"KDC" (space) message & send to 7575

توہینِ الیکشن کمیشن اور واپسی کا معدوم راستہ

عمران خان‘ ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ مقبول رہنما نہیں ہیں جبکہ کچھ حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین سیاسی طور پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ‘ سابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سے زیادہ طاقتور بھی نہیں ہیں۔ میرے نزدیک اگر سیاست میں طاقت کا محور آپ کے گرد نہیں گھومتا اور آپ کے ہاتھ میں سیاست کے ٹرمپ کارڈز نہیں ہیں تو پھر آپ خود کو سیاسی میدان میں بالکل فارغ سمجھیں۔ خان صاحب کے وہ دوست جوانہیں عوامی جلسوں سے مخصوص حلقوں کو خوف زدہ کرنے کے خواب دکھا رہے ہیں‘ وہ اُن کی کوئی خدمت نہیں کر رہے بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ خان صاحب کو بھٹو بنانے کی تاک میں ہوں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ خان صاحب اپنے موجودہ ترجمانوں‘ مشیروں اور اُن قانونی ماہرین‘ جن سے وہ اپنے کیسوں کے حوالے سے مشورہ کرتے ہیں‘ کو نہ صرف فوری طور پر فارغ کر دیں بلکہ ان سے لاتعلقی کا اعلامیہ بھی جاری کریں اور پارٹی میں اندرونی طور پر خود اصلاحی تبدیلی لائیں‘ حقیقی نمائندوں کو آگے لائیں۔ اس طرح خان صاحب درپیش آئینی و سیاسی بحران سے نکل سکتے ہیں۔
اُدھر تحریک انصاف کی تمام تر سیاسی سرگرمیوں کے با وجود موجودہ حکومت ممکنہ طور پر اگست 2023ء تک قائم رہے گی۔ سیلاب‘ معاشی بدحالی اور پاکستان تحریک انصاف کے بعض رہنماؤں کی نااہلی کی وجہ سے پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کی حکومت خطرے کی زد میں آ سکتی ہے اور اگراسی دوران نواز شریف لندن سے واپس آجاتے ہیں اور واپس آ کر اپنی سیاسی سرگرمیوں کو آغاز کردیتے ہیں تو تحریک انصاف کے بیانیے کی مقبولیت میں کمی آ سکتی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے نے تحریک انصاف کو پہلے ہی دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے۔ عمران خان کو ادراک ہونا چاہیے تھا کہ عدالت اپنے فیصلے آئین اور قانون کے مطابق کرتی ہے‘ کسی کی مقبولیت دیکھ کر نہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے فردِ جرم عائد ہونا عمران خان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے‘ لہٰذا فردِ جرم عائد ہونے کے بعد خان صاحب کو اپنے دفاع کے لیے نئی راہ تلاش کرنی چاہیے۔ غالب امکان یہی ہے کہ عمران خان اس فردِ جرم کو تسلیم نہیں کریں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے وکلا اسلام آباد ہائیکورٹ کی اتھارٹی کو ہی چیلنج کر یں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو اس کیس میں ازخود نوٹس لینے کا آئینی اختیار حاصل نہیں اور ڈپٹی رجسٹرار کی مدعیت میں عمران خان کے خلاف جو توہین عدالت کا مقدمہ دائر کیا گیا ہے وہ قانون کے مطابق نہیں۔ عمران خان کے وکلا کے تمام تر دلائل کے باوجود خان صاحب کے طرزِ عمل سے یہ لگتا ہے کہ وہ موجودہ آئینی بحران سے فی الحال مصلحتاً نہیں نکلناچاہتے کیونکہ ان کے نزدیک اداروں کے ساتھ محاذ آرائی سے انہیں عوام میں پذیرائی ملتی رہے گی جو زمینی حقائق کے بالکل برعکس ہے۔
دوسری جانب عمران خان نے چند روز قبل چیف الیکشن کمشنر کے خلاف جن سخت الفاظ کا استعمال کیا تھا‘ اس پر خان صاحب کے خلاف توہینِ الیکشن کمیشن کا کیس چل رہا ہے۔حالیہ سماعت میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان‘پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری اور اسد عمر کی جانب سے اس ضمن میں جمع کرائے گئے جوابات کو غیر اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 110 کے تحت انہیں 27 ستمبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا ہے۔ تحریک انصاف نے اپنے تحریری جواب میں لکھا تھا کہ انہوں نے الیکشن کمیشن کی کوئی توہین نہیں کی۔ الیکشن کمیشن کا نوٹس آئین کے خلاف ہے۔ عمران خان توہینِ الیکشن کمیشن کا ارتکاب کرنے والے واحد سیاستدان نہیں‘ ماضی میں کچھ دیگر سیاسی شخصیات بھی اس کی مرتکب ہو چکی ہیں۔1992ء میں جب نگران حکومت کے دوران میاں نواز شریف نے اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار فخرعالم کے حوالے سے سخت الفاظ استعمال کیے تو الیکشن کمیشن نے ان کو توہین الیکشن کمیشن کا نوٹس جاری کر دیا تھا۔ نوٹس میں واضح طور پر دی جانے والی وارننگ اور نااہل قرار دیے جانے والے خطرے کے پیش نظر میاں محمد نواز شریف نے سرتاج عزیز‘ گوہر ایوب خان اور مشاہد حسین سید کی وساطت سے چیف الیکشن کمشنر کو معافی نامہ پیش کر کے معافی کی استدعا کی جس پر اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر نے ان کو معاف کر کے آئندہ کے لیے سرزنش کی۔ اسی طرح 1994ء میں اس وقت کے وفاقی وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر شیر افگن نیازی کے خلاف چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) نعیم الدین نے ایک متعصب پریس کانفرنس پر نوٹس جاری کر دیا۔ نوٹس کے متن کو دیکھتے ہوئے اُس وقت کی وزیراعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو اور وفاقی وزیر قانون و انصاف اقبال حیدر نے ڈاکٹر شیر افگن نیازی کو فوری طور پر الیکشن کمیشن سے معافی مانگنے کا مشورہ دیا‘ ڈاکٹر شیر افگن نیازی نے اقبال حیدر کے ہمراہ جسٹس (ر) نعیم الدین سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی اور معافی مانگتے ہوئے تحریری معافی نامہ پیش کر دیا۔ اسی طرح 2001ء میں جب اس وقت کے نادرا کے چیئرمین میجر جنرل زاہد حسین نے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) عبدالقدیر چودھری کے بارے میں ایسے ریمارکس دیے جو توہین الیکشن کمیشن کے زمرے میں آتے تھے‘ تو جسٹس (ر) عبدالقدیر چودھری نے نہ صرف میجر جنرل زاہد حسین بلکہ ان صحافیوں کے خلاف بھی توہین الیکشن کمیشن کا نوٹس لے لیا جنہوں نے اُن ریمارکس سے متعلق خبر کو شائع کیا تھا۔ بعد ازاں وفاقی سیکرٹری ڈاکٹر فقیر حسین کھوکھر کی وساطت سے چیئرمین نادرا نے چیف الیکشن کمشنر سے معافی کی استدعا کی جس پر اُنہیں الیکشن کمیشن کی طرف سے معافی مل گئی۔خان صاحب بھی اس قبل 2016ء اور 2018ء میں اپنے غیر مناسب رویے پرالیکشن کمیشن آف پاکستان سے غیر مشروط معافی مانگ چکے ہیں جس کے بعد توقع یہی تھی کہ وہ آئندہ توہین الیکشن کمیشن کا ارتکاب نہیں کریں گے لیکن جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس بار توہینِ الیکشن کمیشن کیس میں عمران خان کے بچ نکلنے کا راستہ معدوم ہو چکا ہے۔
خان صاحب کے خلاف چلنے والے کیسوں کے بعد تحریک انصاف کی اندرونی کیفیت اس وقت کچھ ایسی ہے کہ پارٹی قیادت کے لیے جماعت میں ابھی سے گروپ بندی نظر آنے لگی ہے لیکن غالب امکان یہی ہے کہ اس ضمن میں کوئی بھی حتمی فیصلہ عمران خان خود ہی کریں گے۔ خان صاحب کو ادراک ہو چکا ہے کہ جماعت کے کن چار اراکین نے جماعت کو بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے۔ عمران خان اگر توہین الیکشن کمیشن کیس میں الیکشن کمیشن سے یا پھر توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ سے نااہل ہوتے ہیں تو ان کے بعد پارٹی کی قیادت سنبھالنے کی صلاحیت کسی بھی رہنما میں موجود نہیں ہے اور پارٹی قیادت کی وجہ سے جماعت تقسیم بھی ہو سکتی ہے۔ بعض حضرات خان صاحب کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ معافی مانگ کر پارٹی کی ساکھ کو بچا لیں۔ اس حوالے سے وہ جس مبینہ سازش کا ذکر کرتے ہوئے مائنس ون کا واویلا مچا رہے ہیں‘ وہ حقائق کے بالکل برعکس ہے۔ یہاں عام روایت یہی ہے کہ جب کسی شخص پر فردِ جرم عائد ہو جائے تو اُس پر معافی کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور وہ آئین کے مطابق سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ ملکی تاریخ مد نظر رکھیں تو جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف فردِ جرم عائد ہوئی تو پھر بات ان کی پھانسی پر جا کر ختم ہوئی۔ ماضی قریب میں دیکھیں تو فردِ جرم عائد ہونے کے بعد نواز شریف‘ نہال ہاشمی‘ دانیال عزیز اورطلال چوہدری نااہل قرار پائے۔ میرا تجزیہ یہی ہے کہ توہین الیکشن کمیشن کے جرم میں خان صاحب کا سیاسی سفر اختتام پذیر ہو سکتا ہے کیونکہ اب اس کیس میں واپسی کا راستہ بظاہر معدوم ہو چکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں