"KDC" (space) message & send to 7575

صوبائی انتخابات کے آئینی پہلو

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات کی تاریخ اور شیڈول کے اجرا کیلئے معاملہ از خود نوٹس کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان کو بھجوا دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے قرار دیا ہے کہ اگر چیف جسٹس اس معاملہ میں مناسب سمجھیں تواز خود نوٹس لینے کے بعد کیس کی سماعت کیلئے بنچ مقرر فرمائیں۔سپریم کورٹ کی جانب سے قرار دیا گیا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے الیکشن میں اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور آئین کی واضح ڈائریکشن کی خلاف ورزی کا حقیقی اور ممکنہ خطرہ موجود ہے‘ اس لئے سوموٹو لینے کیلئے یہ معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ ریمارکس لاہور کے پولیس آفیسر غلام محمود ڈوگر کے تبادلہ کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران دیے ۔ دوران سماعت چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ان کو اپنے اختیارات اور آئینی تقاضے پر عمل کرنے سے روکا گیا ہے۔ عدالت حکم دے تو تبادلے روک دیں گے‘ لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان کا صوبے میں عام انتخابات کی تاریخ دینا آئین کے آرٹیکل 105 کی خلاف ورزی ہوگی‘ گورنر یا صدرِ مملکت ہی تاریخ کا اعلان کر سکتے ہیں‘ آئین یا قانون کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان کو یہ مینڈیٹ حاصل نہیں کہ وہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے۔
میری رائے میں آئین کے آرٹیکل 105 کی رُو سے الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 57 کے تحت قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد صدر مملکت اور الیکشن کمیشن ہی تاریخ دینے کے مجاز ہیں اور غیر معمولی صورت حال میں اگر کسی صوبے کی اسمبلی تحلیل ہوتی ہے تو گورنر تاریخ دینے کے اختیارات رکھتے ہیں ۔ آئین کے آرٹیکل 105 کے تحت الیکشن کمیشن تاریخ دینے کے اختیارات سے محروم ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے تحت آرٹیکل 105 میں الیکشن کمیشن کی مشاورت کو نظر انداز کردیا گیا تھا‘ اب سپریم کورٹ آف پاکستان ہی اس کی تشریح کر کے حالات کے مطابق فیصلہ سنانے کی مجاز ہے اور الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کا پابند ہے۔ممکن ہے سپریم کورٹ صدر مملکت کو مشورہ دے کہ وہ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 57 کے تحت الیکشن کمیشن کی مشاورت سے دونوں اسمبلیوں کے جنرل انتخابات کی تاریخ دے کر الیکشن بحران سے باہر نکل آئیں۔الیکشن ایکٹ کی شقوں کے تحت گورنر اور صدر مملکت کو الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار حاصل ہے اور آئین کے آرٹیکل 48 کے تحت صدر مملکت قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد تاریخ دینے کے مجاز ہیں اور صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے گورنر کے اختیارات کا معاملہ آرٹیکل 105 میں درج ہے اور اسی آئین کے تحت صدر اور گورنر ریاست کے وسیع تر مفادات کے تحت دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کرتے ہیں جن میں لاء اینڈ آرڈر کی ایجنسیاں‘ وزارت خزانہ اور وزارت دفاع‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور دیگر حساس نوعیت کے ادارے بھی شامل ہیں تاکہ متفقہ طور پر جامع پلان تیار ہو سکے اور الیکشن کے دوران تمام ادارے ایک ہی صفحہ پر ہوں۔ اسی طرح آئین کا آرٹیکل 48 آرٹیکل 224 اور 224 اے کی تفصیل کے متعلق ہے جن میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان اور نگران کابینہ کا قیام شامل ہے۔
دونوں صوبوں میں جنرل الیکشن کرانے کیلئے نگران حکومتوں نے الیکشن کمیشن کو باضابطہ آگاہ کر دیا ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال کے تناظر میں مطلوبہ فنڈز فراہم نہیں کئے جا سکتے اس لئے معاشی استحکام تک الیکشن ملتوی کرنے کا عندیہ دیا گیا۔ اسی دوران الیکشن کمیشن نے یکم فروری کو لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار کی وساطت سے چیف جسٹس کو ایک خط لکھا تھا جس میں ماتحت جوڈیشل افسران کو ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر لگانے کیلئے استدعا کی گئی تھی‘ اس کے جواب میں رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے دی جانے والی ہدایت سے آگاہ کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز اور ریٹرننگ آفیسرز کیلئے عدلیہ کی خدمات کی فراہمی سے معذرت ظاہر کی تھی۔ الیکشن کمیشن نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے احترام میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر جنرل الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے کیلئے گورنر پنجاب سے بھی مشاورت کی تاہم گورنر کا موقف تھا کہ صوبائی اسمبلی انہوں نے تحلیل نہیں کی‘ لہٰذا تاریخ کا اعلان وہ کرنے کے مجاز نہیں اور انہوں نے بھی لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کی تشریح کیلئے اپیل دائر کر دی ۔ میری بھی گورنر پنجاب سے ملاقات ہوئی تھی‘ ان کا مؤقف یہی تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے باوجود آئین کے آرٹیکل 48 اور الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 57 میں ایسی کوئی شق نہیں کہ موجودہ حالات کے تناظر میں الیکشن کمیشن اور گورنر آفس کے درمیان الیکشن کی تاریخ کے اعلان کیلئے مشاورت ہونی چاہئے۔ ان حالات اور آئین و قانون کے تناظر میں دیکھا جائے تو لاہور ہائی کورٹ کے معزز جج جواد حسن کا مذکورہ فیصلہ تشریح کا متقاضی ہے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ آف پاکستان کے از خود نوٹس کے فیصلہ کا انتظار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے آئینی و قانونی مشاورت کیلئے وزارت قانون سے مشاورت کی ہے تاکہ سپریم کورٹ میں جامع جواب جمع کرایا جا سکے۔
اب کچھ ذکر سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ صاحب کے بیانات کا۔ سابق سپہ سالار کو جنرل اشفاق پرویز کیانی‘ جنرل راحیل شریف‘ جنرل جہانگیر کرامت اور صدر ایوب خان کی پالیسی کے تحت ریٹائرمنٹ کے بعد میڈیا سے ملنے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ باجوہ صاحب نے جو انٹرویو دیے ان کے سیاق و سباق کو دیکھتے ہوئے عمران خان نے ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ صدر مملکت ایسی تحقیقات کرانے کے مجاز نہیں ہیں کیونکہ آئین کے آرٹیکل میں ایسی کوئی شق نہیں ہے۔صدر مملکت اس خط کو وزارت دفاع میں برائے اطلاع بھجوانے کا حق رکھتے ہیں۔قمر جاوید باجوہ صاحب کی رہنمائی کیلئے ایک تاریخی حوالہ اس لئے دے رہا ہوں تاکہ ہمارے سابق سپہ سالار کو اپنے پیشروؤں کی روایت کا علم ہو سکے۔میری طالب علمی کے ایام میں صدر مملکت ایوب خان سے شناسائی تھی‘ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی میرا ان سے تعلق رہا اور گورنمنٹ سروس میں آنے کے بعد بھی گاہے گاہے ان سے ملاقات کا سلسلہ جاری رہا۔ اسی دوران ملک کے ممتاز صحافی ضیا شاہد جو میرے گہرے دوست تھے‘ نے مجھ سے کئی بار فرمائش کی کہ ان کی ملاقات صدر مملکت ایوب خان سے کرا دی جائے ۔وہ الطاف گوہر‘ ایس ایم ظفر اور ملک قاسم کے ذریعے بھی کوشش کرتے رہے لیکن سابق صدر ایوب خان نے ضیا شاہد سے ملنے سے گریز کیا۔ضیا شاہد کی فرمائش جب میں نے ایوب خان تک پہنچائی تو شروع میں انہوں نے ملنے سے انکار کیا لیکن میرے اصرار پر وہ مان گئے مگر کہا کہ ملاقات آف دی ریکارڈ ہو گی۔ضیا شاہد نے غالباً دسمبر 1970ء میں ان سے ملاقات کی تھی جو ساڑھے تین گھنٹے پر محیط رہی۔ ضیا شاہد اپنے عہد پر قائم رہے اور 35سال بعد اس تاریخی انٹرویو کو اپنی سرگزشت میں شائع کیا اور اس میں میرا حوالہ دیا گیا۔ جنرل باجوہ سے ملنے والے صحافیوں کو آف دی ریکارڈ گفتگو کو اپنے کالموں کی زینت نہیں بنانا چاہیے تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں