"KDC" (space) message & send to 7575

پی ٹی آئی آئینی اور قانونی بحران کی زد میں

پاکستان تحریک انصاف ان دنوں شدید آئینی اور قانونی بحران سے دوچار ہے۔ عمران خان کے خلاف اس وقت توہین عدالت کے علاوہ الیکشن کمیشن میں قومی اسمبلی کے سپیکر کا توشہ خانہ ریفرنس‘ توہین الیکشن کمیشن اور ممنوعہ فنڈنگ کو ضبط کرنے کا کیس بھی زیرِ سماعت ہے۔
گزشتہ روزاسلام آباد ہائی کورٹ نے توہینِ عدالت کیس میں عمران خان کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے قرار دیاکہ دو ہفتوں بعد عمران خان پر فردِ جرم عائد کی جائے گی۔ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کریمنل توہین عدالت بہت حساس معاملہ ہوتا ہے‘ اس عدالت کے لیے ڈسٹرکٹ کورٹ ریڈ لائن ہے ۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ اظہارِ رائے کی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دے سکتے۔ دورانِ سماعت عدالتی معاونین مخدوم علی خان اور منیر اے ملک نے عمران خان پر توہین عدالت کاکیس ختم کرنے کی استدعا کی۔عدالت کے معاون مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مفادِ عامہ انصاف کی فراہمی میں ہے تو اظہارِ رائے کی آزادی میں بھی ہے۔مخدوم علی خان نے کہا کہ امریکا میں صدر نے عدالتی فیصلے کو بدترین کہا تھا تو وہاں عدلیہ نے گریز کا مظاہرہ کیا اور دوسرا راستہ نکالا ۔اس پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ امریکا ہی میں ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹویٹر اکاؤنٹ معطل ہوا تھا‘ ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاؤنٹ پیروکاروں کو اشتعال دلانے پر معطل ہوا تھا۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ ایک سیاسی لیڈر کے لیے الفاظ کا چناؤ کتنا اہم ہے۔مخدوم علی خان نے بھی منیر اے ملک کی طرح عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی مخالفت کی اور کہا کہ عدالت اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کر کے عمران خان کو معاف کر دے۔دورانِ سماعت خان صاحب کے وکیل حامد خان نے مؤقف اختیار کیا کہ عمران خان کی طرف سے گزشتہ سماعت کی عدالت کی آبزرویشنز کی بنیاد پر ضمنی جواب تشکیل دے کر جمع کروایا جا چکا ہے‘ اب تو خان صاحب کے خلاف توہین عدالت کا کیس بند کردیا جائے۔ اپنے دلائل کے دوران جب وکیل حامد خان نے کہا کہ عمران خان کا کیس دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے مقدمات سے مختلف ہے تو اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل‘ سول اور کریمنل تین طرح کی توہین عدالت ہوتی ہیں۔ دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے مقدمے میں کریمنل توہین نہیں تھی جبکہ عمران خان کا کیس کریمنل توہین کاہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کو توہین عدالت کیس میں معافی کا موقع دیا تھا لیکن خان صاحب نے غیر مشروط معافی مانگنے سے گریز کرتے ہوئے اپنے الفاظ پر صرف پچھتاوے کا اظہار کیا تھا۔توہین عدالت کے اس مقدمے سے عوام اور ووٹرز میں عمران خان کی سیاست اور ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔جہاں تک الیکشن کمیشن میں لگے کیسز کی بات ہے تو اُن میں توہینِ الیکشن کمیشن اور ممنوعہ فنڈنگ ضبط کرنے کا کیس بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں عمران خان کو شوکاز نوٹس جاری کیا ہوا ہے جس کی رُو سے عمران خان کو الیکشن کمیشن میں خود پیش ہونا پڑے گا۔ اگر خان صاحب شوکاز نوٹس کے بعد بھی خود الیکشن میں پیش نہیں ہوتے تو پھر الیکشن کمیشن آف پاکستان یک طرفہ طور پر خان صاحب پر فرد جرم عائد کر سکتا ہے جس کے بعد یک طرفہ فیصلہ کرتے ہوئے ممنوعہ فنڈنگ ضبط ہو جائے گی۔ اس وقت ایف آئی اے ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں انکوائری کر رہی ہے۔ بادی النظر میں پاکستان تحریک انصاف ایک تنگ و تاریک سرنگ میں داخل ہو رہی ہے اور اب خان صاحب نے فیصل آباد کے جلسے میں ایک اہم تقرری کے حوالے سے جو متنازع بیان دیا ہے وہ پارٹی کی مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد جب سے عمران خان اقتدار سے محروم ہوئے ہیں وہ اداروں کے حوالے سے جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ خان صاحب کے اس رویے سے تحریک انصاف کے کچھ ذمہ دار رہنما مضطرب اور خوف میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق خان صاحب کے بیان پر صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا تھا کہ عمران خان اپنے بیان کی خود وضاحت کریں۔گورنر ہاؤس پشاور میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے صدرِ مملکت نے کہا کہ آرمی چیف سمیت فوج کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جا سکتا‘ موجودہ حکومت سمیت سب ادارے محب وطن ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ فوج محب وطن ہے‘ جان دیتی ہے‘ فوج نے سیلاب میں بھی کام کیا‘ عمران خان اپنے بیان کی خود وضاحت کریں کہ ان کے کہنے کا کیا مقصد تھا۔
پاکستان کی تاریخ میں نئے آرمی چیف کی تقرری کا مرحلہ ہمیشہ بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے لیکن آئین کے آرٹیکل 234 کے تحت اس تقرری کا حتمی اختیار صرف وزیراعظم کو حاصل ہوتا ہے۔یہ وزیراعظم کا آئینی استحقاق ہے؛ تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ کسی جلسہ عام میں اس تقرری کا تذکرہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ انداز میں کیا گیا۔ نومبر میں ہونے والی اس اہم تقرری کے حوالے سے خان صاحب کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری اس سیٹ پر اپنے پسندیدہ لوگوں کو آگے لانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ ماضی میں نواز شریف اور آصف علی زرداری بھی اس اہم تقرری کے حوالے سے متنازع بیانات اور ریمارکس دیتے رہے ہیں لیکن ملکی سالمیت کے لیے یہ کسی طور درست نہیں ہے کہ اس تقرری کو کسی سیاسی نقطۂ نظر سے جوڑا جائے۔ گزشتہ ماہ آصف علی زرداری نے بھی ذومعنی انداز میں اس تقرری کے حوالے سے گفتگو کی تھی جو انتہائی نامناسب تھی۔ اسی طرح نواز شریف بھی اس حوالے سے اپنی آرا کا اظہار کرتے رہے ہیں اور مولانا فضل الرحمن بھی۔ یہ اظہارِ خیال 2018ء کے انتخابات کے حوالے سے ہونے والی ایک گفتگو کے دوران کیا گیا۔ دورانِ گفتگو الیکشن 2018ء کے دوران آر ٹی ایس سسٹم کے بیٹھنے پر تنقید کی گئی۔ دراصل جولائی 2018ء کے انتخابات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پولنگ سٹیشنز کے اندر سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کی تجویز کو مسترد کر دینا چاہیے تھا۔ میں نے بھی اس ضمن میں چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضا کو خط لکھا تھا کہ ایسا کرنے سے اُن کی غیر جانبدارای پر سوال اٹھائے جائیں گے۔ بہرحال 25 جولائی 2018ء کوآر ٹی ایس سسٹم پُراسرار طور پر بیٹھ ہو گیا جس کی ناکامی کا ذمہ دار الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نادرا کو ٹھہرایا گیا۔ 2018ء کے الیکشن میں عمران خان کی الیکشن ٹیکنالوجی نے ووٹرز کو متحرک رکھا ہوا تھا اور ہر ووٹر کو پولنگ سٹیشن تک رسائی کے بارے میں موبائل کے ذریعے آگاہ کیا ہوا تھا شاید یہی وجہ تھی کہ آر ٹی ایس سسٹم بیٹھنے پر الیکشن کمیشن شدید تنقید کی زد میں رہا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں