نون لیگ کے فطری قائد نواز شریف صاحب ہیں۔ کسی وجہ سے اگر وہ منظر پر نہیں ہیں تو پھر جماعت کی قیادت کا عَلم کس کے ہاتھ میں ہونا چاہیے؟
قیادت کسی ریاست کی ہو‘ سیاسی جماعت کی ہو یا کسی تحریک کی‘ کچھ اوصاف کا تقاضا کرتی ہے۔ سماجی علوم کے ماہرین ان کو بیان کرتے آئے ہیں۔ یہ بیان بالعموم مثالی ہوتا ہے۔ فیصلہ زمینی حقائق ہی کرتے ہیں۔ انتخاب موجود لوگوں ہی میں سے کیا جاتا ہے۔ جو اس معیار سے قریب تر ہوتا ہے‘ قیادت اس کو سونپ دی جاتی ہے۔ کسی سبب سے اگر اس معیار سے انحراف ہو تو یہ ملک ہو یا سیاسی جماعت‘ اسے اس کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔
افلاطون نے ریاست کے سربراہ کے لیے ایک معیار متعین کیا۔ ان کی کتاب میں‘ جس کا اردو ترجمہ 'الجمہوریہ‘ کے عنوان سے ہوا‘ ایک فلاسفر کو سب سے زیادہ اس منصب کا اہل قرار دیا گیا ہے۔ مسلم علمِ روایت میں ماوردی اور ابنِ خلدون سمیت بہت سے لوگوں نے ان اوصاف کی فہرست مرتب کی ہے۔ علامہ اقبال نے میرِ کارواں کے لیے چند صفات کا ہونا ناگزیر قرار دیا ہے۔ مولانا سید ابو الااعلیٰ مودودی نے بھی امیرکے اوصاف اور اختیارات کو موضو ع بنایا ہے۔
سیاسی جماعت اور حکمران کے لیے معیار ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سیاسی جماعت کا قائد ہی عام طور پر حکمران بنتا ہے۔ جو سیاسی راہ نما ایک جماعت کو منظم اور مستحکم رکھ سکتا ہے‘ اسی سے یہ توقع ہوتی ہے کہ وہ ریاست کو بھی استحکام دے گا۔ یہی سبب ہے کہ جب ایک جماعت انتخابات میں کامیاب ہوتی ہے تو اعلیٰ ترین منصب کے لیے اس کے قائد ہی کو منتخب کیا جاتا ہے۔
اخلاقی معیارات کا تعلق سماج کی عمومی سطح سے ہوتا ہے۔ صحابہ کرام کا معاشرہ ہوگا تو حضراتِ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی سطح کے لوگ حکمران اور سیاسی راہ نما بنیں گے۔ معاشرہ اگر ہما شما پر مشتمل ہوگا تو پھر قیادت بھی اسی معیار کی ہوگی۔ ایک بات‘ تاہم ہر عہد میں ایک مسلمہ حقیقت کے طور پر موجود رہی ہے اور وہ ہے عوامی عصبیت۔ معاشرے کی اخلاقی سطح ادنیٰ ہو یا اعلیٰ‘ استحکام اس کی بنیادی ضرورت ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے آدمی برا ہو یا بھلا‘ اسے زندہ رہنے کے لیے روٹی کی ضرورت ہے۔ پارٹی وہی مستحکم اور منظم ہوگی جس کے لیڈر کی کارکنوں اور وابستگان میں پزیرائی ہوگی۔
دوسرا وصف جو ایک لیڈر میں لازماً ہو نا چاہیے‘ وہ جرأت ہے۔ مصلحت سیاست کی ناگزیر ضرورت ہے لیکن یہ جرأت سے متصادم وصف نہیں ہے۔ جرأت یہ ہے کہ اس سفر میں اگر کوئی مشکل مقام آئے تو لیڈر اس کا عزم و ہمت کے ساتھ سامنا کر سکے۔ جسے وہ غلط سمجھتا ہے‘ وہ اس کی مزاحمت کر سکے۔ کوئی لالچ اسے اپنے مقصد سے ہٹا نہ سکے۔ عوام اسی کو اپنا راہ نما بنانا چاہتے ہیں جو جرأت و بہادری کی علامت ہو۔ میرے نزدیک بصیرت اور حکمت جیسے اوصاف بہادری سے کم اہم نہیں لیکن عوام بالعموم اس کو وہ اہمیت نہیں دیتے جو بہادری کو دیتے ہیں۔
اس معیار کو سامنے رکھیں تو کون ہے جو آج نون لیگ کی قیادت کا اہل ہے؟ شاہد خاقان؟ رانا ثنا اللہ؟ انہوں نے مشکل وقت میں بہادری کا مظاہرہ کیا۔ جھوٹے مقدمات کا جرأت سے سامنا کیا۔ شاہد خاقان صاحب نے بطور وزیراعظم عوام کو متاثر کیا‘ لیکن کیا انہیں ملک میں سیاسی عصبیت حاصل ہے؟ اگر انہیں نون لیگ کی قیادت سونپ دی جائے تو کیا وہ ملک بھر کے عوام کے لیے باعثِ کشش ہیں؟ اپنی خوبیوں کے باوصف‘ وہ عوام میں یہ مقبولیت نہیں رکھتے کہ لوگ ان کی طرف کھنچے چلے آئیں۔ اچھائی کا اعتراف ایک اور شے ہے اور سیاسی عصبیت ایک اور چیز۔
نون لیگ میں اگر کوئی اس معیار پر پورا اترتا ہے تو وہ مریم نواز ہیں۔ مریم نے پچھلے پانچ سال میں یہ بتایا ہے کہ وہ جرأت اور بہادری کے ساتھ حالات کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔ اس معاملے میں ان کا کردار کسی طور سے لیگی راہ نما سے کم نہیں۔ جیل میں ان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا‘ اس میں بڑے سے بڑے پہلوان کا زہرہ آب ہو جاتا ہے۔ اس کے باجود انہوں نے سر نہیں جھکایا۔
اس میں شبہ نہیں کہ آج وہ نون لیگ میں سب سے مقبول راہ نما ہیں۔ ان کی یہ مقبولیت صرف اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ نواز شریف صاحب کی بیٹی ہیں۔ آج سے پانچ سال پہلے اگر کوئی یہ بات کہتا تو شاید اس میں وزن تھا لیکن آج ان کے خلاف یہ ایک کمزور دلیل ہے۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ میرٹ پر نون لگ کی قیادت کی مستحق ہیں۔ نواز شریف صاحب کی نرینہ اولادکے بارے میں عوامی جذبات یہ نہیں ہیں۔ اگر محض اولاد ہونا میرٹ ہوتا تو وہ قیادت کے مستحق سمجھے جاتے۔
اس کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھیے۔ اقتدار سے رخصتی کے بعد نون لیگ میں دو بیانیے سامنے آئے۔ ایک یہ کہ مقتدر قوتوں سے بنا کر رکھی جائے اوران کی تائید سے دوبارہ اقتدار تک پہنچا جائے۔ دوسری رائے یہ تھی کہ ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔ ایک سیاسی تبصرہ نگار اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ یہ مزاحمت تھی جس نے نون لیگ کو بطور جماعت قائم رکھا۔ مزاحمت کا عَلم نواز شریف نے اٹھایا یا مریم نواز نے۔
پارٹی میں پہلے بیانیے کا غلبہ ہوا تو نون لیگ کو اقتدار مل گیا لیکن اس کا مستقبل خطرات میں گھر گیا۔ وہ ملک کی مقبول ترین عوامی جماعت ہوتے ہوئے بھی ایک بڑے بحران سے دوچار ہو گئی۔ مصلحت کی سیاست نے اگر وقتی فائدہ پہنچایا تو ساتھ ہی اندیشوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔ عمران خان انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہو گئے۔ ان کا حلقۂ اثر‘جو ان کے دفاع سے عاجز آچکا تھا‘ اس کے تنِ مردہ میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ نوبت یہاں تک آپہنچی کہ لوگ نون لیگ کی قیادت اور بیانیے کو تلاش کر نے لگے۔
مریم نواز کے واپس آنے سے اب نون لیگ سیاسی افق پہ دکھائی دینے لگی ہے۔ مہنگائی نے عوام کا اضطراب کئی گنا بڑھا دیا ہے لیکن اس کے باجود مریم نواز عوام میں جا رہی ہیں اور کھوئی ہوئی مقبولیت کو لوٹانے کی جستجو میں ہیں۔ اگر نون لیگ کے اندر مریم کے علاوہ کوئی لیڈر موجود تھا تو ان کی غیرموجودگی میں وہ یہ خلا کیوں بھر نہیں سکا؟ اس کی سادہ وجہ وہی سیاسی عصبیت ہے۔ یہ عصبیت اس وقت ان کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں۔
یہ صورتحال مریم نواز اور پارٹی کے سینئر رہنماؤں‘ دونوں کے لیے آزمائش ہے۔ مریم کی آزمائش یہ ہے کہ وہ ان راہنماؤں کی نفسیات کا اندازہ کرتے ہوئے کیسے ان کو پارٹی سے وابستہ رکھتی ہیں۔ شاہد خاقان اور سعد رفیق جیسے لوگ ضائع کرنے کے لیے نہیں ہوتے۔ دوسری طرف ان رہنماؤں کو یہ سمجھنا ہے کہ سیاسی عصبیت زبردستی پیدا نہیں ہو سکتی۔ یہ پارٹی کا عہدہ مل جانے سے بھی حاصل نہیں ہوتی۔ ان کا احترام اسی میں ہے کہ وہ پارٹی سے وابستہ رہیں۔ پارٹی چھوڑنے سے یا کسی دوسری جماعت میں جانے سے ان کی عزت میں اضافہ نہیں ہوگا۔ دوسرا یہ کہ دوسری جماعت میں بھی زیادہ سے زیادہ وہی مقام حاصل ہوگا جو انہیں یہاں پہلے سے میسر ہے۔ اگر‘ مثال کے طور پر وہ تحریک انصاف میں جاتے ہیں تو عمران خان کا مردِ ثانی یا ثالث بن کر ہی رہنا ہو گا۔ یہ حیثیت انہیں یہاں بھی حاصل ہے۔
مستحکم قومی جماعتیں ملک کے استحکام کے لیے ضروری ہیں؛ تاہم یہ لازم ہے کہ وہ داخلی سطح پر ایک جمہوری کلچر اور ایسے اسباب پیدا کریں کہ باصلاحیت لوگوں کو پارٹی میں مقام مل سکے۔