میں جو کہنے گیا تھا‘ اُسے بھول گیا۔ جو سنا‘ وہ یاد رہ گیا۔ اس کی صدائے بازگشت آج تک میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ لوٹا تو میرے پاس بہت کچھ تھا۔ حکیمانہ باتوں کی صورت میں۔ کتابوں کی شکل میں۔
یہ ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب سے پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔ ایک آدھ بار ٹیلی فون پر بات ہوئی۔ یاد پڑتا ہے کہ ایک دفعہ کسی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بھی اکٹھ ہوا مگر اس طرح کہ میں اسلام آباد میں تھا اور وہ لاہور میں تھے۔ جدید ٹیکنالوجی اچھی ہے مگر اُس تہذیب کی طرح‘ جس کی وہ نمائندہ ہے۔ بات ہو جاتی ہے مگر انسان ایک دوسرے سے دور رہتے ہیں۔ بظاہر ایک جگہ‘ درحقیقت ہزاروں میل کے فاصلے پر۔ زور ابلاغ پر ہے‘ ملاقات پر نہیں۔
ڈاکٹر صاحب کا معاملہ خوشبو کی طرح ہے جسے پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہوا مہربان ہو تو اس کے دوش پر سوار مہک کہیں بھی پہنچ سکتی ہے۔ 'اخوت‘ کی خوشبو مجھ تک برسوں پہلے پہنچ چکی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کے کام کی اہمیت سے واقف تھا اور معترف بھی۔ سفر گریز طبیعت ملاقات میں آڑے آتی رہی۔ پھر یہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے امین بنا دیے گئے۔ اسلام آباد میں ان کا قیام بڑھ گیا اور مجھے لگا کہ اب ان سے ملنے کی خواہش واقعہ بن سکتی ہے۔ پھر یہ واقعہ ہو گیا۔
ان سے مل کرواپس آیا تو دو کتابیں بھی میرے ساتھ تھیں۔ ایک بندہ نواز کے ساتھ ادب نواز بھی میرے سامنے تھا۔ ان کی شخصیت کی ان دونوں جہتوں پر بہت سے لکھنے والے سبقت لے چکے۔ وہ جو مجھ سے بہتر لکھتے ہیں اور جن کا حلقۂ قارئین بھی مجھ سے کہیں وسیع تر ہے۔ 'السابقون الاولون‘ کا اعزاز ایسا ہے کہ اس میں ہمسری نہیں ہو سکتی۔ نیکی کا کام لیکن ہمسری کے لیے نہیں ہوتا۔ جماعت کھڑی ہو تو ہر مسلمان اس میں شریک ہو جاتا ہے۔ وارکعوا مع الراکعین۔
لوگ سوال اٹھاتے ہیں: اسلام کی معاشی تعلیمات غیر اسلامی تعلیمات سے مختلف کیسے ہیں؟ ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب کی کتاب 'اخوت کا سفر‘ سے معلوم ہوا کہ اس سوال کاجواب وزارتِ عظمیٰ تک پہنچنے والی ایک شخصیت کو بھی نہیں مل سکا تھا جس نے عمر کا ایک بڑا حصہ بینک کی ملازمت میں گزارا۔ یوں کہیے کہ اس کی نذر کر دیا۔ نذر تو کر دیا مگر 'نذر و نیاز‘ کا مفہوم نہ جان سکے۔ ڈاکٹر صاحب نے 'اخوت‘ کا تعارف کرایا تو حیرت سے پوچھا: کیا قرضے بلا سود بھی ہوتے ہیں؟ ایک اور سوال بھی کیا: اگر یہ بلاسود ہیں تو آپ اس کام میں خود کیا کماتے ہیں؟ سوال کے پس منظر کا بیان تحصیلِ حاصل ہو گا کہ پاکستان میں شاید ہی کوئی ہو جو 'اخوت‘ سے واقف نہ ہو۔ ڈاکٹر صاحب کا قائم کردہ ادارہ‘ جو مستحق لوگوں کو بلا سود قرض دیتا ہے‘ وہ ادارہ جو 2001ء میں چند ہزار روپے سے شروع ہوا اور آج اس کا بجٹ کم و بیش ایک بلین ڈالر ہے۔
'اخوت‘ نے دونکات لوگوں کو بطورِ خاص سمجھائے اور یہی اسلام کی معاشی تعلیمات کا جوہر ہیں۔ ایک یہ کہ دولت جمع کرنے کے لیے نہیں‘ خرچ کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ دوسرا یہ کہ قرض پر سود نہیں لیا جاتا۔ خرچ کی سب سے اچھی صورت خداکی رضا کے لیے‘ خدا کے بندوں پر خرچ کرنا ہے۔ سیدنا مسیحؑ نے کیا اچھی شرح کی ہے۔ فرمایا: انسان کا دل وہیں لگا رہتا ہے جہاں اس کا مال لگا ہو۔ تم اپنا مال آسمانوں پر لگاؤ تاکہ تمہارا دل آسمانوں میں لگا رہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے اس تصور کو یوں مجسم کیا کہ مسجد ان کی سرگرمیوں کا مرکز بن گئی۔ اللہ کے آخری نبی سیدنا محمد ﷺ نے اس کرۂ ارض پر جس مقام کو سب سے بہتر قرار دیا وہ مسجد ہی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کو اب 'بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ‘ کا امین بنا دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہی اس کے سب سے زیادہ اہل تھے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم بھی یہی ہے کہ امانتیں ان کے اہل لوگوں کے ہاتھوں میں دی جا ئیں (النساء:58)۔ ڈاکٹر صاحب کو یہاں آئے چند ماہ ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی آمد سے یہ ادارہ بھی اب 'اخوت‘ کا رفیق بن گیا ہے۔ اس وقت 93لاکھ افراد اس پروگرام سے استفادہ کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ان لوگوں کی تعریف کرتے ہیں جنہوں نے اُن سے پہلے اس ادارے کو یہاں تک پہنچایا۔ ان کاکہنا تھا کہ یہ ایک شفاف پروگرام ہے اور اسے دیانت داری سے چلایا گیا ہے۔ میرے لیے ڈاکٹر صاحب کی گواہی طمانیت کا سبب تھی۔
ڈاکٹر صاحب کے آنے سے بی آئی ایس پی کی کارکردگی میں یقینی اضافہ ہوگا۔ یہ محض خوش گمانی نہیں بلکہ اس کے پس منظر میں 'اخوت‘ کی 23 برسوں کی تاریخ ہے۔ پہلے سو دنوں میں کئی قدم اٹھائے جا چکے ہیں۔ مثال کے طور پر وزارتِ تعلیم کے ادارے نیوٹیک (NAVTTC) کے تعاون سے ضرورت مند گھرانوں کے نوجوانوں کو فنی تربیت دی جا رہی ہے۔ اس کا مقصد انہیں ہنر مند بنانا ہے تاکہ وہ معاشی طور پرخود کفیل بن سکیں۔ اس پروگرام کے دفاتر میں سیلانی اور اللہ والا ٹرسٹ کے اشتراک سے ضرورت مندوں کے لیے مفت کھانے کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے۔ مسجدکو ان سرگرمیوں کا مرکز بنایا جا رہا ہے۔
سندھ اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں تک رسائی کے لیے خصوصی وین سروس کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد ان ضرورت مندوں کے گھروں تک پہنچنا ہے جو خود بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دفاتر تک نہیں آ سکتے۔ اس کے ساتھ ملک بھر سے ان بیوہ خواتین کے کوائف کو جمع کیا جا چکا ہے جو غربت کی ایک خاص سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ہیں۔ ان کی رجسٹریشن کا آغاز ہو چکا ہے۔ شاید اس ادارے کا یہی ایک کام خدا کی رحمت کو اس سماج کی طرف متوجہ کرنے کا سبب بن جائے۔ڈاکٹر صاحب کی خواہش ہے کہ ملک کے صاحبانِ وسائل اس پروگرام کے معاون بنیں۔ میڈیا کو ان کی طرف سے دعوتِ عام ہے کہ وہ جب چاہے اس کے مرکزی اور دوسرے دفاتر میں آئے اور اس پروگرام کی تفصیلات میں جائے۔ تجاویز دے اور اگر کوئی خرابی ہے تو نشاندہی کرے۔ وہ دیگر سول سوسائٹی تنظیموں کے اشتراک سے 'مواخات‘ کی طرز پر ایک بڑے فلاحی معاشی منصوبہ تشکیل دینا چاہتے ہیں۔
میں ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب سے ملنے تو کسی اور نیت سے گیا تھا لیکن بی آئی ایس پی کی تفصیلات میں کھو گیا۔ خیال ہوا کہ پہلے اس بات کو اس ملک کے عوام تک پہنچاؤں کہ صاحبانِ خیر موجود ہیں اور خیر بانٹ رہے ہیں۔ آپ بھی ان کے شراکت دار بن جائیں۔ سب سے اچھی سرمایہ کاری خدا کی راہ میں سرمایہ لگانا ہے۔ میں ایک مدت سے اس بات کے لیے آوازہ لگا رہا ہوں کہ سماج کو زندہ کیا جائے۔ ریاست اس کے نتیجے میں زندہ ہو گی۔ 'مواخات‘ ایک سماجی پروگرام تھا جو مشکلات کا شکار ریاستِ مدینہ کو معاشی طور پر مستحکم بنانے کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔ ہمیں اس کی روح کو زندہ کرنا ہے۔
یاد آیا‘ میں اس تجویزکے ساتھ ڈاکٹر صاحب سے ملنے گیا تھا کہ انفاق فی سبیل اللہ کے باب میں رسالت مآب سیدنا محمدﷺ کی تعلیمات کو عام کر نے کے لیے 'رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی‘ اور بے نظیر انکم سپوٹ پروگرام مل کر ایک منصوبہ بنائیں۔ نہ جانے اس ملک کے کتنے مولو مصلّی‘ دوست محمد موچی اور محمد دین ہمارے منتظر ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں‘ ان کو جاننے کے لیے آپ کو ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتاب 'مولو مصلّی‘ پڑھنا ہو گی۔ پھر آپ سمجھ پائیں گے کہ ہمیں 'اخوت‘ اور بی آئی ایس پی کی کیوں ضرورت ہے۔ اس تجویز پر بھی ان شاء اللہ بات ہو گی۔