"KDC" (space) message & send to 7575

عمران خان مقدمات کی زد میں

صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے درمیان گزشتہ چند روز کے دوران تین ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ شنید ہے کہ ان ملاقاتوں کا مقصد تحریک انصاف اور پی ڈی ایم بالخصوص مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کے پیغامات کی ترسیل ہے۔ بظاہر ان ملاقاتوں میں سیاسی صورتحال‘ عام انتخابات اور صوبائی اسمبلیوں کی ممکنہ تحلیل کے حوالے سے بات چیت کی گئی مگر اطلاعات ہیں کہ جمعرات کے روز ہونے والی ملاقات میں اسحاق ڈارنے وزیراعظم شہباز شریف کا پیغام صدر عارف علوی کو پہنچایا۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ سیاسی پیش رفت کے لیے صدرعارف علوی اور وزیر خزانہ کے درمیان ایسی مزید ملاقاتیں بھی ہو سکتی ہیں۔ اگرچہ ان ملاقاتوں کے باوجود سیاسی ڈیڈ لاک تاحال برقرار ہے لیکن اُمید کی جانی چاہیے کہ ان ملاقاتوں کا کوئی مثبت نتیجہ ہی برآمد ہوگا جس کے بعد ملک میں سیاسی استحکام کی کوئی نئی صورت پیدا ہو سکے گی۔ ملک میں سیاسی استحکام کا قیام اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہمارا معاشی استحکام اس سے مشروط ہے۔
شنید ہے کہ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے اختیار کیے گئے جارحانہ سیاسی طرزِ عمل کی وجہ سے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی بظاہر تو عمران خان کے اسمبلی تحلیل کرنے کے بیان کی حمایت کر رہے ہیں لیکن در پردہ اُن کی حتی الامکان کوشش یہی ہے کہ اسمبلی تحلیل نہ کرنی پڑے۔ عمران خان کی مشاورت کے بغیر پنجاب کی کابینہ میں اضافہ بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی اسمبلی کی تحلیل نہیں چاہتے۔ پنجاب کی کابینہ میں نئے وزیر(خیال کاسترو) کے اضافے سے عمران خان کے صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے بیانیے کو نقصان پہنچا ہے۔ خان صاحب کے چند قریبی ساتھیوں کے مطابق وہ چودھری پرویز الٰہی کے اس عمل سے خوش نہیں۔ پنجاب کی کابینہ میں نئے وزیر کی شمولیت اور ان خبروں کے بعد کہ چودھری پرویز الٰہی فی الوقت اسمبلی کو تحلیل نہیں کرنا چاہتے‘ پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما فواد چودھری واضح کر چکے ہیں کہ اگر مسلم لیگ(ق) پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد برقرار رکھنا چاہتی ہے تو پرویز الٰہی کو صوبائی اسمبلی تحلیل کرنا ہی پڑے گی‘ اب مسلم لیگ (ق) کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ پی ٹی آئی کے ساتھ اپنا اتحاد جاری رکھنا چاہتی ہے یا اگلے انتخابات اکیلے لڑنا چاہتے ہیں۔ اس تناظر میں پنجاب میں تحریک انصاف اور اُس کے اتحادیوں کے مابین اسمبلی کی تحلیل کو لے کر نئی کھینچا تانی شروع ہو سکتی ہے۔
دوسری طرف یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ خان صاحب کے مشیر اُنہیں باور کراچکے ہیں کہ اسمبلیوں کی تحلیل کا مطلب جماعت کی مشکلات میں اضافہ ہے کیونکہ اگر وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کرتے ہیں تو متعلقہ اسمبلیوں کے قائدِ حزبِ اختلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت اسمبلی کی تحلیل چیلنج کر سکتے ہیں‘ جہاںیہ دلائل دیے جا سکتے ہیں کہ صوبوں میں امن و امان قائم تھااورترقیاتی کام بھی ہو رہے تھے‘ انتظامی معاملات کی بہتری کے لیے نئے ڈویژن اور اضلاع بھی بنائے جا رہے تھے۔ پنجاب حکومت خود یہ اعتراف کر چکی ہے کہ صوبے میں امن و امان کا کوئی مسئلہ نہیں۔ وفاق اور صوبوں کے مابین کوئی محاذ آرائی بھی نہیں ہے۔ سپریم کورٹ وزیراعلیٰ سے براہِ راست بھی پوچھ سکتی ہے کہ جب حالات سازگار تھے تو پھر اسمبلی کس بنیاد پر تحلیل کی گئی؟ عدالتِ عظمیٰ زمینی حقائق کے پیش نظر تحلیل شدہ اسمبلی کے فیصلے کو کالعدم بھی قرار دے سکتی ہے اور دونوں صوبوں کے گورنر بھی زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں وزرائے اعلیٰ کی سمری‘ جو وہ آئین کے آرٹیکل 112کے تحت اسمبلیوں کی تحلیل کے بارے میں گورنر کو بھجوائیں گے‘ پر نظرثانی کے لیے وزرائے اعلیٰ کو واپس بھیج سکتے ہیں اور یہی ریمارکس اپنے آرڈر میں بھی لکھ سکتے ہیں۔ یعنی محض سیاسی مفادات کے پیش نظر اسمبلیوں کی تحلیل سے تحریک انصاف کی سیاسی مشکلات میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ان آئینی پیچیدگیوں سے قطع نظر‘ ملک اس وقت معاشی مشکلات کا شکار بھی ہے‘ ان حالات میں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نئے انتخابات پر جو قوم کے اربوں روپے خرچ ہوں گے اُس کی ذمہ داری کس پر ڈالی جانی چاہیے؟
ایسا لگتا ہے کہ جیسے عمران خان مقدمات کی زد میں آ چکے ہیں‘ اُن کے خلاف پانچ کیسز کی سماعت 13 دسمبر کو ہوگی‘ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کاز لسٹ بھی جاری کرچکا ہے۔اس کاز لسٹ کے مطابق 13 دسمبر کو چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے خلاف نامناسب ریمارکس پر عمران خان‘ اسد عمر اور فواد چودھری کے خلاف کیس کی سماعت ہو گی۔ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے کی درخواست پر سماعت بھی اُسی روز ہوگی جبکہ خان صاحب کی طرف سے ضمنی انتخابات میں انتخابی اخراجات جمع نہ کرانے کے معاملے پر جاری کیے گئے نوٹس کی سماعت بھی اُسی روز ہونا طے پائی ہے۔ واضح رہے کہ خان صاحب نے قومی اسمبلی کے حلقوں این اے 22 مردان‘ این اے 24 چارسدہ‘ این اے 31 پشاور‘ این اے 108 فیصل آباد‘ این اے 118 ننکانہ صاحب‘ این اے 239 کورنگی کراچی اور این اے 45 کرم ایجنسی سے انتخابی اخراجات جمع نہیں کرائے۔پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کیس پر سماعت بھی 13 دسمبر کو ہی ہوگی۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد کو عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کے لیے جو آرڈر بھیجا گیا تھا‘ اس کی سماعت بھی شروع ہو چکی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سینئر افسران سیشن کورٹ کو آئینی و قانونی حقائق کے مطابق بیان حلفی ریکارڈ کرا چکے ہیں۔خیال رہے کہ سپیکر قومی اسمبلی نے رواں سال اگست میں متعلقہ وزارتوں کی مشاورت سے عمران خان کے خلاف 163(ون ) کے تحت توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔ قومی اسمبلی کے سپیکر کی طرف سے یہ ریفرنس موصول ہونے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 22 اکتوبر کو فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کو آئین کے آرٹیکل 63(ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا تھا اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 137‘ 167‘ 173 اور174 کے تحت حقائق چھپانے پر خان صاحب کو بدعنوانی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے قانون کے مطابق کیس ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد کو بھجوایا تھا جہاں اب سماعت شروع ہو چکی ہے۔ اب اگریہاں سے بھی فیصلہ عمران خان کے خلاف آتا ہے تو ان کو دو سال کی سزا ہو سکتی ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 232 کے تحت ان کو پانچ سال کے لیے نااہل بھی قرار دے سکتا ہے‘ دوسری طرف خان صاحب اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں اپیل دائر کرنے کا حق بھی محفوظ رکھتے ہیں۔
ایک طرف عمران خان مقدمات کی زد میں آ تے جا رہے ہیں تودوسری طرف اُن کی جماعت کے اندر گروپ بندی بھی نظر آ رہی ہے۔ خان صاحب کی بار بار مؤقف کی تبدیلی اور اپنے بیانیے سے پیچھے ہٹنے کی وجہ سے اُن کے حامی اب مایوس نظر آتے ہیں۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں میں بھی خان صاحب کی مقبولیت میں کمی دیکھی گئی ہے۔ان حالات میں خان صاحب اور تحریک انصاف کیلئے بہترین راستہ یہی ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں واپسی کی راہ اختیار کریں اور اسمبلی میں بیٹھ کر حکومت پر اگلے عام انتخابات کیلئے دباؤ ڈالیں۔وہ قوم کو اپنی ماضی کی کارکردگی کے حوالے سے بھی اعتماد میں لیں۔ عمران خان کو اپنی جارحانہ طرزِ سیاست کی پالیسی کو بھی ترک کرنا چاہیے اور اُن لوگوں کے حصار سے بھی نکل آنا چاہیے جن کے غلط مشوروں کی وجہ سے وہ روز بروز مزید مشکلات کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں