"KDC" (space) message & send to 7575

سیاسی تبدیلیوں کا موسم اورپی ٹی آئی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین جج کیس میں عمران خان کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں 31 اگست کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ عمران خان کے رویے کی وجہ سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں ان دنوں مختلف آرا کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ایک نقطہ نظر کے مطابق چارکیسز عمران خان کے سیاسی کیریئر کیلئے خطرہ ہیں ۔ آزادانہ سوچ رکھنے والے آئینی ماہرین کی رائے یہ ہے کہ خان صاحب کا کیس بہت کمزور ہے اور غیر مشروط معافی مانگنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ عدالت کے پاس استحقاق ہے کہ وہ توہین جج کیس کی کارروائی کو کس طرح آگے بڑھائے گی۔ماضی میں عمران خان سپریم کورٹ سے معافی مانگ چکے ہیں اور الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق ‘تین مواقع پر انہوں نے الیکشن کمیشن سے بھی معافی مانگی۔ بعض آئینی ماہرین کی رائے ہے کہ عمران خان خطرناک منطقے میں داخل ہو چکے ہیں۔ حکومتی حلقے بھی گومگو کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ بہرکیف عمران خان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کی شق شامل کرانا غیر دانشمندانہ اقدام تھا ۔انتظامیہ کے خلاف تنقید ہمیشہ سے سیاستدانوں کی روایت رہی ہے ‘اس کا مقصد اپنے حامیوں میں اپنی طاقت کا لوہا منوانا ہوتا ہے ‘یہ انتخابی سائنس کی پراسراریت کا حصہ ہے ۔اپریل 1977ء میں جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف احتجاجی تحریک جارحانہ انداز میں آگے بڑھ رہی تھی تو وزیراعظم بھٹو کی حکمرانی پر حملہ کرتے ہوئے ایئر مارشل اصغر خان نے بھٹو کو کوہالہ پل (آزاد کشمیر) پر پھانسی دینے کا اعلان کرتے ہوئے بیورو کریسی کو پیغام بھجوا یا تھا کہ وزیراعظم بھٹو کی حکومت پر سے رِٹ ختم ہو چکی ہے۔اسی پس منظر میں ایئر مارشل نے جون 1977ء میں جنرل ضیا الحق اور ان کے اہم ترین کور کمانڈرز کو بھی خطوط لکھے تھے کہ وہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے احکامات کو نظرانداز کر دیں۔ ماضی میں اس طرح کی فقرے بازی عموماً ہوتی رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے طرزِ عمل کو نظرانداز کیا جبکہ وزیراعظم بھٹو کے دور کے ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس راؤ عبدالرشید خان نے وزیراعظم کو مشورہ دیا تھا کہ اصغر خان نے آرمی سربراہ کو خط لکھا ہے‘ ان کے خلاف بغاوت کے زمرے میں مقدمہ دائر کر کے انہیں گرفتار کیا جائے لیکن بھٹو کی حکومت پر چونکہ گرفت کمزور تھی اس لیے وہ اصغر خان کی گرفتاری کا رسک نہیں لے سکتے تھے۔ اگر ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج ہو جاتا تو پانچ جولائی 1977ء کو مارشل لاء لگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اب31 اگست کے شوکاز نوٹس کی طرف آتے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے شوکاز نوٹس میں کہا ہے کہ عمران خان نے خاتون جج کے بارے میں توہین اور دھمکی آمیز تقریر کی۔ عمران خان نے اپنی تقریر اس وقت کی جب کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھا‘ عمران خان نے من پسند فیصلہ لینے کے لیے دھمکی آمیز تقریر کی اور انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔ عمران خان نے خاتون جج کو دھمکی دے کرکریمنل اور جوڈیشل توہین کا ارتکاب کیا۔وہ 31 اگست کو ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر عدالت کو بتائیں کہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کیوں نہ کی جائے۔جوڈیشل توہین کا ارتکاب الیکشن کمیشن کی توہین کے نوٹس سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن میں جو کیسز زیرِ سماعت ہیں ممکنہ طور پر ان کا فیصلہ ستمبر کے آخری ہفتے تک آ سکتا ہے۔ ممنوعہ فنڈنگ کی ضبطی سے تحریک انصاف بند گلی میں کھڑی ہے مگر اس کے مضمرات کا پارٹی کے ارکان کو ادراک نہیں یا پھر انہوں نے متبادل راستہ اختیار کرنے کے لیے راہیں متعین کرتے ہوئے مسعود محمود کی طرز پر وعدہ معاف گواہ بننے کے لیے ذہن تیار کررکھے ہیں ۔ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے خصوصی معاونین مسعود محمود‘ سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن وقار احمد اور چیف سکیورٹی آفیسر سعید احمد اور اپنے پرنسپل سیکرٹری افضل سعید‘ پارٹی رہنماؤں میں کوثر نیازی‘ مصطفی جتوئی‘ مصطفی کھر‘ عبدالحفیظ پیرزادہ‘ ممتاز بھٹو اور صدر فضل الٰہی چوہدری پر بڑا ناز تھا مگرپانچ جولائی کے بعد ان کی پوری اشرافیہ کی ٹیم پھر گئی۔
عمران خان کو شہباز گل کی حمایت میں اس قدر دور جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی‘ فواد چوہدری اور فیصل جاوید نے بھی انہیں لاتعلقی کا مشورہ دیا تھا ۔ شہباز گل کسی وقت بھی عمران خان کے خلاف دھماکا خیز پریس کانفرنس کر کے عمران خان کو ورطۂ حیرت میں مبتلا کر سکتے ہیں۔ بغاوت کے مقدمے میں جب ان کو اندازہ ہو گا کہ ان کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا ہے تو وہ اہم دستاویزات عدالت میں پیش کر کے اور دفعہ 164 کے تحت حلفیہ بیان لکھوا سکتے ہیں۔ اسی طرح ایف آئی اے نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے دو اگست کے فیصلے کی روشنی میں تحقیقات کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے آسٹریلیا‘ کینیڈا‘ سوئٹزرلینڈ‘ امریکہ‘ متحدہ عرب امارات اور سنگاپور سے بین الاقوامی معاہدوں کے تحت معلومات کے تبادلے کی درخواست کی ہے اور مبینہ طور پر قاسم سوری نے ممنوعہ فنڈنگ سے جو رقوم نکال کر اپنے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروائی اس کی بھی چھان بین ہو رہی ہے۔ قاسم سوری تحریک انصاف کے متحرک کارکن ہیں اور بلوچستان کے نوجوانوں کو انہوں نے متحرک کیے رکھا ہے لیکن ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ان کے خلاف بھی اہم پیش رفت ہو رہی ہے۔ انہوں نے فارن فنڈنگ کے حوالے سے جو رقوم حاصل کی تھیں ان سے تحریک انصاف نے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے جس سے وہ الیکشن کمیشن کے نوٹس کی زد میں ہیں۔الیکشن کمیشن نے ڈسکہ الیکشن کی رپورٹ کی روشنی میں عثمان ڈار‘ احمد ڈار‘ فردوس عاشق اعوان اور دیگران کے خلاف نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔ ان میں ایک عارف ہانی نامی امریکی شہری بھی بتائے جاتے ہیں جو حلقہ این اے 75 کے تحریک انصاف کے امیدوار کے فنانشل سپورٹر تھے۔ الیکشن کمیشن کی انکوائری رپورٹ میں ان کا اہم ذکر ہے اور پریزائیڈنگ آفیسرز نے اپنے جو بیان ریکارڈ کرائے ہیں ان سے ثابت ہو چکا ہے کہ الیکشن کے عملے میں رقوم تقسیم کی گئیں اور بعض پریزائیڈنگ آفیسرز کو اس وقت کی انتظامیہ کے اہل کاروں نے تشدد کا نشانہ بھی بنایا اور ان کے اہل خانہ کو یرغمال بنا کر این اے 75 کے اُس وقت کی حکومت کے امیدوار کو کامیاب کرانے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا گیا۔
عمران خان اپنی مقبولیت کا عوامی اندازہ لگانے کے لیے قومی اسمبلی کے نو حلقوں سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ آئین و قانون اس معاملے میں خاموش ہے‘ ویسے آئین کے آرٹیکل 223 کے تحت کوئی بھی امیدوار ایک سے زائد حلقوں میں انتخاب لڑ سکتا ہے لیکن انتخابی تاریخ میں نو حلقوں سے انتخابات میں حصہ لینے کی مثال موجود نہیں۔ ویسے بھی کاغذات نامزدگی داخل کراتے وقت ان کے مخالف امیدواروں نے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور زمینی حقائق یہی ہیں کہ ان کے مخالفین نے اپنی شکست کو قبل از انتخابات تسلیم کر لیا ہے۔مخصوص صحافتی حلقے یہ تاثرات بھی دے رہے ہیں کہ عمران خان اپنے خصوصی دوستوں کے ذریعے مقتدر حلقوں تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے چند ارکان قومی اسمبلی کی مقتدر حلقوں تک رسائی ہے‘ ان کے ذریعے عمران خان اپنی پوزیشن سے آگاہ کر رہے ہیں؛ تاہم میری رائے یہ ہے کہ شہباز گل سے اہم معلومات حاصل کی گئی ہیں اور اس کی روشنی میں ان عناصر کو حصار میں لیا جائے گا جنہوں نے شہدا پاکستان کے خاندانوں کی دل آزاری کی اور شر انگیز مہم شروع کی گئی ۔ اس پس منظر میں تحریک انصاف کے اندر نئی پارٹی کی تشکیل کا ابتدائی ڈھانچہ بظاہر خارج از امکان نہیں۔ ممکن ہے کوئی عوامی تحریک انصاف یا اسی طرح کے کسی اور نام سے نئی جماعت رجسٹریشن کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں دستاویزات جمع کرا دے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں