"KDC" (space) message & send to 7575

ایک ہی دن قومی انتخابات

صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 30اپریل کو پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات منعقد کروانے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے مذکورہ تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کی جانب سے تجویز کردہ تاریخوں پر مشاورت کے بعد کیا۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں صدرِ مملکت کو خط ارسال کیا تھا جس میں پنجاب کے انتخابات کے لیے 30اپریل سے 7مئی 2023ء تک کی تاریخیں تجویز کی گئی تھیں۔ انتخابات کی حتمی تاریخ کے اعلان کے بعد الیکشن کمیشن نے پنجاب کے لیے انتخابی شیڈول کی تیاریاں شروع کر دی ہیں جو رواں ہفتے جاری کیے جانے امکان ہے۔اطلاعات کے مطابق الیکشن کمیشن وزارتِ خزانہ کو آئندہ ہفتے انتخابی اخراجات کی مد میں 25 ارب روپے جاری کرنے کی درخواست بھی کرے گا جبکہ سکیورٹی فورسز کی تعیناتی کیلئے وزراتِ داخلہ کو بھی خط لکھنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ دوسری جانب خیبر پختو نخوا میں انتخابات کی تاریخ سے متعلق الیکشن کمیشن کا خط جمعہ کے روز گورنر ہاؤس کو بھی موصول ہو چکا ہے اور گورنر خیبر پختو نخوا خط موصول ہونے کی تصدیق بھی کر چکے ہیں لیکن تاحال الیکشن کمیشن سے انتخابات کی تاریخ سے متعلق ان کی بات نہیں ہو سکی۔ گورنر خیبر پختو نخوا کا صوبے میں الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے کہنا تھا کہ انتخابات کے انتظامات کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے‘ مجوزہ تاریخ بھی وہی دیں گے اور الیکشن کمیشن جب کہے گا ہم الیکشن کروا دیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ میری تو خواہش یہی تھی کہ صدرِ مملکت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی ایک ہی متفقہ تاریخ دے دیتے‘ جبکہ اس سے پہلے وہ صوبے میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے الیکشن کے انعقاد کو محال قرار دیتے رہے ہیں۔
صدرِ مملکت کی جانب سے پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کے بعد سیاسی جماعتوں نے الیکشن کی تیاریاں تیز کر دی ہیں۔رواں ہفتے الیکشن شیڈول جاری ہونے کے بعد امیدواروں کی طرف سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے کا سلسلہ بھی شروع ہو جائے گا۔سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف بھی انتخابی دنگل کیلئے صف آرا ہو گئی ہے ‘ پارٹی چیئرمین عمران خان نے تو لاہور سے پارٹی امیدواروں کے نام بھی فائنل کر لیے ہیں۔پیپلز پارٹی نے بھی پنجاب میں عام انتخابات کے لیے ٹکٹوں کے اجرا کے لیے اپنے ممکنہ امیدواروں سے درخواستیں طلب کرلی ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) اس حوالے سے تاحال تذبذب کا شکار نظر آتی ہے کہ انتخابات کے میدان میں اتریں یا سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کریں۔ گوجرانوالہ میں پارٹی اجلاس کے دوران بھی مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز شریف نے الیکشن کی تیاریوں کے حوالے سے پارٹی کارکنان کو کوئی ہدایات جاری نہیں کیں۔بہر حال صوبے میں انتخابی تیاریاں شروع ہونے سے سیاسی گہما گہمی میں مزید اضافہ ہوگا۔
بادی النظر میں وطنِ عزیز کی سیاست اس وقت شدید خلفشار کا شکار نظر آتی ہے۔ ملک پر معاشی دیوالیہ پن کے خطرات بھی منڈلا رہے ہیں اور آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط سے بھی حکومت شدید دباؤ میں ہے‘ جس کا آئندہ ہونے والے انتخابات پر گہرا اثر پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عام انتخابات کے تمام تر آئینی اور قانونی تقاضوں کے برعکس‘ وفاقی حکومت نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ وفاق اور صوبوں میں الگ الگ انتخابات کرانے سے قومی خزانے پر کم از کم 15ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا جبکہ ملک کی معاشی صورتحال پہلے ہی خستہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت منعقدہ پی ڈی ایم کے اجلاس میں بھی حکومتی وزرا و مشیران نے اتفاق کیا کہ پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرائے جائیں۔ اطلاعات کے مطابق بعض وزرا نے اس رائے کا اظہار بھی کیا کہ اعلیٰ عدلیہ کے حالیہ فیصلے کے خلاف اپیل بھی دائر کی جائے کیونکہ ماضی میں انتخابات میں تاخیر کی مثالیں موجود ہیں۔دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی اگلے روز میڈیا بریفنگ میں یہ کہہ چکے ہیں کہ پورے ملک میں ایک ساتھ عام انتخابات ہو جائیں تو پیسے کی بچت ہوگی۔ اس موقع پر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ'' میری مقتدرہ سے کوئی لڑائی نہیں‘ ملک کے وسیع تر مفاد میں اعلیٰ قیادت سے بات کرنے کو بھی تیار ہوں‘ لیکن اگر کوئی میرے سے بات کرنے کو تیار نہیں تو میں کیا کروں‘‘۔ اب اگر حکومت اور اپوزیشن (تحریک انصاف) ملک بھر میں ایک ساتھ الیکشن کی خواہاں ہیں تو اس کام میں کون سا امر مانع ہے؟ بہتر ہے کہ تمام سیاسی قیادت اس پہلو پر غور کرے۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات کے حوالے سے ایک اہم قانونی نکتہ یہ بھی ہے کہ اگر ان دونوں صوبوں می مئی کے پہلے ہفتے تک انتخابات کروانا لازمی ٹھہرتا ہے تو کیا یہاں 2017ء کی عبوری مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر الیکشن ہو سکتے ہیں؟ جبکہ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے مطابق اگلے عام انتخابات نئی مردم شماری کے بعد ہونے والی نئی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر ہی کروائے جائیں گے۔ گوکہ ملک میں ڈیجیٹل مردم شماری کا آغاز ہو چکا ہے لیکن اس کے حتمی نتائج 30اپریل تک متوقع ہیں اور مردم شماری کے حتمی نتائج کے بعد نئی حلقہ بندیوں کا سلسلہ شروع ہوگا اور حتمی حلقہ بندیوں کے لیے کم از کم دو ماہ مزید درکار ہوں گے۔ اب اگر ان دونوں صوبوں میں پرانی حلقہ بندیوں پر الیکشن کروائے جاتے ہیں تو کیا سندھ‘ بلوچستان اور قومی اسمبلی میں عام انتخابات نئی مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر کرائے جائیں گے؟ یہ اہم سوال بھی موجود ہے کہ اگر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں مئی کے اوائل میں انتخابات ہو جاتے ہیں اور وہاں نئی صوبائی حکومتیں بھی تشکیل پا جاتی ہیں جبکہ قومی اسمبلی اگست میں تحلیل ہو گی اور جب ان دونوں صوبوں میں قومی اسمبلی کے انتخابات منعقد کیے جائیں گے تو ممکنہ طور پر صوبائی حکومتیں ان انتخابات پر اثر انداز ہو سکتی ہیں‘ جس کا نقصان یہ ہوگا کہ ہارنے والی جماعت ان انتخابات کو تسلیم نہیں کرے گی اور سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکل کھڑی ہو گی جس سے سیاسی عدم استحکام کا نیا سلسلہ بھی شروع ہونے کا اندیشہ ہے جبکہ آئین میں ایسی کوئی گنجائش موجود نہیں کہ قومی اسمبلی کے انتخابات کے دوران ان دونوں صوبائی حکومتوں کو معطل یا غیر فعال کر دیا جائے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ وفاقی حکومت اس تجویز پر بھی غور کر رہی ہے کہ مئی میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نئی صوبائی حکومتوں کی تشکیل کے بعد سندھ اور بلوچستان اسمبلی کے انتخابات نیز قومی انتخابات بھی آئین کے آرٹیکل 232کے تحت ایک سال کے لیے مؤخر کر دیے جائیں جس سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں وفاقی حکومت کی مرہونِ منت رہیں گی کیونکہ اس طرح وفاقی حکومت ان صوبوں کے تمام ترقیاتی فنڈز بھی منجمد کر سکتی ہے۔
بہرحال اس حقیقت سے تو انکار ممکن نہیں کہ انتخابات تو کروانا ہی پڑیں گے‘ چاہے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پہلے کروا دیے جائیں یا ملک بھر میں ایک ساتھ کروائے جائیں۔ اب تو سپریم کورٹ کا صائب فیصلہ بھی آ چکا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ موجودہ معاشی صورتحال کے پیش نظر اور تمام سیاسی جماعتوں کے ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کروانے کی خواہش کو سامنے رکھتے ہوئے ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کی راہ ہموار کی جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں