"KDC" (space) message & send to 7575

چودھری پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کا مستقبل

سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 204 اور الیکشن ایکٹ 2019 کی سیکشن 10 کے تحت توہین الیکشن کمیشن کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مکمل آئینی و قانونی اختیارات تفویض کر کے الیکشن کمیشن کو مکمل خود مختار ادارے کی حیثیت سے تسلیم کر کے الیکشن کمیشن کے زیر سماعت مقدمات‘ جو حکم امتناع کی وجہ سے التو میں تھے‘ کی سماعت کیلئے راہ ہموار کر دی ہے۔ توہین الیکشن کمیشن کے حوالے سے مختلف ہائی کورٹس نے حکم امتناعی جاری کر رکھے تھے‘ ان کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ اب الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو اسد عمر اور فواد چودھری کے ہمراہ 17 جنوری کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دے دیا ہے‘ اگر مذکورہ تینوں یا ان میں سے کوئی پیش نہیں ہوتا توعدم تعمیل کی صورت میں وارنٹ گرفتاری جاری کیے جا سکتے ہیں۔الیکشن کمیشن نے نااہل ہونے کے باوجود پارٹی کی چیئرمین شپ برقرار رہنے پر بھی عمران خان کو طلبی کا نوٹس جاری کردیا ہے۔ یہ نوٹس ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر اسلام آباد کے ذریعے عمران خان کے بنی گالا کے پتے پر بھیجا گیا ہے۔نوٹس میں عمران خان کو 11 جنوری کو دن 10 بجے طلب کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ عمران خان ذاتی حیثیت میں یا بذریعہ وکیل پیش ہوں۔الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ نااہلی کے باوجود عمران خان پی ٹی آئی کے چیئرمین ہیں‘ الیکشن کمیشن کے روبرو پیش ہو کر وضاحت کریں‘ اثاثوں کے بارے میں غلط بیانی کرنے پر عمران خان نااہل کیے گئے تو وہ پارٹی کی چیئرمین شپ پر کیسے برقرار رہ سکتے ہیں۔نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ نااہل شخص پارٹی کا سربراہ نہیں رہ سکتا اس لیے عمران خان پیش ہوکر وضاحت دیں۔
اس صورتحال کے پیش نظر پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ عمران خان نے جلسوں‘ لانگ مارچ‘ پریس کانفرنسوں اورخصوصی انٹرویوز میں چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ممبرز کی تضحیک و تذلیل کی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے مذکورہ فیصلے کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کی توہین کرنے کے الزام میں الیکشن کمیشن تین سال قید کی سزا دینے کا اہل ہے۔ الیکشن کمیشن نے اسی سلسلے میں عمران خان‘ اسد عمر او رفواد چودھری کو 17جنوری کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے اوران کی غیر حاضری کی صورت میں بھی الیکشن کمیشن فردِ جرم عائد کرسکتا ہے۔ عمران خان کے وکلا عمران ان کے زخموں کا جواز پیش کرکے ان کو حاضری سے استثنیٰ حاصل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں لیکن ممکن ہے الیکشن کمیشن ان کی استدعا کو اس بنیاد پر بھی مسترد کر دے کہ 26 نومبر کو مری روڈ راولپنڈی کے لانگ مارچ کے اختتامی جلسے میں شرکت کیلئے وہ آ سکتے ہیں تو گولیاں لگنے سے زخمی ہونے کے کم و بیش تین ماہ بعد الیکشن کمیشن میں حاضر ہونے سے کیوں قاصر ہیں؟
دوسری جانب پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کو پارلیمانی طور پر احساس ہو گیا ہے کہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ان کیلئے مشکل ترین مرحلہ ہو گا کیونکہ تحریک انصاف کے صوبائی ارکانِ اسمبلی کو اپنے وزیراعلیٰ کے سیاسی گیم کے حوالے سے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ عمران خان کی پالیسی کے برعکس اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اسی طرح جنوبی پنجاب کے کم و بیش 15کے لگ بھگ ارکانِ صوبائی اسمبلی ان سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں‘ ایسی صورت میں چودھری پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ لینے کے بارے میں ذومعنی بیانات دینا شروع کر دیے ہیں کہ وہ گورنر کے حکم کو غیر آئینی تصور کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے تحریک انصاف کے رہنماؤں کے بارے میں بھی اظہار خیال کرتے ہوئے ان کے غیر ذمہ دارانہ رویے پر تنقید کی ہے۔ایسی صورتحال سے عمران خان دو راہے پر کھڑے ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اب اگر پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ حاصل نہیں کرتے تو وہ اپنے منصب سے محروم ہوجائیں گے کیونکہ گورنر پنجاب نے آئین کے آرٹیکل (7) 130کے تحت اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا نوٹس دیا ہواہے اور جب انہوں نے 21 دسمبر کو اعتماد کا ووٹ حاصل نہیں کیا تو گورنر پنجاب نے ان کو وزارت اعلیٰ سے سبکدوش کرنے کیلئے نوٹیفکیشن جاری کر دیا تھا جس پر لاہور ہائی کورٹ نے 11جنوری تک گورنر کے نوٹیفکیشن کو معطل کر دیا تھا۔ اب دونوں صورتوں میں چودھری پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہوگا اور بادی النظر میں یوں نظر آ رہا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ اپنے فیصلے میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے تاریخ مقرر کر سکتی ہے یا گورنر کے نوٹیفکیشن کو بحال بھی کر سکتی ہے۔ بہرحال چودھری پرویز الٰہی آئین کے تحت گورنر پنجاب کے نوٹس کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ تحریک انصاف کے اندرونی حلقے پرویز الٰہی کی ڈبل گیم سے بھی نالاں نظر آ رہے ہیں۔ اب اگر وزیراعلیٰ کی حیثیت سے پرویز الٰہی سبکدوش ہو جاتے ہیں تو پھر گورنر پنجاب نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کیلئے صوبائی اسمبلی کا اجلاس از خود بھی طلب کر سکتے ہیں۔واضح رہے آئین کے آرٹیکل 109 کے تحت گورنر اسمبلی کا اجلاس طلب کر سکتے ہیں اور برخاست بھی کر سکتے ہیں۔
تحریک انصاف کے بعض اہم رہنماؤں نے عمران خان کو چودھری پرویز الٰہی کے بارے میں بریف کیا ہوا ہے کہ عمران خان کے حملہ کیس پر جو جے آئی ٹی کام کر رہی ہے وزیراعلیٰ نے اس سے فاصلہ رکھا ہوا ہے اور جے آئی ٹی کو براہ راست زمان پارک سے ہی ہدایات موصول ہو رہی ہے اور اس وقت زمان پارک وزیراعلیٰ پلس کی حیثیت رکھتا ہے اور صوبہ پنجاب میں اعلیٰ بیورو کریسی زمان پارک سے ہدایات حاصل کررہی ہے۔ جس سے وزیراعلیٰ کی پنجاب میں حاکمیت خطرے میں پڑی ہوئی ہے اور وہ محسوس کر رہے ہیں کہ عمران خان نے ان کی حیثیت اور رِٹ آف پنجاب گورنمنٹ میں مداخلت کر کے ان کو برائے نام وزیراعلیٰ کی حیثیت دے رکھی ہے۔ چودھری پرویز الٰہی محسوس کر رہے ہیں کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات عمران خان کی توقعات کے مطابق نہ آنے کی صورت میں تحریک انصاف کے الزامات سے لاتعلق رہیں اور عمران خان کے دست راست اہم رہنماؤں کو احساس ہو چکا ہے کہ جے آئی ٹی کی تشکیل تک اور جے آئی ٹی کی معاونت کرنے والوں تک چودھری پرویز الٰہی نے کسی بھی معاملے میں مداخلت نہیں کی اور چودھری پرویز الٰہی کویہ بھی گلہ ہے کہ عمران خان نے سابق آرمی چیف کے بارے تضحیک آمیز روّیہ روا رکھا ہوا ہے اور انہوں نے اپنے اوپر قاتلانہ حملے کے حوالے سے بھی اہم قومی ادارے پر غیر ضروری تنقید کی ہے‘ حالانکہ چودھری پرویز الٰہی نے عمران خان کی پسند کے مطابق جے آئی ٹی کے ارکان لگانے کی مکمل آزادی دی تھی۔ چودھری پرویز الٰہی عمران خان سے شاکی نظر آ رہے ہیں کہ وہ اب بھی عسکری قیادت کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ بیانات دے رہے ہیں اور کچھ اہم سرکاری عہدیداروں کو حملے کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں جس سے پارٹی کو ناقابل حد تک نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ ایسی صورتحال میں تحریک انصاف کا ایک گروپ چودھری پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ دینے سے غیر حاضر ہونے کو ترجیح دے رہا ہے جس سے ان پر آئین کے آرٹیکل 63 (1) بھی لاگو نہیں ہوگا۔اب تو تحریک انصاف نے پنجاب اسمبلی میں نئی حکمت عملی بنا لی ہے اور عمران خان نے پارٹی اراکین کو ہدایت کی ہے کہ اگر پنجاب اسمبلی کی تحلیل میں رکاوٹ ڈالی گئی تو پی ٹی آئی اراکین مستعفی ہو جائیں گے۔یوں ہر لحاظ سے چودھری پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کا مستقبل خطرے کی زد میں نظر آتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں