"KDC" (space) message & send to 7575

یمن بحران : پاکستان اسلامی کانفرنس بلائے!

پاکستان کی اعلیٰ سول و فوجی قیادت یمن کی سنگین صورت حال کا جائزہ لے رہی ہے۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ وزیراعظم نواز شریف سعودی عرب کا ساتھ دینے کا اصولی فیصلہ کر چکے ہیں۔ یمن میں شورش پر قابو پانے کے لیے دس عرب ممالک پہلے ہی اتحاد قائم کر چکے ہیں اور ان کی یمن پر فضائی بمباری جاری ہے۔ پاکستان اسلامی کانفرنس کے ذریعے ایران اور سعودی عرب کے مابین ثالث کا کردار بخوبی ادا کر سکتا ہے۔ یمن تنازع کا بڑھنا عرب دنیا کے مفاد میں ہے‘ نہ ہی مسلم دنیا اور عالمی برادری کے مفاد میں۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس مسئلے پر غور ہو رہا ہے۔ ملک کی سیاسی اور مذہبی قیادتوں کی آراء مختلف ہیں۔ مذہبی سیاسی جماعتیں اور مذہبی تنظیموں کی خواہش ہے کہ مسلح افواج سعودی عرب بھیجی جائیں۔عرب دنیا میں بھی قیادت کا سنگین بحران محسوس ہوتا ہے، کوئی مدبر قیادت موجود نہیں‘ یہی وجہ ہے کہ انتشار پھیلا ہے۔
عرب حکمرانوں نے اپنی جغرفیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے مطلوبہ عسکری قوت تیار نہیںکی۔ انہوں نے صرف سکیورٹی گارڈزکی طرز پر افواج تشکیل دے رکھی ہیں۔ان کی قیادت بھی حکمران خاندانوں کے شہزادوں کے ہاتھوں میں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شاہ فیصل مرحوم نے سعودی عرب کی افواج کو مضبوط کرنے کے لیے جو نوجوان آفیسر بھرتی کیے انہوں نے سرکاری رائفلوں کو سنبھالنے اور ان کی صفائی کے لیے بنگلہ دیشی ملازم رکھے ہوئے تھے۔ 1970ء کے عشرے میں ہمارے پاس طاقتور مسلم رہنما موجود تھے۔ انہوں نے مسلم اور تیسری دنیا کے ممالک کو متحد کرنے کی کوشش کی۔
11 ستمبر 2001 ء کے بعد امریکہ نے اپنے عوام کی مستقل حفاظت کے لیے عراق اور افغانستان کو تباہ کر دیا۔امریکہ کے پیدا کردہ بحران کے باعث پانچ مسلمان ممالک ۔۔۔۔ افغانستان، عراق، شام ، لیبیا اور لبنان خانہ جنگی کا شکار ہیں اور اب یمن مکمل بربادی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ایران اپنی تنہائی کے خاتمے کے لیے امریکہ کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے فریم ورک پر سمجھوتہ کرچکا ہے۔ مسلم دنیا بالخصوص اردگرد کے ممالک صدام حسین دشمنی میں، عراق کی امریکہ کے ہاتھوں تباہی اور پندرہ لاکھ سے زائد عوام کے قتل پر خاموش رہے۔ اس دوران اسرائیل مزید مضبوط ہوتا رہا۔
وزیر اعظم نواز شریف کو 1970ء کی دہائی کی روح بحال کرنے کے لیے پاکستان میں اسلامی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کرکے مسلم دنیا کو دوبارہ متحد اور فعال کرنا چاہیے۔ امریکہ، چین، روس، فرانس، برطانیہ اور جرمنی نے مل کر ایران کو اس علاقے کا پولیس مین بنانے کا انتظام کر لیا ہے۔ پاکستان اسلامی سربراہ کانفرنس کے ذریعے یمن اور سعودی عرب کے درمیان غلط فہمیاں دور کرا سکتا ہے۔ ایران کے تحفظات بھی دور ہو سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کو غیر جانبدار یت اختیار کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ لگتا ہے کہ ان کے پاس سعودی عرب کا ساتھ دینے کے سوا کوئی چوائس نہیں جبکہ ہمیں سب سے پہلے پاکستان کا مفاد مد نظر رکھنا چاہیے، اپنے ذاتی اورکاروباری مفادات میں ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے جس کا ملک متحمل نہ ہوسکے۔ جنوری 1991ء میں امریکہ اور اس کے چالیس سے زائد اتحادیوں نے صدام حسین کو اقتدار سے محروم کرنے کے لیے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ اس جنگ میں سعودی عرب، مصر اور کویت کا اہم کردار رہا۔ اسی جنگ کے نتیجے میں گزشتہ برسوں کے دوران خطے میں رونما ہونے والی تیز رفتار تبدیلیوں سے جہاں انارکی بڑھی وہاں مختلف ناموں سے درجنوں مسلح گروپ سامنے آئے جن کا مقصد حیرت انگیز طور پر صرف مسلم اکثریت کے حامل ملکوں کو عدم استحکام سے دو چار کرنا، ان کو تقسیم کرنا اور ان کے قدرتی وسائل پر تصرف حاصل کرنا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کا بہترین قومی مفاد اسی میں ہے کہ وہ یمن، سعودی عرب میں جنگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے سفارتی سرگرمیاں تیزکرے اور فوجی حل کے بجائے سیاسی حل کو فوقیت دے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق سعودی عرب کو اندیشہ ہے کہ یمن کی خانہ جنگی کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت سعودی عرب سے طائف کا سارا علاقہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گی کیونکہ کہا جاتا ہے کہ تاریخی طور پر طائف یمن کا حصہ رہا‘ ایک معاہدے کے تحت یمن نے طائف کو سو سال کی لیز پر سعودی عرب کودے دیا تھا اور اب اس معاہدے کی مدت ختم ہونے کے قریب ہے۔ سعودی عرب‘ جو اپنے دفاع کے لیے پاکستان کی افواج حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، کا مطمح نظر یہ ہے کہ طائف کی حفاظت کی جائے۔ اصولی طور پر طائف اور یمن کے مابین بین الاقوامی سرحد کی وہی حیثیت ہے جو پاکستان اور افغانستان کے مابین ڈیورنڈ لائن کو حاصل ہے۔ ہمارا مفاد اسی میں ہے کہ زمینی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے سوچ سمجھ کر قدم اٹھایا جائے اور ضرورت پڑنے پر سعودی عرب کے دفاع کے لیے عملی تدابیر اختیارکی جائیں کیونکہ بعض اوقات کچھ بروقت اقدامات کے ذریعے امن کی راہ نکالی جا سکتی ہے۔ یمن میں خانہ جنگی کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر جنگ کے شعلے سعودی سرحدوں بالخصوص طائف تک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ اسلام دشمن قوتیں یمن کی صورت حال کو شیعہ سنی جنگ قرار دے
کر ان دونوں اہم اسلامی ملکوں کو ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کو عدم استحکام سے دو چار کرنا چاہتی ہیں؛ حالانکہ یہ فرقہ وارانہ نہیں حصول اقتدار کی جنگ ہے جو مشرق وسطیٰ کے بیشتر ملکوں میں معمول کی بات ہے۔ شام، عراق، لیبیا اور لبنان کو بھی اس وقت اقتدار کی جنگ کا سامنا ہے۔ پاکستان میں مختلف مسلکوں کے حامی رہنمائوں کوچاہیے کہ وہ جنگ کے شعلوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے فقہی اختلافات کو نظر اندازکر دیں۔
سعودی عرب میں تقریباً تیس لاکھ پاکستانی روزگار کے لیے مقیم ہیں، ہمیں ان کی حفاظت ضرور کرنی چاہیے،لیکن اس مقصد کے لیے قومی اتفاق رائے کے ساتھ ایسا فیصلہ کرنا چاہیے جو ہمارے عوام کے لیے سود مند ہو۔ اس مشکل وقت میں قبائلی مزاج رکھنے والے عرب دوستوں کے ساتھ سودا بازی کرنا اور کاروباری زبان میں بات کرنا ریاست پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے، لیکن ان سے اس نوعیت کی بات ہو سکتی ہے کہ پاکستان سے ہر موقع پر فوج طلب کرنے کی بجائے پاکستان کے ریٹائرڈ فوجی اہل کاروں کو‘ جن کی تعداد لاکھوں میں ہے‘ عرب ممالک اپنی افواج میں بھرتی کر لیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ مشکل وقت میں یہ عرب بھائیوں کی خاطر جنگ میں حصہ لیں۔ سعودی عرب کو ہمارے وقار کا بھی خیال کرنا ہوگا۔ یمن اور سعودی عرب کے مابین تنازع کو فرقہ واریت کی طرف موڑنے کی سازش ناکام بنانے کے لیے پاکستان میں علمائے کرام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے متفقہ فیصلے کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں