خوش گوار زندگی کے لیے تصورِ حیات اہم ہے یا وسائلِ حیات؟
کہتے ہیں ترکیہ میں سرِ شام قہوہ خانے آباد ہو جاتے ہیں۔ لوگ مل بیٹھتے ہیں اور دیر تلک فضا قہقہوں سے گونجتی رہتی ہے۔ میں نے مساجدکو بھی اسی طرح آباد دیکھا ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی قبر کے ساتھ ایک مسجد ہے۔ مجھے وہاں فجر کی نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ میں نے فجر کی نماز میں بیت اللہ یا مسجد نبوی کے علاوہ اتنا بڑا اجتماع کم ہی دیکھا ہے۔ نماز کے بعد بہت سے لوگ اذکار میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ بہت سے اردگرد کے ریستورانوں میں ناشتے کے لیے جمع ہو جاتے ہیں۔ زندگی اپنی رنگا رنگی اور گہماگہمی کے ساتھ پوری طرح محسوس کی جا سکتی ہے۔ کیا اس سکون کا سبب ترکیہ کے مکینوں کی آسودہ حالی ہے؟
واقعہ یہ ہے کہ سکون کا کوئی تعلق وسائل کے ساتھ نہیں ہے۔ خوش رہنا ایک فن ہے جو کم لوگوں کو آتا ہے۔ اگر آپ سیکھ جائیں تو افلاس زدہ زندگی کو بھی متبسم بنا سکتے ہیں۔ اور اگر آپ یہ فن نہیں جانتے تو امارت بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ امیر علاقوں میں زندگی کبھی اس طرح نہیں چہکی جیسے اندرونِ لاہور یا راولپنڈی کے بنی چوک میں مسکراتی‘ بل کھاتی لہراتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ مشاہدہ بتاتا ہے کہ جسے جینا کہتے ہیں‘ وہ دولت سے بے نیاز ایک عمل ہے۔
وسائل سے زندگی سہل بنائی جا سکتی ہے‘ پُر سکون نہیں۔ وسائل سے آپ گھر کے لیے ہر شے خرید سکتے ہیں مگر سکون نہیں۔ کم خواب اور مخمل کے بستر میں بے خوابی آپ کے نہ چاہنے کے باجود آپ کے ساتھ رات گزارتی ہے۔ دوسری طرف میں نے لوگوں کو دیکھا کہ جھونپڑی میں ایسی گہری نیند سوتے ہیں کہ سر پہ ڈھول بجاتے رہیں‘ مجال ہے جو آنکھ کھُل جائے۔
یہ تصورِ زندگی ہے جو رویوں کو جنم دیتا ہے۔ ترکیہ میں آسودگی ہے لیکن لوگوں کے رویے اس سے نہیں‘ کلچر سے بنے ہیں جس میں زندگی مصیبت نہیں ہے۔ یہ وبالِ دوش نہیں ہے۔ لڑکے اور لڑکیاں شام کو جمع ہوتے‘ شیشہ اور سگریٹ پیتے اور خوش رہتے ہیں۔ یہ خوش رہنا تصورِ زندگی کا حاصل ہے۔ میں نے ترکوں کو پاکستان میں دیکھا ہے۔ ان کے خاندان بھی اسی طرح خوش رہتے ہیں۔ مرد اور عورت سمارٹ اور متحرک۔ شاید ہی کسی کی توند نکلی ہوئی دکھائی دے۔ بسیار خور نہیں‘ خوش خوراک ہیں۔
ہم بھی کبھی ایسے ہی تھے۔ خوش رہنے والے اور خوش رکھنے والے۔ پھر کسی کی ایسی نظر لگی کہ نہ خوش رہنے والے رہے نہ خوش رکھنے والے۔ ماتم زدہ اور ماتم کناں۔ یہ فضا ایسی طاری ہوئی کہ جانے کا نام نہیں لے رہی۔ اس رویے کو درست ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کے نظریات کا سہارا لیا گیا۔ مشرق میں یہ کہا گیا کہ زندگی دراصل دکھ کا نام ہے۔ شہزادے کو اس کا ادراک ہوا تو اس نے بیوی بچے کو چھوڑا اور جنگلوں کا رُخ کیا۔ کہتے ہیں کہ اس نے نروان پا لیا۔ کیا یہی نروان ہے کہ دنیا کو دکھوں کی آماجگاہ مان لیا جائے؟
ہمارے مذہبی تصورات بھی اصلاح طلب ہیں۔ مذہب نے اگر دنیا کو مسافر خانہ کہا تو اس لیے کہ اسے مستقل ٹھکانا نہ سمجھا جائے۔ مذہب چاہتا ہے کہ انسان فکرِ آخرت میں جیے اور اسے ہی مستقل ٹھکانا سمجھے۔ اس فکرکا مطلب یہ نہیں کہ ہنسنا چھوڑ دے۔ زندگی کو عذاب بنا دے‘ اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی۔ خود پر زندگی کی ہر نعمت حرام کر لے۔ اس نے نعمت کے شکر کی تعلیم دی ہے نہ کہ عدم استعمال کی۔ شکر کچھ پا لینے کا احساس ہے۔ کھانا کھائے بغیر اس کا شکر بے معنی ہے۔ ہم زندگی کی آسائشوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور پھر ان کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ان سے دور رہنا تو شکر کی تعریف میں نہیں آتا۔
مذہب کے نزدیک زندگی دو طرح کے احساسات میں جینا ہے: شکر اور صبر۔ شکر یہ ہے کہ جو دیا گیا ہے‘ اس سے حظ اور فائدہ اٹھائیں اور اس پر سجدۂ شکر بجا لائیں۔ صبر یہ ہے کہ جو میسر نہیں‘ اس کی حسرت میں نہ جیا جائے۔ اگر کچھ نہیں ملا تو اس کا مطلب ہے کہ منعم نے آنے والی زندگی کے لیے اٹھا رکھا ہے۔ ہر وقت کا رونا پیٹنا اور واویلا مذہب نہیں ہے۔
ٹی وی سکرین پر میں دیکھتا ہوں کہ لوگ چیختے ہوئے بات کرتے ہیں۔ گفتگو کے لیے ایسے لفظوں کا انتخاب کرتے ہیں جن میں شدت پائی جاتی ہے۔ جیسے ان کی جان کسی شکنجے میں پھنسی ہوئی ہے۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی اسی کرب میں مبتلا ہو جائیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ نے خودکو سکون سے محروم کر رکھا ہے تو دوسروں کا سکون کیوں غارت کرتے ہیں؟ میں نہیں سمجھ سکا کہ ٹی وی والے اپنی سکرین ان کے حوالے کیوں کر دیتے ہیں؟
کہا جاتا ہے کہ دوسروں کے لیے آسانیاں تلاش کی جائیں۔ یہ کام وہی کر سکتا ہے جو اپنے لیے آسانیوں کا متلاشی ہو۔ جو زندگی میں آسانیوں کی اہمیت کو جانتا ہو۔ جس کا تصورِ حیات یہ ہو کہ زندگی کو آسان ہونا چاہیے۔ جس کے نزدیک دنیا دکھ کا گھر ہے اور یہی اس کی سرشت ہے‘ وہ آسانیاں کہاں سے تلاش کرے گا۔ عدم کو وجود کیسے بخشا جا سکتا ہے؟ بے جان سے جاندار کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟
یہ تصورِ زندگی ہے جو معمولات کو طے کرتا ہے۔ میں نے اسلام آباد میں کم وسائل والوں کی آبادیاں دیکھی ہے۔ سرِ شام لوگوں کی ٹولیاں سڑک کے کنارے بیٹھی تاش کھیل رہی ہوتی ہیں۔ برسوں سے یہی ہو رہا ہے۔ وسائل کم ہیں لیکن انہوں نے زندگی کو بوجھ نہیں سمجھا۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ان کی زندگی میں دکھ نہیں۔ دکھ سے کسی کو فرار نہیں۔ بات بس اتنی ہے کہ زندگی کو دکھ کے حوالے کر دیا جائے یا اس کی موجودگی میں ارد گرد پڑی خوشیوں کو دامن میں سمیٹ لیا جائے؟
زندگی کامیڈی نہیں ہے۔ زندگی لیکن سر تا پا ٹریجڈی بھی نہیں ہے۔ دکھ کو محسوس کرنے میں کوئی عیب نہیں۔ دکھ کو نہ محسوس کرنا عیب ہے۔ مسئلہ خود کو دکھ کے حوالے کرنا ہے۔ زندگی پر اس کی حاکمیت کو تسلیم کرنا ہے۔ ہمیں خوشی کو تلاش کرنا ہے۔ یہ بسا اوقات ہمارے اردگرد موجود ہوتی ہے مگر ہم اس کے وجود سے بے خبر ہوتے ہیں۔ دکھ کہیں نظر آجائے‘ آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لیتے ہیں۔ خوشی ہمارے لمس کو ترستی رہتی ہے۔
ہمیں وسائل جمع کرنے کی مسلسل اور جائز کوشش کرنی چاہیے۔ وسائل کی اہمیت مسلمہ ہے لیکن یہ جان لینا چاہیے کہ وسائل آنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ سکون بھی ساتھ آ جائے گا۔ وسائل کے انتظار میں اس سکون کو غارت نہیں کرنا چاہیے جو پہلے سے موجود ہے۔ بیوی کی توجہ اور بچوں کی مسکراہٹ کی صورت میں۔ ماں کی نظرِ رحمت کی شکل میں۔ باپ کے دستِ شفقت کے روپ میں۔ بہن بھائیوں کی بے لوث محبت میں۔ دوستوں کے ایثار میں۔
ہمیں وسائل سے زیادہ اپنے تصورِ زندگی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ مثبت اندازِ نظر وسائل کو بھی اپنی طرف کھینچے گا۔ یہ سکون کو خود تلاش کرکے آپ کے پاس لا بٹھائے گا۔ پاکستان میں تو صرف دکھوں اور مسائل ہی کی تجارت ہوتی ہے۔ تاجر ٹی وی سکرین پر چیخ چیخ کر اور اپنی سیاست کی دکان پر بیٹھ کر دکھوں کی تجارت کرتا ہے۔ ہم ان کی باتوں میں آکر اس سکون سے بھی محروم ہو رہے ہیں جو ہمیں وسائل کے بغیر میسر تھا۔ سوچئے‘ سیاست دانوں اور چیختے چنگاڑتے مبصرین کی باتوں میں آکر آپ کتنے رشتہ داروں اور دوستوں کی صحبت سے محروم ہو چکے ہیں؟