"KDC" (space) message & send to 7575

چیف الیکشن کمشنر حقائق سے پردہ اٹھائیں گے؟

آئین کے آرٹیکل 149میں صوبوں کو وفاق کا حکم ماننے کا پابند بنایا گیا ہے۔ یہ آرٹیکل ہمیں بتاتا ہے کہ ہر صوبے کی ایگزیکٹو اتھارٹی کو اس طرح استعمال کیا جائے گا کہ وفاق کی ایگزیکٹو اتھارٹی کے ساتھ کوئی تعصب یا رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ اس آرٹیکل کے تحت وفاقی حکومت کو کسی بھی صوبے میں امن و امان اور معاشی بحران کے پیش نظر گورنر راج لگانے کا اختیار بھی حاصل ہے۔ اب اسی آرٹیکل کے تحت وفاقی حکومت نے تمام صوبوں کو الرٹ کر دیا ہے کہ اگر کسی صوبے میں امن و امان کے حوالے سے کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تو وفاقی حکومت فوری طور پر متعلقہ صوبے میں گورنر راج نافذ کرکے صوبے کی اسمبلی اور حکومت کو معطل کی پوزیشن میں ہے۔ اگرچہ اٹھارہویں ترمیم نے فیڈریشن کے اختیارات محدود کر رکھے ہیں لیکن آئین کا آرٹیکل 149وفاق کو یہ اختیارات اب بھی تفویض کرتا ہے۔
عمران خان کے لانگ مارچ کی بات کریں تو وفاقی حکومت کو ابھی تک اس سے کوئی خطرہ لاحق نہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب اپنی مخصوص حکمت عملی کے تحت عمران خان کو اسلام آباد تک پہنچنے کا محفوظ راستہ فراہم کر رہے ہیں۔ لانگ مارچ کے پہلے روز آنے والے شرکا کی تعداد خان صاحب کو متاثر نہیں کر سکی‘ اُسی روز تحریک انصاف کے رہنمائوں حماد اظہر اور اسد عمر کے درمیان تکرار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف لانگ مارچ کی بھرپور تیاری نہیں کر سکی۔ خدانخواستہ لانگ مارچ کے دوران اگر افراتفری کی کوئی صورت پیدا ہوئی تو تحریک انصاف کو ناقابلِ تلافی نقصان کا احتمال ہے۔ لانگ مارچ کے ابھی تک کے احوال کے مطابق عمران خان کی حکمت عملی ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اب اگر بھاری خرچے کے بعد خان صاحب مارچ سے مطلوبہ فائدہ نہ اٹھا سکے تو پھر وہ کون سا نیا بیانیہ لائیں گے؟ دوسری طرف اگر عمران خان اسلام آباد میں پانچ لاکھ کے قریب لوگوں کا جم غفیر لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن اُس کو منظم نہیں رکھ پاتے اور امن و امان کا کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو پھر بھی اُن کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں کیونکہ امن و امان یقینی بنانے کے لیے متعلقہ حکام کو میدان میں آنا پڑ سکتا ہے۔
دوسری طرف یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ خان صاحب کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جو کیس زیر سماعت ہیں اور ایف آئی اے نے ان کے خلاف فارن فنڈنگ ایکٹ کے تحت جو مقدمات درج کر رکھے ہیں‘ جن میں خان صاحب عبوری ضمانت لینے کے لیے کوشاں ہیں‘ اُن کی کارروائی بھی شروع ہونے والی ہے۔ ان کیسوں میں خان صاحب کو سزا بھی مل سکتی ہے لیکن ان کے آئینی ماہرین ہیں کہ انہیں ان مقدمات کے مضمرات سے آگاہ ہی نہیں کر رہے۔ لانگ مارچ اگر مطلوبہ نتائج حاصل کیے بغیر ختم ہوتا ہے تو خان صاحب کے ساتھ بڑے بڑوں کا رویہ بدل سکتا ہے۔
عمران خان ملک کے مقبول ترین قومی رہنما ہیں۔ ان کو ادراک ہونا چاہیے کہ اگر معاملات قابو سے باہر ہو گئے تو تحریک انصاف کا شیرازہ بکھر سکتا ہے۔ ان کی پارٹی میں گروہ بندی کی باتیں پہلے ہی کی جاتی ہیں۔ ایک حالیہ اعلیٰ سطحی پریس کانفرنس نے بھی کئی پوشیدہ پہلوؤں سے پردہ اُٹھایا ہے۔ اسی قسم کی ایک پریس کانفرنس مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد بھی ہوئی تھی کیونکہ مسٹر بھٹو بھی اقتدار سے علیحدگی پر سخت نالاں تھے۔ پی ٹی آئی کی حالیہ پریس کانفرنس نے پاکستان کے باشعور شہریوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ آخر ایسے کیا حالات پیدا ہو گئے کہ جن کے پیش نظر اس پریس کانفرنس کی ضرورت محسوس کی گئی؟ حالیہ پریس کانفرنس کے بعد حالات تیزی سے تبدیل ہوتے محسوس ہو رہے ہیں۔ بیشتر ذمہ دار حلقوں کی جانب سے اس پریس کانفرنس کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر اس کے حوالے سے حسبِ معمول غیر ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ ذرائع ابلاغ بھی ذاتی پسند ناپسند کی بنا پر تقسیم کا شکار نظر آتے ہیں۔ یہ پریس کانفرنس اس لیے بھی ناگزیر تھی کہ جب ملک میں جھوٹ اتنی آسانی‘ روانی اور فراوانی سے بولا جائے کہ ملک کے عدم استحکام کا شکار ہونے کے خدشات پیدا ہونے لگیں تو قوم کو حقیقت سے آگاہ کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ اس پریس کانفرنس کے فالو اَپ میں ریمارکس دیے گئے کہ بہت کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن ملکی ساکھ کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے‘ مگر جو کچھ پہلے سے کہا جا چکا ہے اُسی نے ریاستی اداروں کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے جس سے بھارت کو بھی وطن عزیز کی ہرزہ سرائی کا موقع مل گیا ہے۔
خان صاحب کو چاہیے کہ وہ اپنے اردگرد موجود اپنے ہی معاونین پر بھی گہری نظر رکھیں کیونکہ اُن کی جماعت میں ہی ایسے کافی افراد موجود ہیں جو تحریک انصاف اور عمران خان کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے لیکن قوم کو خان صاحب سے بڑی توقعات ہیں‘ وہ اپنی صلاحیتوں کو غلط بیانیے اور کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت ضائع کر رہے ہیں۔ ان کو اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے ملکی رازوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بھی احتیاط کرنی چاہیے‘ اگر انہوں نے اپنے حلف کی پاسداری کو ملحوظ خاطر نہ رکھا تو انہیں سیکرٹ ایکٹ 1951ء اور 1953ء کے تحت سزا کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
اب بات کرتے ہیں چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان سکندر سلطان راجہ کی‘ انہیں بھی یہ حقائق سب کے سامنے لانے چاہئیں کہ ان پر فارن فنڈنگ کیس کی کارروائی روکنے کے لیے اور انکوائری کا رخ بدلنے کے لیے کیسا کیسا دباؤ ڈالا گیا۔ کچھ اہم شخصیات کی طرف سے اُن پر خان صاحب سے خفیہ ملاقات کے لیے بھی دباؤ ڈالا گیا۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشین‘ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے مسئلے‘ سینیٹ کے الیکشن کے حوالے سے سپریم کورٹ کی رولنگ اور ڈسکہ الیکشن میں مبینہ گڑبڑ کے ذمہ داران سے عوام کو آگاہ کریں۔ چیف الیکشن کمشنر کو اُنہیں ملنے والی دھمکیوں پر بھی کھل کر بات کرنی چاہیے۔ اُنہیں یہ بھی بتانا چاہیے کہ نئی حلقہ بندیوں کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے اُنہوں نے جو 16خطوط سابق وزیراعظم کو لکھے تھے اُن کا کیا جواب دیا گیا اور اس کی وجہ سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے میں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور یہ کہ 7 اپریل 2022ء کو جب عمران خان نے بطور وزیراعظم قومی اسمبلی تحلیل کی تو الیکشن کمیشن آف پاکستان 90 دنوں میں الیکشن کرانے کی پوزیشن میں کیوں نہیں تھا۔ ملکی اور قومی مفاد کے لیے ضروری ہے کہ ان حقائق سے پردہ اٹھا دیا جائے۔
اب آخر میں بات اُس کمیشن کی جو وفاقی حکومت ارشد شریف قتل پر قائم کر چکی ہے‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ کمیشن اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس گروہ کہانی کو بے نقاب کر سکے گا جس کی طرف فیصل واوڈا نے اپنی پریس کانفرنس میں اشاروں کنایوں میں بات کی تھی۔ ارشد شریف ایک محب وطن صحافی تھے لیکن انہیں جس بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا‘ اُن کے لواحقین سمیت پوری قوم اس کے پس پردہ مضمرات جاننا چاہتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں