نرگسیت کیا ہے؟
اپنے ہی حسن و جمال میں کھو جانا اور اس سے حَظ اٹھانا‘ خود لذتی کہیں جسے۔ نرگسیت پسند کے لیے یہ تمام کائنات ایک آئینہ ہے۔ 'جس طرف آنکھ اٹھائیں 'میری تصویراں ہیں‘۔ یہ انسان ہو یا کوئی شے‘ ہر وجود کی قدر و قیمت کا تعین اس سے ہو گا کہ میرے لیے اس کی افادیت کیا ہے؟ گلاب اگر کسی دوسرے کے آنگن میں کھلا ہے تو میرے لیے بے معنی ہے‘ اِلا یہ کہ اس کی مہک میرے مشامِ جاں کو معطر کرے۔ زندگی کی اگر کوئی معنویت ہے تو بس اتنی کہ میں زندہ رہوں۔ کوئی مرے یا جیے‘ مجھے اس سے کیا؟ نرگسیت کا حاصل صرف ایک لفظ ہے: میں۔ میں اور فقط میں۔
نرگسیت پسند میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے کہ وہ اپنی آسودگی کے لیے ساری دنیا کو آگ میں جھونک دے۔ اس لیے اگر ایسا شخص کسی قوم کا قائد بن جائے تو لازماً اسے کسی طوفان سے آشنا کرتا ہے۔ وہ قوم بہرصورت برباد ہوتی ہے جو کسی نرگسیت زدہ کو اپنا لیڈر مان لے۔ اس کا ایک لازمہ یہ ہے کہ وہ خود بھی برباد ہوتا ہے۔ ہٹلر کی طرح‘ ایک دن اس کی لاش کسی تہہ خانے میں پڑی ہوتی ہے: بے گور۔ بے کفن۔
خود غرض اور خود پسند میں فرق ہے۔ خود غرضی ایک اخلاقی عارضہ ہے۔ خود پسندی ایک نفسیاتی مرض۔ خود غرض کو لیڈر ماننا بھی خسارے کا سودا ہے لیکن اتنا نہیں جتنا ایک نرگسیت زدہ کو راہ نما بنانا۔ خود غرض کم از کم اپنے بچاؤ کی فکر تو کرتا ہے۔ وہ اس حد تک نہیں جاتا کہ اپنے سوا سب کچھ برباد کر ڈالے۔ اسے اتنا فہم ضرور ہوتا ہے کہ دوسروں کے وجودکا باقی رہنا‘ خود اس کے مفاد کا تقاضا ہے۔ وہ اتنی منطق تو جانتا ہے کہ فاعل کے لیے مفعول کا ہونا ضروری ہے۔ خود پسند اس سے بے نیاز ہوتا ہے کہ اس کی نظر میں دوسروں کا وجود ہی ثابت نہیں ہوتا۔ وہ انہیں موجود مانتا ہے تو اپنے عکس کے طور پر۔ وحدت الشہود کی سطح پر۔ اس لیے دوسروں کا ہونا نہ ہونا فی الحقیقت اس کے لیے بے معنی ہوتا ہے۔
سیاست کا مزاج‘ نرگسیت زدہ آدمی کے لیے سازگار نہیں۔ وہ اگر سیاست میں آ جائے تو اس کی حرکیات کو بدل دیتا ہے۔ وہ اسے حقیقت کے بجائے ایک رومان پر استوار کرتا ہے۔ رومان بھی وہ جو اس کی ذات کے گرد گھومتا ہے۔ سیاست میں رومان نظریے کا بھی ہوتا ہے۔ یہ رومان باقی رہتا ہے اگر اس کا عَلم بردار نہ رہے۔ کوئی دوسرا اٹھتا اور یہی جھنڈا اٹھا لیتا ہے۔ نرگسیت میں یہ نہیں ہوتا۔ اس میں اوّل و آخر ایک ہی ہے۔ وہی آغاز ہے اور وہی اختتام۔ اس سے پہلے اندھیرا اور اس کے بعد بھی تاریکی۔
حقیقی مذہب اور کلٹ کی بنیاد پر وجود میں آنے والے مذہب میں یہی فرق ہوتا ہے۔ حقیقی مذہب اسی لیے زمان و مکان کی قید سے نکل جاتا ہے۔ وہ زندگی کو پاکیزہ بنانے میں مسلسل اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی تعلیمات ابدی ہوتی ہیں۔ کوئی اس کو سمجھنا چاہے تو اس خطبے کو پڑھ لے جو رسالت مآبﷺ کی دنیا سے رخصتی کے وقت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی زبانِ صدق سے صادر ہوا۔ واقعہ یہ ہے کہ مذاہبِ عالم کی تاریخ میں الہامی لٹریچر کے بعد شاید ہی کسی نے مذہب کا مقدمہ اس طرح پیش کیا ہو۔ اتنا شفاف‘ اتنا مضبوط‘ اتنا عقلی اور اتنا مستحکم۔ پھر امیر المومنین نے جس طرح قرآن مجید سے استدلال کیا‘ وہ ان کے رسوخ فی العلم کا شاندار بیان ہے۔
مذہبی کلٹ نرگسیت کی پیداوار ہوتا ہے۔ مذہب کے نام پر اٹھنے والے ان جعل سازوں کی عمر کم ہوتی ہے۔ ان کا مذہب ان کی ذات ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کو سچے پیغمبروں کی طرح‘ کسی برتر ہستی‘ کسی مقصدِ حیات کی طرف نہیں بلاتے۔ وہ لوگوں کو خود پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں۔ وہ اپنا دھرم ہوتے ہیں اور دوسروں کا بھی۔ گویا اپنا دھرم برباد کرتے ہیں اور دوسروں کا بھی۔ یہ نرگسیت کا مذہبی ظہور ہے۔
نرگسیت زدہ ذہنی طور پر پست لوگ ہوتے ہیں۔ بڑے لوگ وہی ہوتے ہیں جو زندگی کو کسی آدرش کے نام کر دیتے ہیں۔ کسی برتر مقصدِ حیات سے وابستگی انسان کے لیے اس کی ذات کو غیر اہم بنا دیتا ہے۔ یہ اخلاص اسے اتنا بڑا بنا دیتا ہے کہ اسے خود اپنی بڑائی کا ڈھنڈورا نہیں پیٹنا پڑتا۔ یہ کام اس کے لیے وقت اور تاریخ کرتے ہیں۔ اسے سوشل میڈیا کے تنخواہ دار ملازمین کی حاجت نہیں رہتی۔ عظمت اس پر ٹو ٹ ٹوٹ کر برستی ہے اور وہ خود اس سے بے نیاز ہوتا ہے۔ وہ جہاں جاتا ہے عظمت وہیں ڈیرہ ڈال دیتی ہے۔
میری مجبوری ہے کہ میں اپنے آئیڈیل مسلم تاریخ میں تلاش کرتا ہوں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دیگر مذاہب میں بڑے لوگ نہیں ہوتے۔ مدر ٹریسا کا نام تو ابھی نوکِ زبان پر آگیا۔ میں مگر جس روحانی فضا میں جیتا ہوں وہ مجھے اس تاریخ سے نکلنے نہیں دیتی۔ عمرؓ ابن خطاب جب عالمی قوت کے سربراہ بن گئے تو وہ خود کلامی کرتے کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے وہ کیا تھے۔ کیسے ان کا باپ بچپن میں انہیں پیٹا کرتا۔ خود کو یاد دلاتے کہ یہ عظمت ان کا شخصی کمال نہیں۔ اس کی اساس اُس تصورِ حیات میں ہے جس کا شعور انہیں اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کی صحبت سے عطا ہوا۔ تادمِ مرگ اس پر اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتے رہے۔ تاریخ نے ان کی شہرت کا اہتمام یوں کیا کہ دنیا اسلام کو مانے نہ مانے‘ عمر فاروق ؓ کو ضرور مانتی ہے۔ عمرؓ اللہ کے بندے تھے اور اسی میں اپنا کمال سمجھتے تھے۔ یہ شعور نرگسیت زدہ کو کبھی نصیب نہیں ہوتا۔
پروردگار اگر انسانوں کو شعور عطا کرے تو وہ کسی نرگسیت پسند کو اپنا راہ نما نہ بنائیں۔ وہ رہنمائی کے دعویداروں میں اللہ کا بندہ تلاش کریں۔ ایسا آدمی جو اپنی ذات سے بلند ہو سکتا ہو۔ جسے اپنی شہرت کے لیے سچے جھوٹے افسانے نہ تراشنا پڑیں۔ وہ جسے راہ نما بنائیں‘ اس کا احتساب بھی کر سکیں اور جب چاہیں اسے منصبِ دلبری سے معزول بھی کر سکیں۔ اس کے ساتھ رومانوی کے بجائے سچائی اور حقیقت پر مبنی تعلق استوار کریں۔ یہ بات ذہن میں تازہ رکھیں کہ راہ نما اگر عوام سے وفا دار نہیں تو وہ بھی اس سے وفا دار نہیں۔
سیاست کو نرگسیت پسندوں سے پاک کرنے کے لیے لازم ہے کہ سیاست کو رومان سے پاک کیا جائے۔ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے لیڈر کا سراپا ایسے کھینچتی ہیں جیسے کوئی مسیحا ہو۔ سپر ہیومن۔ عوام کی شعوری سطح بلند ہو تو سیاسی جماعتوں میں گوئبلز پیدا نہ ہوں۔ انہیں معلوم ہو کہ وہ جب عام انسان کو مافوق الفطرت ثابت کریں گے تو لوگ ان پر ہنسیں گے۔ ان کا مذاق اڑائیں گے۔
پاکستانی قوم کو آج ایک وقفہ‘ ایک مہلت میسر آئی ہے کہ وہ سیاست کو ایک بار پھر حقیقت کی نظروں سے دیکھے۔ انتخابات سے پہلے پہلے‘ وہ اہلِ سیاست کی صفوں کا جائزہ لے کہ ان میں کوئی مسیحا یا سپر ہیومن تو نہیں۔ اگر دکھائی دے تو جان جائے کہ ایک جھوٹ کو انسانی صورت میں مجسم کر دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقتدار کی سیاست میں مسیحا نہیں ہوتے‘ صرف فراڈ سے بنائے جاتے ہیں۔ اِلا یہ کہ کسی کے لیے خدا آسمان سے اپنا فیصلہ جاری کر دے۔ یہ سلسلہ بھی چودہ سو سال پہلے ختم ہو گیا۔ وہ لوگ دنیا سے رخصت ہو چکے جن کے ساتھ اللہ نے کوئی وعدہ کیا تھا۔
انسانوں کی بستیوں میں انسان تلاش کریں‘ دیوتا نہیں۔ نرگسیت زدہ لوگوں سے ہوشیار رہیں۔ توحید بھی یہی ہے اور عقل پسندی بھی یہی۔