"KDC" (space) message & send to 7575

سیاسی منظر نامے کی ممکنہ تبدیلیاں

سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف کئی مقدمات زیر سماعت ہیں۔گزشتہ روز الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توہین الیکشن کمیشن کیس کی سماعت 3 جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان‘ اسد عمر اور فواد چودھری کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کی ہدایت کی ہے۔دورانِ سماعت پی ٹی آئی کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ خان صاحب ابھی تک سفر کے قابل نہیں ہوئے۔دوسری طرف چند روز قبل لاہور ہائیکورٹ سابق وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ہتکِ عزت کے مقدمے میں دفاع کا حق ختم کرنے کے خلاف دائر درخواست مسترد کر چکی ہے اور اُن کے خلاف ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا ہے۔ ٹرائل کورٹ نے شہباز شریف کی جانب سے دائر 10ارب روپے کے ہتکِ عزت کے مقدمے کی سماعت کے دوران عمران خان کی جانب سے اعتراضات کا بروقت جواب نہ دینے پر اُن کے دفاع یا درخواست کی مخالفت کا حق ختم کر دیا تھا۔ خان صاحب نے لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی ہوئی تھی؛ تاہم عدالت نے ان کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ واضح رہے کہ 2017ء میں شہباز شریف کی طرف سے خان صاحب کے خلاف دائر کردہ ہتکِ عزت کے مقدمے میں الزام لگایا گیا تھا کہ مدعا علیہ (عمران خان) نے مدعی (شہباز شریف) کے خلاف جھوٹے اور بد نیتی پر مبنی بیانات دیے کہ شہباز شریف نے سپریم کورٹ میں زیر التوا پاناما پیپرز کیس واپس لینے کے بدلے ایک مشترکہ دوست کے ذریعے عمران خان کو 10 ارب روپے کی پیشکش کی تھی۔ شہباز شریف نے یہ بھی استدعا کی کہ عمران خان کے بیانات میڈیا کے ذریعے نشر کیے گئے جس سے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔بادی النظر میں ایسا لگتاہے کہ عمران خان کے خلاف ڈگری ہو سکتی ہے لیکن خان صاحب اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں اپیل بھی دائر کرسکتے ہیں۔
سیاسی ماحول ایسا بنا ہوا ہے کہ اس صورت میں خان صاحب کی سیاسی ساکھ ضرور متاثر ہو سکتی ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان میں بھی خان صاحب کے خلاف کیسز زیر سماعت ہیں۔ خان صاحب کے مختلف مقدمات کی زد میں آنے کی ایک وجہ اُن کے وہ مشیر ہیں جو اُنہیں مذاکرات کی راہ اختیار نہیں کرنے دیتے اور جنہوں نے خان صاحب تک جانے والے راستے بند کر رکھے ہیں۔دوسری طرف ایسا نظر آتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حمایت کی وجہ سے وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے بعد چودھری پرویز الٰہی ابھی سے اگلے الیکشن میں اپنی کامیابی یقینی بنانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ شنید ہے کہ اُن کی پوری توجہ اُن حلقوں اور اضلاع پر مرکوز ہے جہاں سے وہ اور اُن کی جماعت اگلا الیکشن لڑنے کی خواہاں ہے۔ مذکورہ حلقوں میں بڑے پیمانے پر ہونے والے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے چودھری پرویز الٰہی سمیت (ق) لیگ کے دیگر اُمیدواروں کی جیت یقینی نظر آتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں اُن حلقوں سے کامیابی کی صورت میں چودھری پرویز الٰہی بڑی آسانی سے ایک مضبوط پارلیمانی گروپ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ چودھری پرویز الٰہی جس طرح پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں‘ ایسا نظر آ رہا ہے کہ وہ مستقبل میں بھی اسی طرح پنجاب اور مرکزی حکومت میں اہم پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے۔
تحریک انصاف کے ساتھ انتخابی میثاق کی صورت میں بھی گجرات ڈویژن کے اضلاع سے (ق) لیگ کے اُمیدوار آسانی سے کامیابی حاصل کر سکتے ہیں لیکن جہاں تک تحریک انصاف کے اپنے امیدواروں کا سوال ہے تو اس حوالے سے کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ خان صاحب آئندہ انتخابات میں اُمیدواروں کا انتخاب کس بنیاد پر کریں گے کیونکہ خان صاحب کے ارد گرد موجود چار افراد ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے کافی فعال ہیں۔ دوسری طرف عثمان بزدار کے دورِ حکومت میں پنجاب میں ترقیاتی کام نہ ہونے اور پنجاب حکومت بنی گالا سے چلائے جانے کے تاثر کے عام ہونے اور بزدار دور میں مبینہ کرپشن کے مختلف سکینڈلز سامنے آنے کے بعد پنجاب میں تحریک انصاف کے اُمیدواروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی بھی بارہا اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ گزشتہ پنجاب حکومت نے ساڑھے تین برسوں میں پنجاب کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ چودھری پرویز الٰہی کی اس مہرِ تصدیق کے بعد تحریک انصاف کے لیے انتخابی مشکلات پیدا ہونے کا امکان ہے۔
گوکہ خان صاحب جولائی میں ہونے والے ضمنی انتخابات کو اپنی بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں لیکن آئندہ انتخابات کے انعقاد تک صورتحال ویسی نہیں رہے گی۔ پنجاب کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کی واضح کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ وہاں سے تحریک انصاف کے خلاف اُس کے منحرف اراکین الیکشن میں حصہ لے رہے تھے‘ جن کے خلاف تب عوام میں غم و غصہ موجود تھا لیکن آئندہ انتخابات تک یہ عوامی غصہ بھی مدہم پڑ چکا ہوگا۔ خان صاحب کو اُس ضمنی انتخاب کے کامیاب انعقاد پر الیکشن کمیشن کو کریڈٹ دینا چاہئے لیکن خان صاحب الیکشن کمیشن سے بدظن نظر آتے تھے۔اُدھر چودھری پرویز الٰہی صوبے میں ترقیاتی کاموں کے لیے نہ صرف اربوں روپے کے بجٹ کا اعلان کر چکے ہیں بلکہ وہ اس بات کو بھی یقینی بنا رہے ہیں کہ آئندہ انتخابات سے قبل یہ بجٹ خرچ بھی کیا جائے۔ ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے چار ماہ کی قلیل مدت میں 196 ارب روپے کے ریکارڈ فنڈز کا استعمال حکومت پنجاب کا اعزاز قرار دیا جا رہا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی نے جنوبی پنجاب میں ترقیاتی کاموں کے لیے بھاری فنڈز مقرر کرکے وہاں سے بھی اپنی کامیابی کی راہ ہموار کرنے کی حکمت عملی تیار کر رکھی ہے۔
ایک طرف پنجاب حکومت ہے جو اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبے شروع کر رہی ہے اور دوسری طرف تحریک انصاف ہے جس کا ماننا ہے کہ ملک دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ عوام اس لیے بھی تذبذب کا شکار ہیں کہ ایک طرف ملک کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف وزیراعلیٰ پنجاب اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز خرچ کرنے میں مصروف ہیں۔چودھری پرویز الٰہی کے آئے روز کسی نہ کسی نئے منصوبے کے اعلان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قبل از وقت اسمبلی کی تحلیل نہیں چاہتے جبکہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کے درپردہ میاں نواز شریف سے مذاکرات جاری ہیں۔عمران خان کو چاہیے کہ مفاد پرست افراد کے جھرمٹ سے باہر نکل کر دیکھیں۔ پارٹی کے وسیع تر مفادات کے پیش نظر پرانے نظریاتی رہنماؤں کو آگے لائیں اور بالخصوص اُس ٹولے سے لاتعلقی کا اعلان کریں جن کی غلط مشاورت اُنہیں یہاں تک پہنچا چکی ہے۔ مقتدر حلقوں کے حوالے سے جارحانہ بیانیہ بھی ترک کر یں۔خان صاحب اسی سے سبق حاصل کر لیں کہ وہ بیشتر افراد جنہیں وہ ماضی میں اپنا مشیر اور کابینہ کا حصہ بناتے رہے ہیں‘ اب منظر سے غائب ہو چکے ہیں۔اس لیے وہ اپنے پرانے نظریاتی ساتھیوں کوہی اب اپنی ترجیحات میں شامل رکھیں اور ایسے ہی افراد کو اگلے انتخابات میں اپنا اُمیدوار مقرر کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں