"KDC" (space) message & send to 7575

نوازحکومت انتخابی طوفان کی زد میں

ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کے ساتھ ہی سندھ کے اہم بیورو کریٹس کے خلاف کرپشن میں ملوث ہونے کی وجہ سے کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ اب گمان ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کے تحفظات کو دور کرنے کے لئے پنجاب میں اہم شخصیات جن میں ایک وفاقی اور ایک صوبائی وزیرکے علاوہ ایک اہم مالیاتی شخصیت شامل ہیں‘ پر بھی ہاتھ ڈالا جائے گا۔ اس طرح پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ والے کرپشن کے کیسز میں تنہائی محسوس نہیں کریں گے۔ اسی طرح خیبر پختون خوا کی بھی اہم شخصیت‘ جن کے بارے میں آڈیٹر جنرل پاکستان کی رپورٹ آ چکی ہے کہ انہوں نے اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز سے رقوم نکال کر سٹاک ایکسچینج میں سٹے پر لگا دی ہیں، پر بھی ہاتھ ڈالنے کے لئے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ سندھ میں بلا امتیاز کارروائی کی جائے گی۔ اس حوالے سے کئی سابق اور حاضر سروس بیورو کریٹس کو حراست میں لیا گیا۔ 60 کے لگ بھگ بیورو کریٹس زد میں آ چکے ہیں؛ تاہم پاکستان کے موجودہ نظام کی بد قسمتی دیکھئے کہ سندھ کے چیف سیکرٹری صدیق میمن اور آئی جی سندھ ان دنوں عبوری ضمانت پر ہیں اور سندھ کے 90 سالہ وزیر اعلیٰ کو احساس ہی نہیں۔ 
جنرل راحیل شریف پاکستان کو صحیح معنوں میں کرپشن، مافیا، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور دیگر ٹائی کونز سے نجات دلانا چاہتے ہیں، اسی لئے کئی اہم دفاتر پر چھاپے مار کر متعلقہ ریکارڈ قبضے میں لیا گیا ہے اور تفتیش بلا امتیاز کی جا رہی ہے‘ لیکن سندھ حکومت اس سب کو انتقامی کارروائی قرار دے رہی ہے۔ ادھر وفاقی حکومت منافقت کی پالیسی پر گامزن ہے اور قائم علی شاہ، خورشید شاہ، قمر زمان کائرہ اور شیری رحمان کے جارحانہ حملوں کے جواب میں بین السطور حکمران جماعت چارٹر آف ڈیموکریسی کے معاہد ہ کی آڑ لے رہی ہے تاکہ اپوزیشن ان کی حکومت کی راہ میں 
مشکلات پیدا نہ کرے۔ پرویز رشید کا پالیسی بیان پاکستان کے عوام کے جذبات کے بر عکس ہے اور 18ویں ترمیم کے ذریعے وفاقی حکومت کی جانب سے ہنگامی طور پر کسی صوبے میں گورنر راج قائم کرنے کے اختیارات کو ختم کر کے دراصل شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات کی راہ پر چلنے کے لئے راہ ہموار کر دی گئی ہے۔ ریاست کنفیڈریشن کی طرف رواں دواں ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے اور آصف علی زرداری کے جارحانہ رویے کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان نے اسحاق ڈار اور پرویز رشید کو پیپلز پارٹی کے اہم رہنمائوں کے تحفظات دور کرنے کا ٹاسک بھی دے دیا ہے، لیکن اسحاق ڈار آصف علی زرداری کی فائرنگ کی زد میںہیں اور حکومت اب دفاعی پوزیشن پر آگئی ہے جس سے نیشنل ایکشن پلان بھی متاثر ہو سکتا ہے اور حکومت اور عسکری قوتوں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا پیدا ہونے کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
سندھ میں قومی ایکشن پلان کے خلاف ہونے والی جنگ اب آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور اب اس کا ہدف بد عنوانی اور کرپشن ہے، اسی لئے تقریباً ہر سیاسی جماعت افواجِ پاکستان کے خلاف حملے کر رہی ہے لیکن افواج پاکستان اندرونی دشمنوں کا مکمل صفایا کرنے کے عزم پر قائم ہیں اور بھارتی خیالات کے حامی سیاستدانوں، میڈیا پرسنز اور بیوروکریٹس پر ان کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ دراصل بھارت نے ایک حکمت عملی کے تحت 1990ء سے پاکستان کی سیاسی پارٹیوں اور بعض دوسری تنظیموں میں اپنے مخصوص کارندوں اور ایجنسیوں کو داخل کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ افواج پاکستان نے ابھی اپنے ماسٹر پلان میں ان شخصیات کو گرفتار کرنے کی پالیسی شامل نہیں کی حالانکہ ان کی ایجنسیوں کے پاس ایسی شخصیات کے ریکارڈز موجود ہیں۔ آصف علی زرداری اور الطاف حسین اسی لیے بار بار آگ بگولہ ہو جاتے ہیں۔ جب ان کی پسندید ہ شخصیات کو گرفتار کیا گیا تو وفاقی دار الحکومت اور لاہور میں خطرے کی گھنٹیاں بج گئیں، کیونکہ لاہور کی کچھ شخصیات بھی ڈاکٹر عاصم حسین کی طرز پر گرفتاری کی زد میں آنے والی ہیں جس سے وفاقی اور پنجاب کی حکومت عملاً اس طرح غیر فعال ہو جائے گی جس طرح سندھ کی حکومت بادی النظر میں غیر فعال ہو چکی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف عدالتی کمیشن کے نظریۂ ضرورت کے فیصلے سے دباؤ میں آچکی تھی۔ اسی طرح پنجاب سے قومی اسمبلی کی تین نشستوں پر آنے والے حالیہ فیصلوں سے وفاقی حکومت کوناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اور نواز شریف حکومت طوفان کی زد میں آچکی ہے۔ عمران خان‘ خورشید شاہ اور عوامی نیشنل پارٹی نے الیکشن کمیشن کے ان چاروں ارکان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جو 2013ء کے انتخابات میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے۔ الیکشن کمیشن ان انتخابات میں انتظامی طور پر ناکام نظر آرہا ہے،جو الیکشن کے معاملات کا ادراک نہ ہونے کا عملی ثبوت ہے۔ الیکشن کمیشن نے جون 2012ء کی مردم شماری میں ناقص خانہ شماری کی بنیاد پر جو وارڈ تیار کئے‘ اسی بنیاد پر پولنگ سکیم کی عمارت کھڑی کر دی جو بادی النظر میں غیر قانونی ہی تصور کی جائے گی۔ موجودہ حالات میں انتخابی بے قاعدگیوں، دھاندلیوں اور انتخابی اصلاحات کے معاملات پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ اب عوام ان قوتوں کا ساتھ دیں گے جو ملک میں دہشت گردی اور کرپشن کے خاتمے کی کوشش کر رہی ہیں اور ان کو ششوں کے اچھے نتائج عوام کو بھی نظر آ رہے ہیں۔ عوام کو احساس ہو گیا ہے کہ ''جمہوریت کا حسن‘‘ کے لفظ کرپشن چھپانے کے لئے اختراع کیے گئے۔ اسی طرح عوام میں یہ تاثر بھی قائم ہو گیا ہے کہ سیاسی جمہوری قوتیں ناکام ہو چکی ہیں اور حالات کی درستی ان جمہوری قوتوں کے بس کی بات نہیں رہی۔ ان حالات میں آصف علی زرداری کی پارٹی کے سوالات اور خدشات بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔ عوام ان کی طرف کم ہی توجہ دیں گے۔ پیپلز پارٹی کو مطمئن کرنے کے لئے پنجاب سے تعلق رکھنے والے چند کرپٹ ترین وزراء کو بھی 90 روز کے لئے رینجرز کے سیف ہائوس میں رکھا جائے گا۔ سری لنکا ، سائوتھ افریقہ، تھائی لینڈ، فلپائن، ترکی اور دیگر ممالک میں بعض حالیہ تجربات سے یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ جہاں کچھ سیاسی جماعتیں اپنے خلاف کرپشن کے الزامات کا عوامی سطح پر موثر دفاع نہیں کر سکیں‘ وہاں جمہوریت کی ناکامی پر عوام نے احتجاج نہیں کیا۔ 
چنانچہ اب پاکستان کا انتخابی نظام بھی طوفان کی زد میں ہے۔ لاہور اور ملتان کے الیکشن ـٹربیونلز کے ججوں پر حکمران جماعت کے وزراء کی شدید تنقید سے سنجیدہ صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ اب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک نئے تنازع کی ابتدا ہو گئی ہے۔ عمران خان اور خورشید شاہ نے الیکشن کمیشن اور حکمران جماعت کے خلاف نفرت انگیز ی کی مہم تیز کر دی ہے اور وہ اپنا سیاسی دباؤ ضمنی انتخابات تک برقرار رکھیں گے۔ این اے 154, 125, 122 کے الیکشن ٹربیونلز کے ججوں کی مدت ملازمت میں توسیع اور زیر التواء کیسز کے مستقبل کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر دئیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن جاندار حکمت عملی اپنانے میں ناکام رہا اور اب الیکشن ٹربیونلز کو ختم کر دینے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے تو اس تناظر میں الیکشن کمیشن باقاعدہ طور پر تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف فریق بن گیا ہے۔ الیکشن ٹربیونلز کو ختم کرنا ان کی ساکھ کے لئے سود مند نہیں ہوگا۔ الیکشن کمیشن کے ارکان نے اپنے آئینی عہدوں سے استعفیٰ نہ دینے کا فیصلہ کیا جبکہ وہ انکوائری کمیشن کی جانب سے چالیس سے زائد بے قاعدگیوں اور الیکشن ٹربیونلز کے تین فیصلوں میں اپنی پوزیشن کا دفاع کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ مناسب ہوگا کہ الیکشن کمیشن اپنا موقف مضبوطی سے عوام کے سامنے لائے۔ الیکشن ٹربیونلز کے فیصلوں میں بے قاعدگیاں کرنے والے اہل کاروں کے خلاف کارروائی کرنے کا ذکر نہیں ہوتا کیونکہ موجودہ الیکشن قوانین میں ریٹرننگ افسران اور پولنگ کے عملے کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کا ذکر نہیں ہے اور یوں ان کو شترِ بے مہار بنا دیا گیا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف 11 مئی 2013 ء کے انتخابات کے بعد سے احساس برتری اور احساس کمتری کے درمیان لٹک رہے ہیں۔ سردار ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق کے بارے میں منفی فیصلے آنے سے پاکستان بین الاقوامی طور پر الیکشن میں دھونس، جعل سازی اور دھاندلی کے رواج والے ممالک میں شامل‘ یا یوں کہہ لیں انتخابی حوالے سے منگولیا کے برابر کھڑا ہو گیا ہے، جہاں ایسے ہی انتخابات کرائے جاتے ہیں جس طرح ایاز صادق کے حلقے میں ہوئے اور 93 ریٹرننگ افسران نے 9 اور 10 مئی 2013 ء کی رات کو پولنگ سٹیشنوں کو ہی تبدیل کر دیا جس سے یو این ڈی پی کے الیکشن رزلٹ کا نظام ہی مفلوج ہو گیا اور یو این ڈی پی کے تقریباً چالیس کروڑ روپے ڈوب گئے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں