"KDC" (space) message & send to 7575

اسمبلیوں کی تحلیل اور بلدیاتی انتخابات

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان حکومت پر قبل از وقت انتخابات کے لیے دباؤ ڈالنے کی خاطر پنجاب میں اپنی آخری چال چکے ہیں۔اُنہوں نے 26 نومبر کو راولپنڈی میں اپنے خطاب کے دوران اسمبلیوں کی تحلیل کا جو عندیہ دیا تھا وہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل سے اُس کا آغاز کر چکے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے عمران خان کی مشاورت سے 11 جنوری کو رات گئے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد اُسی روزاسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کرکے مذکورہ سمری گورنر پنجاب کو بھجوا دی تھی جس پر گورنر پنجاب بلیغ الرحمن کا مؤقف تھا کہ اسمبلی عوام کا منتخب ادارہ ہے جس کو وقت سے پہلے تحلیل کرنا جمہوریت پسند انسان کے لیے مشکل ہے۔ شاید اسی لیے سمری موصول ہونے کے بعد گورنر پنجاب نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری بیان میں کہا تھا کہ ''میں نے فیصلہ کیا ہے کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل سے متعلق عمل کا حصہ نہ بنوں‘‘۔گورنر پنجاب کی طرف سے اسمبلی کی تحلیل کے عمل کا حصہ نہ بننے اور اسمبلی کی تحلیل پر دستخط نہ کرنے کے باعث پنجاب کی صوبائی اسمبلی سمری پر دستخط کے 48 گھنٹے مکمل ہونے پر آئین کے آرٹیکل 112 کے تحت از خود تحلیل ہو گئی۔ آئین کے آرٹیکل 112 کے تحت وزیراعلیٰ کی جانب سے اسمبلی کی تحلیل کے لیے سمری اگر گورنر کو بھیج دی جائے اور 48 گھنٹے تک گورنر سمری پر دستخط نہ کرے تو اسمبلی خود بخود تحلیل ہوجاتی ہے۔اسمبلی کی تحلیل کے بعد پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کے لیے گورنر پنجاب نے وزیراعلیٰ پرویزالٰہی کے تجویز کردہ تین نام اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کو بھجوا دیے ہیں۔تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) نے پنجاب میں نگران وزیر اعلیٰ کے لیے احمد نواز سکھیرا‘ نصیر احمد خان اور ناصر سعید کھوسہ کے نام تجویزکیے ۔ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کی طرف سے تجویز کردہ تین ناموں میں سے ناصر محمود کھوسہ یہ عہدہ قبول کرنے سے معذرت کر چکے ہیں جبکہ احمد نواز سکھیرا ابھی ریٹائر نہیں ہوئے‘ ان کی ریٹائرمنٹ رواں ماہ کی آخری تاریخ کو ہو گی جبکہ نصیر احمد خان کے نام پر اتفاقِ رائے کا امکان اس لیے نظر نہیں آرہا کیونکہ اُن کا نام تجویز ہونے کے بعد مبینہ طور پر ان کے خلاف سوشل میڈیا مہم شروع ہو چکی ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) نے ایک مشاورتی اجلاس اور اتحادی جماعتوں سے مشاورت کے بعد ملک احمد خان کے توسط سے گورنر پنجاب کو حمزہ شہباز کی جانب سے ایک خط بھجوایا ہے جس میں نگران وزیراعلیٰ کیلئے احد خان چیمہ اور سید محسن رضا نقوی کے نام تجویز کیے گئے ہیں۔ اپنے خط میں حمزہ شہباز نے ملک احمد خان کو نامزد کیا ہے‘ جو نگران حکومت کی تعیناتی کے لیے رابطہ رکھیں گے۔
اگر چودھری پرویز الٰہی کی طرف سے گورنر پنجاب کو بھیجی جانے والی سمری کو دیکھا جائے تو اسے اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کیا جا سکتا تھا اور گورنر پنجاب کو یہ بھی اختیار حاصل تھا کہ وہ چودھری پرویز الٰہی کی طرف سے بھیجی جانے والی سمری پر اپنے ریمارکس درج کرکے اُسے واپس بھیج سکتے لیکن گورنر پنجاب نے اپنی اعلیٰ قیادت کے حکم کے تحت ایسی کوئی کارروائی کرنے سے گریز کیا۔ وفاقی حکومت کی خواہش اب یہی ہے کہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نگران سیٹ اَپ تشکیل دیا جائے اور عمران خان کو جو حکومتی پروٹوکول مل رہا ہے وہ اس سے محروم ہو جائیں اور ان کے خلاف جو مقدمات زیر التوا یا زیر سماعت ہیں‘ان کو آگے بڑھنے دیا جائے۔ ان میں سے کچھ مقدمات میں عمران خان نے قبل از گرفتاری ضمانت حاصل کی ہوئی ہے‘ جب وہ انتظامی اختیارات سے محروم ہو جائیں گے تو اُن کے گرد قانونی گھیرا اور تنگ ہونے کے امکانات مزید ربڑھ جائیں گے۔ وہ اپنے خلاف چلنے والے کچھ اہم کیسوں میں نا اہل بھی قرار دیے جا سکتے ہیں‘ وہ پارٹی کی چیئرمین شپ سے بھی محروم ہو سکتے ہیں‘ توشہ خانہ کے کیس میں ان کوسزا بھی ہو سکتی ہے‘ سیتا وائٹ کیس میں بھی اُن کے نااہل ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
پنجاب اسمبلی تو پہلے ہی تحلیل ہو چکی ہے اب وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا بھی اسمبلی تحلیل کی ایڈوائس گورنر کو بھیج چکے ہیں‘ کے پی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان دونوں صوبوں میں آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت 90روز میں نئے انتخابات کرانے کا پابند ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ابھی مگر مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کی روشنی میں دونوں صوبوں میں نئی مردم شماری کے حتمی نتائج کو مد نظر رکھتے ہوئے نئی حلقہ بندیاں بھی کرنی ہیں جبکہ محکمہ شماریات نے 30اپریل تک مردم شماری کا حتمی گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کرنے کا عندیہ دے رکھاہے‘ اس ساری صورتحال کے باوجود دونوں صوبوں میں عام انتخابات کو نئی حلقہ بندیوں تک مؤخر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ آئین کی کھلی خلاف ورزی ہوگی‘ لہٰذا اس صورتحال کے تناظر میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نئی حلقہ بندیوں کے لیے نئی مردم شماری کے حتمی نتائج کا انتظار نہیں کرسکتا اور اسے ہر صورت میں 90روز میں انتخابی عمل مکمل کرنا ہو گا جس میں 50 روز کا الیکشن شیڈول بھی شامل ہوتا ہے۔ اس ساری صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کے پاس دونوں صوبوں میں پرانی حلقہ بندیوں پر الیکشن کروانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔
اس حوالے سے آئینی و قانونی پہلو یہ ہے کہ اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کو نظرانداز کر کے پرانی حلقہ بندیوں پر ہی دونوں صوبوں میں انتخابات کا شیڈول جاری کر دیتا ہے تو پھر الیکشن مخالف سیاسی قوتیں اس معاملے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کر سکتی ہیں۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ہی آگے بڑھنا ہوگا۔ نئے انتخابات کے لیے آئینی مدت 11اپریل کو ختم ہو جائے گی اور وفاقی حکومت 12اپریل کو پنجاب میں انتخابات کا عندیہ بھی دے چکی ہے‘ اس کے باوجود الیکشن کے بارے میں یہ ابہام بھی پیدا کیا جا رہا ہے کہ چونکہ 22/23مارچ سے رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہو رہا ہے‘ اس لیے رمضان المبارک کے دوران الیکشن نہیں کروایا جا سکے گا مگر ایسی کوئی آئینی یا قانونی سہولت موجود نہیں ہے۔ماضی میں 3 فروری 1997ء کو رمضان المبارک میں عام انتخابات کا انعقاد ہو چکا ہے۔جب صدرِ مملکت سردار فاروق لغاری نے الیکشن کی یہ تاریخ مقرر کی تھی تو ان کے فیصلے کو بھی اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کیا گیا تھا مگر یہ درخواست مسترد ہو گئی تھی‘ لہٰذا ان دونوں صوبوں میں 90روز میں ہی انتخابات کا انعقاد ہونا ہے۔
اب بات کرتے ہیں کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی۔الیکشن کمیشن کے جاری کردہ کراچی کی 235یونین کونسلز کے غیر حتمی نتائج کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی 93 نشستوں کے ساتھ پہلے اور جماعت اسلامی 86 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی جبکہ تحریک انصاف 40نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔ پی ٹی آئی کی طرف سے میئر کے لیے نامزد کردہ امیدوار یوسی الیکشن میں بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکا جبکہ کراچی کی سب سے بڑی جماعت سمجھی جانے والی ایم کیو ایم نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ نتائج جاری کیے جانے کے بعد جماعت اسلامی نے ملک گیر احتجاج کا اعلان کر دیا ہے ۔امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن انتخابی نتائج میں تاخیر پر دھاندلی کا الزام عائد کرچکے ہیں۔اُدھر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی زیدی بھی اپنی جماعت کی جانب سے ان بلدیاتی انتخابات کو مسترد کر چکے ہیں۔ بدقسمتی سے ملک میں منعقد ہونے والے کوئی بھی انتخابات دھاندلی کے الزامات سے پاک نہیں ہیں لیکن الیکشن کمیشن نے جن حالات میں ان انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا ہے اُس پر وہ تحسین کا مستحق ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں