"KDC" (space) message & send to 7575

صدر مملکت کے اختیارات

سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو خط لکھ کر آئی ایس پی آر کا دائرہ کار دفاعی اور عسکری معاملات پر معلومات کے اجرا تک مخصوص کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔خط میں مطالبہ کیا گیا کہ صدرِ مملکت آئی ایس پی آر کے کام کے دائرہ کار کے تعین کے عمل کا فوری آغاز کریں۔ عمران خان کی طرف سے یہ خط 27اکتوبر کو ہونے والی ایک پریس کانفرنس کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔ خان صاحب نے شاید صدرِ مملکت کے اختیارات کا آئینی تناظر میں جائزہ لیے بغیر یہ خط لکھ دیا ہے۔ صدرِ مملکت کے اختیارات آئین کے آرٹیکل 91‘ 92‘ 149‘ 232‘ 234‘ 242اور 245 میں واضح ہیں۔ 1973ء کے آئین میں صدرِ مملکت کو واجبی سے اختیارات حاصل ہیں کیونکہ اُس وقت کی آئین ساز اسمبلی نے پاکستان کے معروضی حالات دیکھتے ہوئے اور ملک میں صدر ایوب خان اور صدر یحییٰ خان کے لامحدود اختیارات کا جائزہ لیتے ہوئے آرٹیکل 92کے تحت یقینی بنایا تھا کہ آئندہ ملک میں جو پارلیمانی نظامِ حکومت رائج کیا جائے گا‘ اس میں صدرِ مملکت کو محدود اختیارات حاصل ہوں۔
خبریں گردش کر رہی ہیں کہ جب صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی عمران خان کی عیادت کے لیے شوکت خانم ہسپتال گئے تو ان کی عمران خان سے تین گھنٹے طویل ملاقات ہوئی‘ جس میں اطلاعات کے مطابق صدرِ مملکت نے عمران خان کو مفاہمت‘ دور اندیشی اور مصلحت آمیز رویّہ اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے لانگ مارچ پر نظرثانی پر زور دیا لیکن صدرِ مملکت کے مشورے پر عمل کرنے کے بجائے عمران خان نے صدر ِمملکت کو ایک خط لکھ دیا جس میں اُن سے ایسے اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا جن کا آئین میں سرے سے کوئی تذکرہ ہی نہیں ۔
ذوالفقار علی بھٹو نے جب وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو وہ اُن سیاستدانوں کی ریشہ دوانیوں سے بخوبی آگاہ تھے جنہوں نے ماضی میں صدرِ مملکت کے ذریعے وزیراعظم پر دباؤ ڈالنے کی کئی کوششیں کی تھیں۔ لہٰذا مسٹر بھٹو نے آئین ساز اسمبلی کے ذریعے صدرِ مملکت کے اختیارات اس حد تک محدود کر دیے کہ وہ محض ایوانِ صدر تک محدود ہو کر رہ گئے۔ اگر 15اگست 1973ء سے اگست 1977ء تک کا تاریخی ریکارڈ ملاحظہ کیا جائے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ اُس زمانے میں بھی صدرِ مملکت برائے نام سپریم کمانڈر تھے‘ 18ویں ترمیم میں بھی یہی نظر آتا ہے۔ بھٹو کے بعد صدر ضیاء الحق نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے صدرِ مملکت کے اختیارات میں اضافہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی تحلیل کے لیے آئین کے آرٹیکل میں 58ٹو بی کا اضافہ کیا جسے بعد میں اٹھارہویں ترمیم میں حذف کر دیا گیا۔ آٹھویں ترمیم میں صدرِ مملکت کو پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے اختیارات اس لیے دیے گئے تھے تاکہ حکومت گڈ گورننس کے تحت کاروبارِ مملکت کو چلائے۔ ملک میں کرپشن‘ منی لانڈرنگ‘ اقربا پروری اور لوٹ مار کی جو کھلی اجازت دی گئی تھی‘ وہ محض آئین کے آرٹیکل 58ٹو بی کی مخالفت کا نتیجہ تھی۔ 58ٹو بی کے تحت ہی صدر ضیاء الحق‘ صدر غلام اسحاق خان اور صدر فاروق خان لغاری نے حکومتوں کو تحلیل کیا تھا۔عمران خان نے صدرِ مملکت کو خط لکھ کر ان سے آئی ایس پی آر کے اختیارات متعین کرنے کا جو مطالبہ کیا ہے‘ وہ اس تناظر میں سمجھ سے بالاتر ہے۔ صدرِ مملکت سیاسی اور انتظامی امور کا گہرا ادراک رکھتے ہیں لہٰذا وہ یہ خط وزارتِ دفاع کو برائے اطلاع بھجوانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکیں گے۔
پاکستان اس وقت نازک حالات سے گزر رہا ہے۔ ملک کی نوجوان نسل میں ماضی کے حکمرانوں کی کرپشن سے نفرت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ عمران خان کے احتساب بیانیے پر تہِ دل سے یقین کر تے ہیں۔ جس انداز سے پی ڈی ایم حکومت میں شامل جماعتوں کے رہنمائوں کو ان کے خلاف دائر کیسوں میں کلین چٹ مل رہی ہے اس نے بھی ملک کے نوجوان طبقے کو عمران خان کی پشت پر کھڑا کر دیا ہے۔ نوجوان طبقہ عمران خان کی بطور وزیراعظم کی گئی غلطیوں کو بھلا چکا ہے اور موجودہ حکومت کو ہدفِ تنقید بنائے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 3نومبر کو خان صاحب کے لانگ مارچ پر ہونے والے حملے کے بعد سے اُن کے حامی بالخصوص نوجوان طبقہ اس حملے کی مذمت میں اور اس کی شفاف تحقیقات کے لیے سڑکوں پر سراپا احتجاج ہے۔ اگرچہ تحریک انصاف کا لانگ مارچ جمعرات سے دوبارہ وزیرآباد سے شروع ہو چکا ہے اور خان صاحب پر ہونے والے حملے کی ایف آئی آر بھی درج ہو چکی ہے لیکن تحریک انصاف کے احتجاج میں کوئی کمی نظر نہیں آ رہی‘ کیونکہ خان صاحب کی اس ایف آئی آر سے تشفی نہیں ہو سکی اس لیے کہ اُس ایف آئی آر میں ان افراد کو نامزد نہیں کیا گیا جنہیں خان صاحب نامزد کروانا چاہتے تھے۔ خان صاحب کے اعتراضات کی وجہ سے ہی شاید پنجاب حکومت نے پی ٹی آئی کے سربراہ پر ہونے والے قاتلانہ حملے اور وزیرآباد پولیس کی جانب سے مقدمے میں ایف آئی آر کے اندراج کی تحقیقات کے لیے پانچ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔ محکمہ داخلہ کی جانب سے بنائی گئی جے آئی ٹی کی سربراہی آر پی او ڈیرہ غازی خان سید خرم علی کریں گے۔ جے آئی ٹی میں ڈی آئی جی اسٹیبلشمنٹ طارق رستم چوہان‘ اے آئی جی مانیٹرنگ احسان اللہ چوہان‘ ایس پی پوٹھوہار ڈویژن راولپنڈی ملک طارق محبوب اور ایس پی سی ٹی ڈی لاہور نصیب اللہ خان شامل ہیں۔ یاد رہے کہ وزیر آباد میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان پر قاتلانہ حملے کے چند گھنٹے بعد ہی وزارتِ داخلہ نے پنجاب حکومت سے کہا تھا کہ وہ حقائق کو منظر عام پر لانے کے لیے ایک اعلیٰ سطح کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے۔وفاقی حکومت نے اس حوالے سے پنجاب حکومت کو خط بھی لکھا تھا جس میں سینئر پولیس افسران اور انٹیلی جنس اہلکاروں کو جے آئی ٹی میں شامل کرنے کا کہا گیا تھا۔امید کی جانی چاہیے کہ یہ جے آئی ٹی عمران خان پر ہونے والے حملے کے اصل مضمرات سے پردہ اٹھانے میں کامیاب رہے گی جس سے تحریک انصاف کی جانب سے ملک میں جاری احتجاج کا سلسلہ رک سکے گا۔
اُدھر لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی توشہ خانہ ریفرنس میں نااہلی کے فیصلے کے خلاف لارجر بینچ بنانے کی استدعا منظور کرتے ہوئے سفارش کے ساتھ کیس کی فائل چیف جسٹس کو بھجوا دی ہے۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں‘ کسی کو نااہل کرنے کا اس کے پاس اختیار نہیں ہے اور یہ کہ عدالت الیکشن کمیشن کی جانب سے توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان کی نااہلی کا فیصلہ کالعدم قرار دے۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے 21 اکتوبر کو عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے یہ متفقہ فیصلہ سنایا تھا۔
اب کچھ بات سعودی ولی عہد کے متوقع دورۂ پاکستان کی۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق سعودی ولی عہد کی 21نومبر کو پاکستان آمد متوقع ہے۔ شنید ہے کہ انہی دنوں عمران خان کا لانگ مارچ بھی اسلام آباد پہنچ چکا ہوگا۔ وفاقی دارالحکومت میں ایک اہم غیر ملکی شخصیت کے دورے کے دوران احتجاج اور جلاؤ گھیراؤ سے پاکستان کے تشخص کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔سعودی ولی عہد کے دورے کے دوران کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ اس دورے سے قبل خان صاحب کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے راضی کیا جائے۔ خان صاحب بھی کچھ روز قبل مذاکرات کی ضرورت پر زور دے چکے ہیں۔ یہ مذاکرات ہی ملک میں جاری سیاسی ڈیڈ لاک کو ختم کر سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں