"KDC" (space) message & send to 7575

بلدیاتی انتخابات: الیکشن کمیشن کو مہلت دی جائے!

سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلدیاتی انتخابات نہ کرانے پر تین صوبوں یعنی پنجاب، صوبہ خیبر پختونخوا اور سندھ سے پندرہ روز میں جواب طلب کر لیا ہے۔ چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صوبے بلدیاتی انتخابات سے گریزکے لیے تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں۔ ان ریمارکس سے اس تاثرکو تقویت ملی کہ جمہوری حکومتیں بلدیاتی انتخابات نہیں کراتیں یا ان سے دور بھاگتی ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ صرف غیر جمہوری حکومتوں میں بلدیاتی انتخابات باقاعدگی سے ہوتے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کی ساری ذمہ داری صوبائی حکومتوں پر ڈالنے سے پہلے سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ماہرین کی رائے اوران کا موقف سننے کے لیے الیکشن کمیشن ان کا اجلاس بلائے کیونکہ ان صوبوں کا موقف ہے کہ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس2001ء کے ذریعے ضلعی حکومتوںکا جو نظام رائج کیا گیا تھا ، وہ نئی جمہوری حکومتوںکو قابل قبول نہیں تھا کیونکہ اس نظام کے ذریعے صوبوں کے اختیارات ختم ہو گئے تھے۔ ملک میں عملاً دو سطحوں پر حکومتیں تھیں۔۔۔۔۔ وفاقی اورضلعی ۔ وفاقی اکائیوںکی حیثیت ختم ہو گئی تھی اور یہ بات دستورکی روح کے منافی تھی۔ 2010ء میں صوبوں کو یہ اختیار ملا کہ وہ اپنے معروضی حالات کے مطابق اپنے اپنے بلدیاتی قوانین بنائیں اورکوشش کریں کہ تمام صوبوں کے قوانین میں بہت حد تک یکسانیت ہو۔ بدقسمتی سے صوبوں کو بلدیاتی قوانین بنانے کے لیے مہلت نہیں دی گئی اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کی طرف سے مسلسل ڈیڈ لائن دی جاتی رہی کہ ان کی طے کردہ مدت میں انتخابات کرائے جائیں ۔ دراصل وہ 12دسمبر2013ء کو اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے بلدیاتی انتخابات کرانے پر مصر تھے۔ 
عدالتوں کی طرف سے دی گئی مدت میں قوانین بنانا اور بلدیاتی انتخابات کرانا ممکن نہیں تھا،لہٰذا دوسری ڈیڈلائن دی گئی، اس میں بھی ممکن نہیں تھا اس لئے تیسری اور چوتھی ڈیڈ لائن دی گئی لیکن ان میں بھی یہ کام ممکن نہیں تھا۔ صوبے اور الیکشن کمیشن شروع سے ہی عدالتوں سے یہ درخواست کر رہے تھے کہ انہیں بلدیاتی قوانین کی منظوری اور بلدیاتی انتخابات کے لیے معقول وقت دیا جائے کیونکہ بلدیاتی نظام ہی تبدیل ہو گیا ہے، لیکن سابق چیف جسٹس نے انہیں یہ مہلت نہ دی ۔ اس کشمکش میں بہت سا وقت ضائع ہو گیا۔ جب صوبے بلدیاتی قوانین منظور کرا چکے ، انتخابی فہرستوںکو اپ ڈیٹ کرنے کا کام بھی کر چکے تو پھر عدالتوں میں یہ مسئلہ چلا گیا کہ حلقہ بندیاں متنازع ہیں،ان کا اختیار صوبائی حکومتوں کے بجائے الیکشن کمیشن کو دیا جائے۔ ابھی تک اس معاملے کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔ اگر الیکشن کمیشن نے ہی حلقہ بندیاں کرانی ہیں تو پھر آئین کے آرٹیکل 224 میں ترامیم کرنا ضروری ہے تاکہ الیکشن کمیشن کو آئینی اختیارات حاصل ہو جائیں۔ صوبوں کا موقف یہ ہے کہ حکومت کے انتظامی معاملات کے حوالے سے عدالتیں اپنے احکامات جاری کرتی رہیں گی تو بلدیاتی مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔ صوبائی حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات کے لیے حلقہ بندیوں کا اختیار آئین نے دیا ہے۔ اہم درپیش مسئلہ یہ ہے کہ ان حالات میں حکومت آئین کے آرٹیکل 224 میں ترمیم کرکے حلقہ بندیوںکے اختیارات الیکشن کمیشن کو تفویض کرنے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ صوبہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے ارکان اسمبلی اس کی شدید مخالفت کر یںگے۔ اگر آئین 
میں ترمیم ہو بھی جاتی ہے اور صوبائی حکومتیں حلقہ بندیوں کے اختیارات الیکشن کمیشن کو دینے پر رضا مند ہو جاتی ہیں تب بھی الیکشن کمیشن کے پاس اتنی افرادی قوت نہیں ہے کہ وہ دور دراز علاقوں میں حلقہ بندیوںکا کام کروا سکے۔ اس کے لیے الیکشن کمیشن کو صوبائی حکومتوںکی مدد درکار ہوگی ، لہٰذا حلقہ بندیوںکا وہی پرانا نظام چلنے دیا جائے کیونکہ الیکشن کمیشن تقریباً سات ہزار یونین کونسلوں کی سطح پر حلقہ بندیاں کرانے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا اور یہاں پر بد نظمی، الزامات اورکرپشن کا پنڈورا کھل جائے گا اور الیکشن کمیشن کی ساکھ مجروح ہو جائے گی۔2001ء میں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کے لیے جنرل پرویز مشرف اور قومی تعمیر نوکے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل تنویر حسین نقوی حلقہ بندیوںکی ذمہ داری الیکشن کمیشن کو تفویض کرنے کے لیے دبائو ڈالتے رہے لیکن اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس عبدالقدیر چودھری نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی پیش کش کو مسترد کر دیا تھا۔ ان کا موقف یہ تھاکہ صوبائی حکومتوں کے ریونیو سٹاف کی جانب سے مجرمانہ غفلت سرزد ہوگی اور تنقید الیکشن کمیشن پر ہوگی۔
جس طرح بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات ہوئے انہیں انتخابات نہیں کہا جاسکتا۔ اگر اس طرح کے انتخابات باقی صوبوں میں ہوں گے تو عوام اور میڈیا انہیں تسلیم نہیں کریں گے جس سے زبردست سیاسی انتشار پید اہو جائے گا۔ بلوچستان کے بلدیاتی قوانین میں بہت سقم ہے۔ اگرسابق چیف جسٹس جلدی نہ کرتے تو وہاں انتخابی اداروں اور بلوچستان کی حکومت کی رٹ پر عوام کا اعتماد مجروح نہ ہوتا۔ بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے کوئی ایسا راستہ نکالنا چاہیے کہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہو سکے، موجودہ حالات میں مردم شماری اوراس کے نتائج آنے پر حلقہ بندیاں اور اس سے پیشتر آئین میں ترامیم، بعد ازاں حلقہ بندیوں کے عمل سے گزرنے کے بعد انتخابی فریقوں کو حلقہ بندیوں کے مطابق مرتب کرانے کے عمل میں وقت دینا ضروری ہے۔صوبائی حکومتیں بھی معروضی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے دلائل نہ دیں جنہیں سپریم کورٹ تاخیری حربوں سے تعبیر کر رہی ہے۔ 
نومبر تک کسی نہ کسی طور پارلیمنٹ تحلیل ہونے کی تلوار وزیر اعظم میاں نوازشریف کے سر پر لٹک رہی ہے کیونکہ ملک کنفیوژن ، تقسیم اور عدم تحفظ کا شکار ہو چکا ہے۔ وزیراعظم غیر معمولی خوف اور عوام کے تحفظات کی وجہ سے اقتدار اعلیٰ کی رٹ اور ساکھ سے محروم ہوتے جا رہے ہیں ، لہٰذا ملک میں از سر نو انتخابات کے لیے قوم کو تیارکر لینا چاہیے۔ اس سے دھرنے اور جلسے بھی ختم ہوجائیں گے۔ میری دانست میں پارلیمنٹ کی تحلیل کے بعد الیکشن مارچ 2015ء میں کرائے جائیں گے اور اس وقت تک موجودہ حکومت کی نااہلی کے کارنامے اس طرح میڈیا پر نشرکیے جائیں گے کہ انہیں جو تھوڑی بہت حمایت عوام سے مل رہی ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ حالیہ نعروں نے صورت حال کو یہاں تک تبدیل کر دیا ہے کہ اتحادی جماعتوں کے وہ رہنما جو استعفیٰ نہ دینے کا مشورہ دے رہے تھے ، مڈٹرم الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دو ماہ سے کاروبار حکومت معطل ہے۔گو نوازگو کے نعرے کی مقبولیت نے پاکستان کے تمام سیاسی نعروں کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں ، بلکہ ایسا ریکارڈ بنا دیا ہے جو تاریخی طور پر ہمیشہ قائم رہے گا۔ اسی نعرے کے سبب پاکستان کے جاگیردار، سرمایہ دار، مخصوص ذہن کے حامل میڈیا پرسنز، غیر ملکی امداد پر پرورش پانے والی سول سوسائٹی، جانبدارانہ رویے کے حامل وکلا اور چہرے دیکھ کر فیصلہ کرنے والے کانپ رہے ہیں اور جو نام نہاد جمہوریت کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں ان کی خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی کیونکہ عوام کی متنفر نگاہوں کے سامنے نئے انتخابات کے سوا کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں ۔ ملک میں بلا امتیاز ہر حکومت نے آئین کو پامال کیا اور اسی میں دیے گئے عوام کے بنیادی حقوق غصب کر کے انہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ انہوں نے کھربوں روپے کی سرمایہ کاری بیرون ممالک میں کر کے پاکستان کی عوام کو غربت کی لکیر سے بھی نیچے پہنچا دیا۔ ہمارے حکمران طبقے نے عوام کو بلدیاتی نظام سے محروم رکھ کر انہیں شرکت اقتدار سے خارج رکھا۔ معاملہ کسی ایک حکومت کا ہے نہ مخصوص قیادت وشخصیت یا جماعت کا ؛ عوام کا مقابلہ موجودہ نظام سیاست سے ہو رہا ہے۔ خوش آیند بات یہ ہے کہ تبدیلی آرہی ہے۔ آئندہ کے لیے طبل جنگ بج چکا ہے۔ یہ جنگ ایک صوبے نے نہیں ، ایک یا دو جماعتوں نے نہیں ، کسی خاندان، ملک یا برادری نے نہیں بلکہ پاکستان کے عوام نے اپنے مفاد میں لڑنی ہے۔ بلا شبہ آنے والے چند مہینے پاکستان کے گزشتہ چالیس برسوں پر بھاری ہیں۔ حکومت اور ان کے اتحادیوں کے لیے برا وقت آنے والا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں