"KDC" (space) message & send to 7575

توشہ خانہ ریفرنس اور لانگ مارچ

الیکشن کمیشن آف پاکستان گزشتہ ہفتے سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کے بھیجے گئے توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان کو نااہل قرار دے چکا ہے‘ اس کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن عمران خان کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کرانے کا بھی حکم جاری کر چکا ہے۔ فوجداری مقدمہ کے تحت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں حقائق چھپانے کے جرم میں سزا دینے کے مجاز ہیں اور بعد ازاں اسی فیصلہ کی روشنی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 232 کے تحت عمران خان کو پانچ سال کے لیے نااہل قرار دے سکتا ہے۔
توشہ خانہ کیس کا فیصلہ خان صاحب کے خلاف آنے کے بعد وہ میانوالی سے اپنی قومی اسمبلی کی نشست سے محروم ہو چکے ہیں۔یہ فیصلہ آئندہ انتخابات پر بھی گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ خان صاحب چونکہ عوام میں اپنے کرپشن مخالف بیانیے کی وجہ سے مقبول ہیں لیکن توشہ خانہ کیس کے فیصلے کے مطابق وہ کرپٹ پریکٹس میں ملوث رہ چکے ہیں‘ لہٰذایہ فیصلہ خان صاحب کے ووٹرز کو پیچھے ہٹنے کا سامان فراہم کر چکا ہے۔ میری اطلاع کے مطابق توشہ خانہ ریفرنس کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے سنجیدہ اور دور اندیش رہنماؤں کو بھی اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہو چکی ہے کیونکہ وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ عمران خان نے توشہ خانہ کے حوالے سے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا ہے جس سے پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ شنید ہے کہ اس وجہ سے تحریک انصاف کے اندر گروپ بندی بھی ہو چکی ہے۔ یہ گروپ بندی عمران خان کے آج سے شروع ہونے والے لانگ مارچ کے منطقی نتائج پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عمران خان سمیت تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں کو جاری توہین الیکشن کمیشن کے شوکاز نوٹسز کو معطل کرنے کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے سپریم کورٹ میں دائر اپیل میں ہائی کورٹ کے حکم امتناعی کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کرتے ہوئے یہ مؤقف اپنایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت توہین کی کارروائی چلانے کا اختیار رکھتا ہے اوریہ آئین سے بھی متصادم نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کچھ عرصہ قبل الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 10‘ جسے آئین کے آرٹیکل 204کی حمایت بھی حاصل ہے‘ کے تحت عمران خان‘ اسد عمر اور فواد چودھری کو توہین الیکشن کمیشن پر شو کاز نوٹس جاری کیے تھے جسے لاہور ہائیکورٹ کے راولپنڈی بینچ نے معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف کے رہنمائوں کے خلاف کارروائی سے روک دیا تھا لیکن شوکاز نوٹس معطل کرنے کے ہائیکورٹ کے عبوری حکم کو قانون کی نظر میں برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ اس عبوری حکم سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا اختیار محدود ہو جاتا ہے جبکہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 10کے تحت الیکشن کمیشن کو ادارے کی توہین پر کارروائی کرنے کا قانونی اختیار حاصل ہے۔
اصولی طور پر دیکھا جائے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اعلیٰ عدلیہ کے مساوی اختیارات حاصل ہیں کیونکہ آئین کے آرٹیکل 213کے تحت چیف الیکشن کمشنر کو سپریم کورٹ کے جج کے مساوی اختیارات حاصل ہیں جبکہ آئین کے آرٹیکل 222کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات میں کمی بھی نہیں کی جا سکتی اور اسی آرٹیکل کی ذیلی شق D اور E کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کرپٹ پریکٹس کے تحت کارروائی کرنے کا مجاز ہے اور اسی طرح آئین کے آرٹیکل 218نے بھی کرپٹ پریکٹس کی روک تھام کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بااختیار بنایا ہے جس کا سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز جج صاحبان اپنے ریمارکس میں ذکر بھی کر چکے ہیں۔
یوں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اگر ہائی کورٹ کے حکم کو تحلیل کر دیا تو الیکشن کمیشن آف پاکستان عمران خان‘ اسد عمر اور فواد چودھری کے خلاف فردِ جرم عائد کرکے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 10کے تحت کریمنل توہینِ عدالت اور 2002ء کے آرڈیننس کی دفعہ 3 کے تحت سزا دینے کا مکمل اختیار رکھتا ہے ۔ اگر فردِ جرم عائد کرتے ہوئے عمران خان‘ اسد عمر اور فواد چودھری ذاتی حیثیت میں الیکشن کمیشن میں پیش نہیں ہوتے تو بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان قانون کے مطابق یکطرفہ کارروائی کرنے کا مجاز ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف کی لیگل ٹیم میں اس وقت کئی ریٹائرڈ ججز بھی شامل ہیں‘ عمران خان کوان کی ماہرانہ رائے کو اہمیت دینی چاہیے۔ ممکن ہے کہ عمران خان کے وکلا ان کو یہی تاثر دے رہے ہوں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات نمائشی ہیں اور اس کے ہر فیصلے کے خلاف حکم امتناعی حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن میں یہاں یہ واضح کرتا چلوں کہ موجودہ الیکشن کمیشن 2018ء والا الیکشن کمیشن نہیں ہے کیونکہ موجودہ الیکشن کمیشن آف پاکستان آئین کی روح کے مطابق اپنے اختیارات کا استعمال بخوبی جانتا ہے لہٰذا سپریم کورٹ آف پاکستان سے الیکشن کمیشن کی درخواست منظور ہونے کے بعد الیکشن کمیشن توہین الیکشن کمیشن کے کیس میں عمران خان‘ اسد عمر اور فواد چودھری کے خلاف فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں کھڑا ہو گا۔
اس ساری صورتحال کے پیش نظر تحریک انصاف کے چیئرمین کے خلاف توہین الیکشن کمیشن کیس میں 10 نومبر سے پہلے پہلے فردِ جرم عائد ہوسکتی ہے‘ اسی لیے اُن کے سیاسی مستقبل کا کافی حد تک دارومدار اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ پر ہے لیکن اگلے روز ہونے والی فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس عمران خان کے لانگ مارچ پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے کیونکہ فیصل واوڈا ماضی میں خان صاحب کے کافی قریب رہے ہیں اور وہ پارٹی کے کافی رازوں سے واقف ہیں۔فیصل واوڈا نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ عمران خان جو لانگ مارچ کرنے جا رہے ہیں‘ وہ اُن کا جمہوری حق ہے لیکن میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے اس لانگ مارچ کے اندر خون خرابہ نظر آ رہا ہے۔ فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس نے لانگ مارچ کے شرکا کو تذبذب میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس لیے لانگ مارچ کے دوران خان صاحب کو عوام کی کم تعداد میں شمولیت سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لہٰذا عمران خان لانگ مارچ کا رسک نہ ہی لیں تو اچھا ہوگا۔ بادی النظر میں تحریک انصاف پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت ہے لیکن عمران خان کے طرزِ عمل سے پارٹی میں اندرونی طور پر سرکشی کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی میں مولانا کوثر نیازی نے پارٹی میں نقب زنی کر کے پارٹی کو نقصان پہنچایا تھا‘ اب ویسے ہی مناظر تحریک انصاف میں بھی نظر آ رہے ہیں یعنی جونہی عمران خان منظر سے ہٹیں گے‘ اُن کی جماعت تقسیم ہو جائے گی۔
فیصل واوڈا نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ارشد شریف کو قتل کرنے کی سازش پاکستان میں تیار ہوئی جبکہ وہ مقتدر حلقوں سے رابطے میں تھا اور پاکستان آنا چاہتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ارشد شریف اپنے مقصد‘ بیانیے اور سوچ میں ایمان داری سے کھڑا تھے‘ ان کو موت کا ڈر تھا نہ اُنہیں پیسے سے خریدا جاسکتا تھا لیکن اُن کو جو مقاصد بتائے گئے اس کے ایک پیچھے سازش تھی۔ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے حکومت ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے چکی ہے جس کی حتمی رپورٹ سامنے آنے تک اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں