آئے ہیں۔جو سیاستدان اس زعم میں مبتلا تھے یا انہوں نے اپنے گرد ایک خود ساختہ حصار بنا رکھا تھا کہ وہ اخلاقی برتری رکھتے ہیں‘ وقت نے ان کا صل چہرہ دکھادیا۔ سب آنکھوں کا دھوکا تھا۔ زرداری صاحب پر سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ وہ ہارس ٹریڈنگ کرتے ہیں۔عمران خان صاحب کی آڈیوزلیک نے بتا دیا کہ خان صاحب اس کام میں زارداری صاحب سے پیچھے نہیں۔اپنے اعتراف کے مطابق انہوں نے پانچ آدمی خریدے اور دوسروں کو اس کارِ خیر پر لگایا۔ اخلاقیات کے معاملے میں‘ اب کوئی سیاست دان یہ جرأت نہیں کر سکتا کہ وہ زرداری صاحب کو طعنہ دے۔ وقت آنے پر‘ سب اقتدار کے لیے سب کچھ کرنے پرآمادہ رہتے ہیں۔ اخلاقیات کے خود ساختہ کوہِ ہمالیہ جس طرح‘ہمارے نظروں کے سامنے زمین بوس ہوئے ہیں ‘اس کے بعدکوئی دوسرے کو الزام نہیں دے سکتا۔
روایتی سیاست خیر و شر کا مجموعہ ہے۔غیر روایتی سیاست سے‘ میں نے کوئی خیر برآمد ہوتے نہیں دیکھا۔جو باہر آیا‘وہ سب نے سُن لیا اور دیکھ لیا۔سب سیاست کر رہے ہیں اور سب سے بہتر سیاست پیپلز پارٹی کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پیپلزپارٹی‘پنجاب میں اپنی کوئی ہوئی ساکھ بحال کر سکتی ہے؟ کیا وہ بکھرے قافلے کو ایک بار پھر مجتمع کر سکتی ہے؟میرے نزدیک یہی سوال ہے‘جس کے جواب پرآنے والے سیاسی منظر نامے کا بڑا انحصار ہے۔پیپلزپارٹی کی سیاسی قیادت نے اگر سیاست فہمی کا یہ سلسلہ برقرار رکھا تو مجھے اس صوبے میں اس کا مستقبل بہت روشن دکھائی دیتا ہے۔
پنجاب میں آج کی تحریکِ انصاف‘گزرے کل کی پیپلز پارٹی ہے۔ پیپلز پارٹی کے نظریاتی لوگ نواز شریف صاحب سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ ہے۔ پنجاب میں اگریہ جماعت زوال کا شکار ہوئی تو اس کا سبب نوازشریف صاحب بنے۔ ان کے آنے کے بعد پنجاب میں کسی کا چراغ روشن نہ رہ سکا۔ اگر کوئی بچ نکلا تو مقتدرہ کی مہربانی سے۔ اعتزاز احسن کی سیاست ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی۔ اگر وہ شریف خاندان کی مخالفت میں ہر اخلاقی اور سیاسی قدر پامال کرتے سنائی دیتے ہیں تویہ ان کے اندر کی نفرت ہے جو انہیں اس پر مجبور کرتی ہے۔ یہ نفرت اعتزازاحسن کو تحریکِ انصاف میں نہیں لے جا سکی لیکن یاسمین راشد کو لے گئی۔ عمران خان کی صورت میں پیپلز پارٹی کے جیالے کو وہ آدمی نظر آیا جو نوازشریف صاحب سے اس کا انتقا م لے سکتا تھا۔ اس لیے اس نے پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر تحریکِ انصاف کا رُخ کر لیا۔ اس کے جذبات کی قدرے تسکین ہوگئی لیکن اسے یہاں پیپلز پارٹی کا کلچر نہیں مل سکا۔اس کے اندر یہ خواہش بہر حال موجود رہی کہ صوبے میں ایک بار پارٹی کا احیا ہو۔ آج اسے یہ امکانات دکھائی دینے لگے ہیں۔ ایک طرف زرداری صاحب نے کمال حکمت کے ساتھ موجود امکانات کو اپنے حق میں استعمال کیا اور ودسری طرف عمران خان کی مقبولیت کا عمل نہ صرف تھم گیا بلکہ اب ڈھلوان پر ہے۔
ان دو اسباب سے میرا خیال ہے کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کا مستقبل روشن ہے۔یہ تحریک ِ انصاف کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں۔اگر یہ جیالا لوٹ گیا تو نئی نسل کا ہیجان پارٹی کی تنظیم کا تھام نہیں سکے گا۔نون لیگ کو نقصان یہ ہو گا کہ وہ لبرل دانشور جو اس کی حمایت میں کھڑا ہے‘وہ بھی پیپلزپارٹی کا رخ کرے گا کہ اس کے لیے اصل جائے قرار پیپلزپارٹی ہی ہے۔ مقتدرہ کی مخالفت نے اسے نواز شریف صاحب کا ہم نوا بنا دیا تھا ورنہ اس کا نون لیگ سے کیا تعلق؟ پیپلزپارٹی کا اگر پنجاب میں احیا ہوتا ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ اس پارٹی کا سیاسی کلچر ہے۔ میرا تاثر یہ ہے کہ آج بھی سیاسی شعور کے اعتبار سے پیپلزپارٹی کاکارکن دیگر جماعتوں کے کارکنوں سے کہیں بہتر ہے۔ اس کا رویہ بالغ نظری کا مظہرہے۔ اگر بلاول بھٹو کو کوئی اچھا اتالیق میسر آجائے تو ان کی کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے۔ ان کی شخصیت کی اٹھان سیاسی ہے اور اسی وجہ سے ان کا مستقبل روشن دکھائی دیتا ہے۔ آدمی کمزوریوں پر قابو پا سکتا ہے مگرافتادِ طبع پر نہیں۔
پیپلز پارٹی کا پنجاب میں مقبول ہونا ملک کیلئے ایک اچھی خبر ہے۔ ریاستوں کو قومی سیاسی جماعتیں ہی متحد رکھتی ہیں۔ ایسی جماعتوں کی موجودگی ضروری ہے جو ہر صوبے میں نمائندگی رکھتی ہوں۔ اس اعتبار سے آج ملک میں تین ہی قومی جماعتیں ہیں۔ تحریک انصاف‘ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی۔ ان کا مضبوط ہونا نیک شگون ہے۔ آج تحریکِ انصاف کی حمایت تو موجود ہے لیکن اس کے پاس سیاسی قیادت نہیں ہے۔ اس لیے اس کے مستقبل کے بارے میں کوئی پیشگوئی کرنا مشکل ہے۔ سیاست ہیجان اور نفرت کا نام نہیں ہے۔ یہ چند مثبت اقدار سے وابستگی کا تقاضا کرتی ہے۔ تحریکِ انصاف کو اگر زندہ رہنا ہے توسیاست کے تقاضے نبھانا پڑیں گے۔