اسرائیل کا ظلم اب جواز اور عدم جواز کی بحث سے آگے نکل چلا۔
ظلم کا جواز تو خیر ہر صورت میں بے معنی بات ہے۔ آج معاملہ حماس کا نہیں‘ ان مظلوموں کا ہے جنہیں ان کے گھروں میں مارا جا رہا ہے۔ ان بچوں کا ہے جو جنگ کے ہجے بھی نہیں جانتے۔ ان ہسپتالوں کا ہے جن پر بم برسائے جا رہے ہیں۔ ان بستیوں کا ہے جنہیں تاراج کیا جا رہا ہے۔ ان بے گناہوں کا ہے جنہیں گھر سے بے گھر کیا جا رہا ہے۔ اس کیلئے جواز اور عدم جواز کی بحث بے معنی ہے۔
یہ اب کوئی مذہبی مقدمہ نہیں رہا۔ یہ ظالم اور مظلوم کا معاملہ ہے۔ کسی اسلامی ملک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات ختم نہیں کیے۔ اسلامی ممالک کی طرف سے تو ثالثی کی بات ہو رہی ہے۔ کولمبیا‘ چلی اور بولیویا جیسے ممالک البتہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات کو ختم کر رہے ہیں جو ظاہر ہے کہ اسلامی نہیں ہیں۔ یہ فلسطینیوں کی نسل کشی کا مقدمہ ہے۔ یہ مسلمانوں کیلئے زیادہ باعثِ اذیت ہے تو اس کا وجہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کی اکثریت مسلمان ہے۔ مذہب کیلئے جذبات کا پیدا ہونا فطری ہے۔ ہمارا درد اگر سوا ہے تو یہ بات قابلِ فہم ہے۔
اس فکری یک سوئی کے بعد ایک مشکل سوال سامنے آ کھڑا ہوتا ہے کہ اس ظلم کو کیسے روکا جائے؟ صورتحال ہمارے سامنے ہے۔ امریکہ سمیت عالمی قوتیں اعلانیہ اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہیں۔ ہماری سینیٹ نے بدھ کو یہ متفقہ قرارداد منظور کی ہے کہ جو ریاستیں اسرائیل کے ساتھ ہیں‘ وہ اس ظلم میں شریک ہیں۔ گویا ایک طرف وہ لوگ ہیں جو ظالم ہیں یا ان کے معاون ہیں۔ دوسری طرف کوئی ریاست ایسی نہیں ہے جو فلسطینیوں کیلئے اقدام پر آمادہ ہو۔ جو ممالک اسرائیل کے اس ظلم کی مذمت کر رہے ہیں‘ وہ جنگ بندی کیلئے اقوامِ متحدہ جیسے فورمز پر آواز اٹھارہے ہیں یا فلسطینیوں کو مرہم پٹی کا سامان بھیج رہے ہیں۔ عوام جذبات کے اظہار کیلئے سراپا احتجاج ہیں۔ یا چند بندوقیں ہیں جو چھپ چھپا کر دی جا رہی ہیں۔
جمہوری ملکوں میں ہونا تو یہ چاہیے کہ ان کے حکمران اپنے عوام کی آواز کو سنیں لیکن وہ اس پر آمادہ نہیں۔ برطانیہ میں بڑے مظاہرے ہوئے مگر برطانوی حکومت کی پالیسی نہیں بدلی۔ ایسے مظاہرے عراق پر جنگ مسلط کرنے کے خلاف بھی ہوئے تھے مگر ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ برطانیہ اور امریکہ کی حکمتِ عملی یہ دکھائی دیتی ہے کہ اسرائیل کو کھلی چھٹی ملی رہے۔ یہاں تک کہ آنے والے کئی برسوں میں فلسطین میں کوئی مزاحمتی تحریک نہ اٹھ سکے۔ جب یہ کام ہو جائے‘ اس وقت جنگ بندی کرا دی جائے۔
سوال یہ ہے کہ اس صورتحال میں کیا کیا جائے؟ کیا کوئی ایسی صورت موجود ہے کہ اسرائیل کو اس کے جرائم کی سزا ملے؟ ساری دنیا یہ چاہ رہی ہے کہ جنگ بندی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کو مزید ظلم سے باز رکھا جائے۔ گویا آج سب سے بڑی کامیابی یہ ہو گی کہ اسرائیل سے فلسطینیوں کیلئے زندگی کی امان طلب کی جائے۔ اگر یہ ہو جائے تو پھر کیا ہو گا؟ جو مار ڈالے گئے‘ کیا ان کا قصاص بھی مانگا جائے گا؟ صبرہ اور شتیلا کی پناہ گاہوں کو مقتل بنانے والوں کو کیا سزا ملی؟ اس واقعے کو چالیس برس گزر گئے۔ مظلوموں کی کوئی داد رسی نہیں ہوئی۔ اب اگر جنگ بندی ہو بھی جاتی ہے تو کیا اسرائیل سے اس کے مظالم کا حساب لیا جائے گا؟
اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ جو جواب طلب کر سکتے ہیں‘ وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جو جواب لینا چاہتے ہیں‘ ان میں اس کی سکت نہیں۔ گویا جنگ بندی سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ کیا اس کا مطلب ہے کہ مسلح مزاحمت جاری رکھی جائے؟ اگر اس کو بطور حکمتِ عملی اختیار کر لیا جائے تو کیا اس کے نتائج ماضی سے مختلف ہوں گے؟ کیا اس سے فلسطینیوں کی نسل کشی کا عمل آگے نہیں بڑھے گا؟ اسرائیل کے چند افراد مزید مر جائیں گے اور اس کیلئے امریکی اقتصادی اور عسکری امداد میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ کیا اس کے بعد اسرائیل کی فوج کو مزید مضبوط نہیں بنایا جائے گا؟
میں اس معاملے پر جتنا غور کرتا ہوں‘ مجھے صرف ایک ہی حل دکھائی دیتا ہے: صبر۔ اس لفظ میں چھپی حکمت کا ماخذ وحی ہے مگر اس کو عقلاً عام بھی سمجھ سکتا ہے۔ یہ پیغمبروں کی حکمتِ عملی کا سب سے بنیادی نقطہ ہے۔ مکہ مکرمہ میں جب اللہ کے رسولﷺ اوران کے ساتھی مخالفین کے ظلم کا ہدف بنتے تو آسمان سے صرف ایک آواز آتی: صبر کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ یہ وہ گروہ تھا جس سے نصرتِ الٰہی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ایک صحابی نے ایک بار شکایت کی: اللہ کی نصرت کب آئے گی؟ آج کا شاعر بھی سوال کرتا ہے کہ 'منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے‘؟ اللہ کے رسولﷺ کے چہرے پر تکدر کے آثار نمایاں ہوئے اور اپنے صحابی کو ان لوگوں کی تاریخ کی طرف توجہ دلائی جو اسی طرح ظلم سے گزرے۔
صبر کا مطلب بزدلی نہیں ہوتا‘ ورنہ عالم کا پروردگار کبھی یہ نہ کہتا کہ وہ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔ صبر کا مطلب اس وقفۂ امن کو یقینی بنانا ہے جو آپ کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ آپ اپنی قوت کو مجتمع کریں۔ اس کے ساتھ اس وقت کا انتظار کریں جب آپ اپنی بات منوانے کے قابل ہو جائیں۔ مخالف کو کم سے کم موقع دیں کہ وہ آپ کی قوت کو نقصان پہنچائے۔ یہ امن اتنا اہم ہے کہ اس کیلئے جائز مطالبے سے بھی دست بردار ہوا جا سکتا ہے۔ صلح حدیبیہ اس کی ایک مثال ہے۔ صبر ایک دینی ہدایت تو ہے ہی‘ اس کیساتھ عقلِ عام بھی اس کی تائید میں کھڑی ہے۔
اہلِ فلسطین کا مقدمہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہے۔ حقوقِ انسانی کے عصری تصور پر پورا اترتا ہے۔ انسانوں کی ایک بڑی تعداد اس کو درست سمجھتی ہے۔ عالمِ اسلام زبانی کلامی ہی سہی مگر ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ امت تو ہے ہی۔ فلسطینی اگر صبر کو بطور حکمتِ عملی اپنا لیں تو اس کا یہ فائدہ تو ضرور ہوگا کہ اُن کی نسل کشی رک جائے۔ ان کو مقدمہ عالمی سیاسی فورمز پر پیش کیا جاتا رہے۔ یہاں تک کہ عالمی منظر نامہ تبدیل ہو اور ان کے حق کو تسلیم کر لیا جائے۔
اس بحث میں پڑے بغیر کہ اسلام مسلح جد وجہد کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ میں نے جب اس حکمتِ عملی کو عقلی بنیادوں پر سمجھنے کی کوشش کی ہے تو بھی مجھے صبرکے علاوہ کوئی راستہ دکھائی نہیں دیا۔ اگر شرعی مطالبات اور اخلاقی تقاضوں کو نظرانداز کر دیا جائے تو بھی مجھے یہ حکمتِ عملی کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ اس کا ایک نتیجہ البتہ فلسطینیوں کی نسل کشی کی صورت میں میرے سامنے ہے اور میں اسے نظر انداز نہیں کر سکتا۔
کیا ہونا چاہیے‘ یہ خواہش کا اظہار ہے۔ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہو سکتا ہے‘ یہ ایک عملی سوال ہے۔ حکمتِ عملی خواہشات کے تابع نہیں ہوتی۔ شاعری یہاں کام نہیں آتی۔ شاعری جذبہ پیدا کر سکتی ہے مگر حکمتِ عملی نہیں بنا سکتی۔ علامہ اقبال نے خواہش کی تھی کہ کوئی تورانی رہے باقی نہ افغانی۔ نثر میں مگر انہوں نے بتایا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ اب 'قومی ریاست‘ کو مان کر ہی آگے بڑھا جا سکتا۔ آج سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ فلسطینیوں کا قتلِ عام کیسے روکا جائے؟ کیا یہی فلسطینیوں کی کامیابی ہے؟ دوسری طرف اسرائیل کیلئے خزانوں کے منہ کھل رہے ہیں۔ کیا ہم اس حکمتِ عملی کو کامیاب کہیں گے؟