"KDC" (space) message & send to 7575

90روز میں انتخابات؟

مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی نے چند روز قبل ایک ٹی وی پروگرام میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے قمر جاوید باجوہ پر تنقید کو بے جا قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ تحریک عدم اعتماد کے موقع پر باجوہ صاحب نے ہی ان کی جماعت کو تحریک انصاف کا ساتھ دینے کا مشورہ دیا تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے چند دن بعد اپنے صاحبزادے مونس الٰہی کے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ باجوہ صاحب نے اُنہیں کہا تھا کہ آپ سوچ کر چلیں‘ آپ اور آپ کے دوستوں کے لیے عمران خان والا راستہ بہتر ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ مونس الٰہی کا بھی ذہن تھا کہ ہم نے عمران خان کے ساتھ جانا ہے اور اس وقت کی اپوزیشن کے ساتھ جاتے جاتے اللہ تعالیٰ نے ہمارا راستہ تبدیل کرا دیا‘ ہمیں راستہ دکھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قمر جاوید باجوہ صاحب کو بھیج دیا۔
مونس الٰہی اور چودھری پرویز الٰہی کے بیانات سے تو یہی تاثر ملتا ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد بھی باجوہ صاحب کی ہمدردیاں خان صاحب کے ساتھ تھیں جس سے خان صاحب کا مقتدرہ مخالف بیانیہ کمزور پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ مونس الٰہی کی اس گفتگو سے پیشتر وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنی کابینہ کی رکن اور پنجاب حکومت کی ترجمان مسرت جمشید چیمہ کو سابق آرمی چیف کے خلاف ٹویٹ پر شوکاز نوٹس جاری کرکے یہ باور کرا دیا تھا کہ تحریک انصاف کے مقتدرہ مخالف بیانیے سے اُن کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مونس الٰہی اور چودھری پرویز الٰہی کے اِن بیانات کے بعد اس راز سے پردہ اُٹھ چکا ہے کہ چودھری برادران کی طرف سے آصف علی زرداری کو تحریک عدم اعتماد میں پی ڈی ایم کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کے بعد وہ اچانک خان صاحب کے ساتھ کیوں جا کھڑے ہوئے تھے۔ تحریک انصاف کی طرف سے چودھری پرویز الٰہی کو وزارتِ اعلیٰ کی یقین دہانی کے بعد عثمان بزدار سے اِس عجلت میں استعفیٰ لیا گیا کہ انہوں نے آئین کے مطابق اپنا استعفیٰ گورنر پنجاب کو دینے کے بجائے سیدھا وزیراعظم پاکستان کوپیش کر دیا جس پر اپوزیشن رہنماؤں نے اس استعفیٰ کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ بعد ازاں چودھری محمد سرور نے سپیکر صوبائی اسمبلی چودھری پرویز الٰہی اور دیگر سینئر وزرا کی موجودگی میں عثمان بزدار کو وزارتِ اعلیٰ سے سبکدوش کر دیا۔ مونس الٰہی کے بیان سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ باجوہ صاحب کے مشورے کے بعد چودھری پرویز الٰہی کو مستقبل کا ایک ایسا خواب نظر آیا کہ اُنہوں نے چودھری شجاعت حسین سے قطع تعلقی میں بھی کوئی عار محسوس نہ کی اور اطلاعات کے مطابق یہ تعلقات تاحال بحال نہیں ہو سکے۔
اُدھر توہین الیکشن کمیشن اور توہین الیکشن کمشنر کیس میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے مختلف ہائی کورٹس میں جاری کیسز کو یکجا کرنے کے لیے درخواست کو نمٹاتے ہوئے اسے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سمیت پارٹی رہنماؤں اسد عمر اور فواد چودھری کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔ واضح رہے کہ رواں سال اگست میں الیکشن کمیشن نے عمران خان‘ اسد عمر اور فواد چودھری کو مختلف جلسوں‘ پریس کانفرنسز اور متعدد انٹرویوز کے دوران الیکشن کمیشن پر بے بنیاد الزامات عائد کرنے پر الیکشن کمیشن کی توہین اور ساتھ ہی عمران خان کو توہین چیف الیکشن کمشنر کا نوٹس بھی جاری کیا تھا۔ بعد ازاں الیکشن کمیشن نے خان صاحب اور تحریک انصاف کے رہنمائوں کے خلاف سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا تھا۔ گزشتہ روز اس کیس پر ہونے والی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف الیکشن کمیشن کے نوٹسز لاہور ہائیکورٹ‘ سندھ ہائیکورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہیں‘ تمام ہائیکورٹس میں الیکشن کمیشن کے خلاف پی ٹی آئی رہنماؤں کی درخواستوں کو یکجا کردیا جائے۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کو آرٹیکل 63 (ون)(پی) کے تحت جھوٹے بیانات اور غلط ڈیکلیریشن جمع کرانے پر نااہل قرار دیے جانے کے حوالے سے اپنے فیصلے کی روشنی میں چیئرمین پی ٹی آئی کو پارٹی کی چیئرمین شپ کے عہدے سے ہٹانے کے لیے کارروائی شروع کردی ہے۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن کی طرف سے سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین کو نوٹس بھی جاری کیا جا چکا ہے اور کیس کی سماعت 13دسمبر کو مقرر کی گئی ہے۔
26نومبر کو راولپنڈی میں ہونے والے جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے خان صاحب نے خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن حتمی فیصلے کے اعلان کو پارٹی اراکین سے مشاورت سے مشروط کیا تھا۔ اب گزشتہ دنوں ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے ملک میں نئے انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ اگر حکومت مارچ کے آخر تک الیکشن کے لیے تیار ہے تو ہم رک جاتے ہیں لیکن ہم مارچ سے آگے نہیں جائیں گے۔ اگر حکومت مارچ میں انتخابات کے لیے نہ مانی تو ہم اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے۔ اگر حکومت چاہتی ہے تو ہم الیکشن کی تاریخ پر مذاکرات کر سکتے ہیں لیکن بجٹ کے بعد الیکشن کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ جس کے بعد پی ڈی ایم کا موجودہ سیاسی ڈیڈ لاک کے خاتمے کے لیے سابق وزیراعظم عمران خان کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ چاہتی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اپنی شرائط سے دستبردار ہو جائے۔ اگر خان صاحب خود مذاکرات میں شرکت کیلئے تیار ہیں تو حکمران اتحاد پی ٹی آئی کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کیلئے تیار ہے لیکن تاحال یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک میں سیاسی غیر یقینی برقرار ہے‘ ابھی تک نہ تو خان صاحب کی طرف سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا کوئی حتمی پلان دیا گیا ہے اور نہ ہی اپوزیشن ان اسمبلیوں کی تحلیل کو روکنے کا کوئی عملی منصوبہ سامنے لا سکی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ تحریک انصاف کے اندرونی حلقوں میں اسمبلیوں کی تحلیل کے حوالے سے دو آرا موجود ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے خان صاحب کے موقف کی تائید کر چکے ہیں اور اُنہیں مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کروا چکے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ اس خدشے کا شکار بھی ہیں کہ اسمبلی کی تحلیل کے بعد تحریک انصاف پنجاب میں اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں تو ضرور ہے لیکن وہ انہیں دوبارہ وزارتِ اعلیٰ نہیں دے گی۔
ممکن ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد عمران خان کو مزید مقدمات کا سامنا کرنا پڑ جائے۔ الیکشن کمیشن میں زیر سماعت مقدمات میں بھی ان کو سزا ہو سکتی ہے۔ ملک کے وسیع تر مفاد کے پیشِ نظر ابھی سیاسی حلقوں میں اُن کیلئے نرم گوشہ موجود ہے لیکن اُن کی اور اُن کی جماعت کے رہنمائوں کی طرف سے جو رویہ اختیار کیا گیا ہے‘ اُس کے پیشِ نظر یہ زیادہ دیر برقرار رہتا نظر نہیں آ رہا۔ موجودہ حالات کے پیش نظر اور وسیع تر ملکی مفاد میں یہی موزوں معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت اسمبلیوں کی تحلیل کی طرف نہ جائے اور اگلے عام انتخابات کا انتظار کرے۔ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد دونوں صوبوں بالخصوص کے پی میں انتخابات کیلئے امن و امان کی صورتحال کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔ اس تناظر میں اسمبلی کی تحلیل کے 90روز بعد تک بھی انتخابات کا انعقاد مشکل ہے۔ مزید یہ کہ الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 234کے تحت 90روز میں انتخابات کرانے کا آئینی طور پر پابند نہیں ہے‘ آئین کا آرٹیکل 232بھی اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو معاونت فراہم کرسکتا ہے‘ اس لیے موجودہ اسمبلیوں کا اپنی مدت پوری کرنا اور اگلے عام انتخابات کا مقررہ وقت پر ہونا ہی ملکی مفاد میں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں