عام آدمی سے اسلام کے عملی مطالبات ‘عقلِ عام کے ہر معیار پر پورا اترتے ہیں۔یہ ہمارے واعظ ہیں جنہوں نے زیبِ داستان کے لیے ان کی نوعیت کو یکسر بدل دیا ہے۔ان کی تفہیمِ دین پر انحصار کرنے والے یہ خیال کرتے ہیں کہ مذہب‘ عقلِ عام سے متصادم یا ناقابلِ عمل ہے۔
ہر جمعہ کو اس بات کا تکلیف دہ حد تک احساس ہو تا ہے۔ہمارے ہاںلوگ جمعہ کی نماز کے لیے خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔جس طرح عرب میں نمازِ پنجگانہ‘وہاں کے کلچر کا حصہ ہے‘اسی طرح جمعہ ہمارا کلچر ہے۔اگر کسی کو نماز کی توفیق نہ ہو تو وہ اتنا اہتمام ضرور کرتا ہے کہ اس دن شلوار قمیص پہن لیتاہے۔اس کے لاشعور میں یہ بات بیٹھ چکی کہ یہ اسلامی لباس ہے ۔یوں وہ انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہو جاتا ہے۔تاہم اکثر یت جمعہ کی نمازپڑھتی ہے۔ ہمارے واعظ کی مگر یہ خواہش ہے کہ جو نمازِ جمعہ کے لیے مسجد کا رُخ کرتا ہے‘اس کو اتنا زِچ کیا جائے کہ کم ازکم اگلے سات دن مسجد سے دور رہے۔
جمعہ کے اجتماعات کے لیے اکثر مساجد چھوٹی پڑ جاتی ہیں۔بالخصوص وہ جو عوامی مقامات پر تعمیر کی جا تی ہیں۔جیسے مارکیٹ اور بازار۔جب جمعہ کے لیے لوگ مسجد کا رُخ کرتے ہیں تو عام طور پر سڑکوں اور راستوں پر صفیں بچھا دی جاتی ہیں۔اس سے چند مسائل پیدا ہوتے ہیں۔جیسے معمول کی ٹریفک رک جا تی ہے۔یاموسم کی شدت سے بچنے کا انتظام نہیں ہوتا۔گرمیوں میں سایہ نہیں ہوتا اور بارش میں سائبان نہیں ملتا۔اب عقلِ عام کا تقاضا یہ ہے کہ خطبہ مختصر ہو تا کہ معمول کی زندگی متاثر نہ ہو اور لوگ بھی موسم کے اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔
خطیب کو مگر اس کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔بار ہا مشاہدہ ہوا کہ نماز وقت پر کھڑی نہیں ہوتی۔نمازِ جمعہ کا وقت ہوجاتا ہے۔لوگ بے چینی کے ساتھ بار بار گھڑی دیکھتے ہیں مگرواعظ کی شعلہ بیانی اورخوش الحانی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔بعض اوقات بارش ہو رہی ہوتی ہے اور نماز کے بعد کی دعا بھی طویل سے طویل تر ہوتی چلی جا تی ہے۔باہر کھڑے لوگوں کا نماز میں کوئی دھیان نہیں ہوتا۔ان کی ساری توجہ اس پر ہوتی ہے کہ کب نماز ختم ہو اور وہ بھاگیں۔اس میں تشویش کی بات یہ ہے کہ کوئی نمازی اس جانب توجہ دلانے کی کوشش کرے تو مداخلت فی الدین کا مرتکب قرار پاتا ہے۔بعید نہیں کہ اس پر توہینِ مذہب کا الزام بھی لگ جائے۔یہ الزام ایک عام آدمی کو کس انجام سے دوچار کر سکتا ہے‘اس کا خیال ہی لرزہ طاری کر دیتا ہے۔اس لیے لوگ تنگ ہونے کے باوجود بولنے کی جرأت نہیں کرتے۔
یہ رویہ دین کے احکام کی صریح خلاف ورزی اور حکمت کے خلاف ہے۔عہدِ رسالت میں خواتین باقاعدگی سے مسجد آیا کرتی تھیں اور ان کے شیر خوار بچے بھی ان کے ساتھ ہوتے تھے۔رسالت مآب ﷺ کا طرزِ عمل یہ تھا کہ اگر کسی بچے کے رونے کی آواز کان میں پڑتی تو نماز کو مختصر فرما دیتے کہ بچہ تادیر تکلیف میں رہے اورنہ ماں کا دھیان نماز سے ہٹے۔آپ نے وعظ ونصیحت کو مختصر رکھنے کی تلقین فرمائی کہ مخاطب کے لیے باعث اذیت نہ ہو۔صحابہ کا طرزِ عمل بھی ایسا ہی تھا۔مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی کتاب ''دعوتِ دین اور اس کا طریقہ کار‘‘ میں اس کے بہت سے شواہد جمع کر دیے ہیں۔
فنِ خطابت اور تقریر سے مجھے بچپن ہی سے شغف ہے۔یہ ایک اچھے خطیب کی نشانیوں میں سے ہے کہ وہ سامعین کے چہروں سے ان کی دلچسپی کا اندازہ کر لیتا ہے۔ اسے معلوم ہو جاتا کہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔مزید سننا چاہتے ہیں یا ان کے چہرے ‘بات کو مختصرکرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔سید عطا اللہ شاہ بخاری تو یہ فرمایا کرتے تھے کہ میں اپنے موضو ع کا انتخاب لوگوں کے چہرے دیکھ کر کرتا ہوں۔جمعے کے اجتماعات میں حاضرین کے چہرے پکار پکار کر اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ خدا را مختصر کیجیے‘بلکہ بعض تو احتجاج کی طرف مائل ہوتے ہیں مگر ہمارے واعظین ان سے بے نیاز کلام کو طول دیے جاتے ہیں۔یہی سبب ہے کہ ان خطبا کا اپنے سامعین سے گفت و شنید کا کوئی باہمی رشتہ قائم نہیں ہوتا۔ یہ صرف سمع خراشی ہو تی ہے۔اس طرزِ عمل کا دین سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ دین سے بیزار کرنے کا باعث بنتا ہے۔
اسی طرح پنجگانہ نماز دین کا حکم ہے۔یہ بھی عقلِ عام پر مبنی ہے۔دین کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے بندے ہیں اورہمیں اسی احساسِ بندگی کے ساتھ زندگی گزارنی ہے۔نماز اس کی یاد دہانی ہے۔اس کی رکعتیں مختصر ہیں۔اس کے احکام بھی فرد کے حالات کی نسبت سے دیے گئے ہیں۔وضو نماز کے لیے ضروری ہے۔عام حالات میں اس کاپورا اہتمام ہوگا۔تاہم موسم کی شدت‘بیماری یا کسی غیرمعمولی مصروفیت یا سفر کے باعث اس میں تخفیف کر دی گئی ہے اور اجازت دی گئی ہے کہ تیمم کیا جا سکتا ہے یاوضو کرتے وقت‘جرابوں پر مسح کیا جا سکتا ہے۔اسی طرح دو نماز یں جمع کی جا سکتی ہیں۔سفر اور بیماری میں فرض نماز کی رکعتیں بھی کم کی جا سکتی ہیں۔اس معاملے کو بھی مگر اتنا پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ عقلِ عام نے اس پر سوالات اٹھانے شروع کر دیے ہیں۔اگر آج لوگوں کو نماز کی ادائیگی مشکل لگتی ہے تواس کی کوئی ذمہ داری دین پر نہیں ہے۔یہ بھی واعظین ہی کی عطا ہے جنہوں نے اسے مشکل بنا دیاہے۔
عزیمت کا راستہ ہر کسی کے لیے کھلا ہے۔انسانوں میں ایسے بھی ہیں جو تہجد کے وقت اٹھتے اور اس کے حضور میں حاضری دیتے ہیں۔صائم الدہربھی ہیں جو اکثر روزے کی حالت میں رہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کو یہ ادائیں بہت محبوب ہیں۔وہ ان کی قدر کرتا ہے اور یقیناً ان کا اجر بھی زیادہ ہے۔تاہم انسانوں کا پروردگار‘عام حالات میں انسانوں سے جو بنیادی مطالبات کرتا ہے‘ان پر عمل بہت آسان ہے۔خاص طور پر عبادات۔پھر ان احکام میں ترجیحات بھی ہیں۔کچھ زیادہ اہم ہیں‘ کچھ کم تاہم یہ اس وقت میرا موضوع نہیں۔افراط و تفریط کے ضمن میں یہ ایک دوسرا طرزِ عمل ہے جسے حضرت مسیحؑ نے ان الفاظ میں بیان کیا کہ تم مچھر چھانتے اور اونٹ نگلتے ہو۔یعنی دین میں اہم احکام کو نظر انداز کرنا اورچھوٹی چھوٹی باتوں پر زیادہ اصرار کرنا۔اس نے بھی دین کو عقلِ عام کے بالمقابل لا کھڑا کیا ہے۔
فکری مباحث اپنی جگہ مگر پاکستان میں عام آدمی کواس بات کی تعلیم دینا اشد ضروری ہے کہ دین پر عمل سہل ہے۔یہاں دین چونکہ نجی شعبے کے پاس ہے‘اس لیے علما کی زیادہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو ان زنجیروں سے آزاد کریں جو غیر ضروری طور پر‘ انہیں مذہب کے نام پر پہنائی گئی ہیں۔یہاں ایک تحریک اٹھنی چاہیے: 'دین آسان ہے‘۔ لوگوں کو باور کرایا جائے کہ دین عقلِ سلیم کے مطابق ہے اور انسانوں سے کوئی ایسا مطالبہ نہیں کرتا جو غیر معقول ہے۔اگر عوام کو کوئی ایسی بات بتائی جاتی ہے تو یہ کسی کاسوئے فہم ہوگا۔دین اس سے بری ہے۔
اس تحریک کا آغاز نمازِ جمعہ کے معاملے میں عقلِ عام کے استعمال سے ہوتا چاہیے۔مدرسے میں تعلیم کے مرحلے میں ‘اگر حکمت ِدعوت کو بھی موضوع بنایا جائے تو شایدکچھ بہتری آ سکے کہ مسجد کے منبر پر بیٹھنے والا‘بالعموم مدرسے کا فراغ التحصیل ہوتا ہے۔