"KDC" (space) message & send to 7575

صوبائی انتخابات‘ متفقہ لائحہ عمل کی ضرورت

پنجاب اسمبلی کے 30اپریل کو ہونے والے عام انتخابات‘ جو آئین کے آرٹیکل 224کے مطابق پانچ سال کے لیے ہوں گے‘ کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کا وقت 16مارچ کو ختم ہو چکا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے 297 حلقوں پر 8 ہزار 422 امیدواروں نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کاغذاتِ نامزدگی کی فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق مخصوص نشستوں پر 793امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ خواتین کی مخصوص نشستوں پر 623جبکہ اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر 170کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے ہیں۔ سب سے زیادہ لاہور‘ راولپنڈی اور فیصل آباد کے حلقوں سے امیدواروں نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ لاہور کے 30 حلقوں پر 1175‘ فیصل آباد کے 21 حلقوں پر 757 جبکہ راولپنڈی کے 15حلقوں پر 499 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ آزاد امیدوار کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے والوں میں تعداد میں سب سے آگے ہیں جس کے بعد بالترتیب تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (ن)‘ پیپلز پارٹی‘ جماعت اسلامی‘ تحریک لبیک پاکستان اور پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار تعداد میں زیادہ ہیں۔ آزاد امیدواروں نے کامیابی کے بعد صوبائی اسمبلی پنجاب کے اندر جو کھیل کھیلنا ہے‘ وہ سب کے لیے حیران کن ہوگا کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے معاشی اور سیاسی مشکلات کی شکار اتحادی حکومت کے سامنے ایک اور چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے پاس اس وقت اتحادی حکومت سے علیحدگی کا کوئی راستہ نہیں ہے البتہ روز افزوں مہنگائی کی وجہ سے ہونے والی سبکی کے پیش نظر یہ جماعت اب حکومت سے فاصلہ اختیار کرنا چاہتی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو احساس ہو چکا ہے کہ اتحادی حکومت اب مزید غیر مقبول ہوتی جا رہی ہے اور اسی بنا پر پیپلز پارٹی اتحادی حکومت سے فاصلہ اختیار کر رہی ہے لیکن ابھی ایسے حالات نہیں ہیں کہ پیپلز پارٹی حکومت سے علیحدگی کا سوچ رہی ہو۔ بلاول بھٹو زرداری کی حکومت سے علیحدگی کے اشارے کی بنیاد سیاسی نہیں بلکہ عوامی ہے۔ وہ روز افزوں مہنگائی سے پستے عوام کی بے چینی کو ضرور محسوس کر رہے ہیں لیکن یہ تاثر کہ وہ حکومت سے علیحدہ ہو رہے ہیں‘ درست نہیں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی نظریں فی الحال عدالتوں پر لگی ہوئی ہیں جہاں عمران خان کے خلاف متعدد مقدمات زیر سماعت ہیں۔
دوسری جانب عمران خان اپنے جارحانہ طرزِ سیاست کی وجہ سے اس وقت عوام میں کافی مقبول ہیں۔ اپنی روز افزوں عوامی مقبولیت ہی کی وجہ سے وہ انتخابات کے بروقت انعقاد پر زور دے رہے ہیں کیونکہ عوامی ہمدردی اور وفاداری بدلتے زیادہ دیر نہیں لگتی۔ خان صاحب کی اسی مقبولیت کی وجہ سے رواں ہفتے عمران خان کی متوقع گرفتاری پر ان کے حامیوں کا شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ توشہ خانہ کیس میں مسلسل غیر حاضری پر جب عدالت کی طرف سے خان صاحب کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے اور اسلام آباد پولیس‘ پنجاب پولیس کے ہمراہ زمان پارک لاہور میں وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کیلئے گئی تو خان صاحب کے حامیوں نے اُن پر ہلہ بول دیا اور دو روز تک پولیس اہلکار اور تحریک انصاف کے حامی گتھم گتھا رہے۔ اس صورتحال کی عالمی میڈیا پر جو رپورٹنگ ہوئی‘ اس سے دنیا میں پاکستان کا منفی تاثر اُبھرا۔ افغانستان کے لیے سابق امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس وقت تین بحرانوں کا سامنا ہے‘ یہ بحران سیاسی‘ اقتصادی اور سکیورٹی کے ہیں اور عمران خان کی گرفتاری سے پاکستان کا سیاسی بحران مزید گہرا ہوگا۔ اس خرابی کو روکنے کے لیے جون کے اوائل میں قومی انتخابات کے لیے ایک تاریخ مقرر کریں اور جو پارٹی الیکشن جیتے‘ اسے عوام کا پورا مینڈیٹ حاصل ہونا چاہیے۔ اس وقت دوست ممالک بھی پاکستان کی اندرونی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اپنی عوامی مقبولیت کی وجہ سے خان صاحب ان ممالک میں بھی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں اور خان صاحب اسی چیز سے فائدہ اٹھا رہے ہیں تاکہ حکومت پر جلد انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کیلئے دباؤ بڑھایا جا سکے۔
ملک اس وقت جن شدید بحرانوں میں گھرا ہوا ہے‘ ان سے نکلنے کا راستہ سیاسی مذاکرات کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا ہے۔ جمہوری معاشروں میں مشکلات پر قابو پانے کے لیے سیاسی جماعتوں اور باشعور سیاستدانوں کے درمیان گفت و شنید کو آخری نہیں بلکہ پہلے آپشن کا مقام حاصل ہوتا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے بالترتیب 30اپریل اور 28مئی کی تاریخیں مقرر ہو چکی ہیں مگر مختلف وجوہ کی بنا پر کوئی ایسا وفاقی وصوبائی ادارہ نہیں جو مذکورہ تاریخوں پر الیکشن کے انعقاد پر تیار ہو۔ گورنر صوبہ خیبرپختونخوا‘ چیف سیکرٹری پنجاب‘ آئی جی پنجاب‘ وزارتِ دفاع و خزانہ کے اعلیٰ حکام کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اس بارے میں جامع اور زمینی حقائق پر مبنی بریفنگز دی گئی ہیں‘ جس میں انتخاب کے انعقاد کیلئے فنڈز اور سکیورٹی اہلکاروں کی فراہمی سے معذرت کا پہلو نمایاں ہے۔ یہ سوالات بھی سامنے آ رہے ہیں کہ دو صوبوں میں الیکشن 2017ء کی عبوری مردم شماری اور 2018ء کی حلقہ بندیوں پر ہونے کے بعد جب آئین کے مطابق قومی و دیگر اسمبلیوں یعنی سندھ اور بلوچستان اسمبلی کے انتخابات ہوں گے تو یہ کن حلقہ بندیوں اور کس مردم شماری کی بنا پر کروائے جائیں گے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں بھی اس حوالے سے کوئی رہنمائی موجود نہیں۔ صدرِ مملکت نے بھی اس اہم پہلو کو نظر انداز کیا اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے پنجاب میں عام انتخابات کیلئے 30اپریل کی تاریخ کا اعلان کر دیا۔ اب گورنر خیبر پختونخوا بھی اس پہلو کو خاطر میں لائے بغیر صوبے میں عام انتخابات کے انعقاد کیلئے تاریخ کا اعلان کر چکے ہیں۔
دوسری طرف ملک میں سیاسی عدم استحکام روز افزوں ہے۔ گوکہ لاہور ہائی کورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی اسلام آباد اور لاہور میں درج تمام 9 مقدمات میں حفاظتی ضمانت منظور کر لی ہے لیکن رواں ہفتے لاہور کے زمان پارک میں پولیس اور تحریک انصاف کے حامیوں کے درمیان خان صاحب کی گرفتاری کو لے کر جو تصادم ہوا وہ کسی لحاظ سے قابل ستائش نہیں تھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی اپنے خلاف درج 9 مقدمات میں حفاظتی ضمانت کے لیے خود لاہور ہائی کورٹ پہنچے تھے‘ اگر خان صاحب پہلے ہی عدالت کی طرف سے جاری کردہ وارنٹ گرفتاری پر عدالت سے رجوع کر لیتے یا اپنے کیسوں میں عدالت میں پیش ہوتے تو ایسی نوبت ہی نہ آتی۔ اس وقت عمران خان کے خلاف 94 مقدمات درج ہیں‘ یعنی آئے روز اُن کے خلاف کسی نہ کسی کیس میں وارنٹ گرفتاری جاری ہوتا رہے گا اور تصادم کا سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔زمان پارک میں ہونے والے تصادم سے پیدا ہونے والی شدید سیاسی بے چینی اور بے یقینی کی صورتحال کے پیش نظر صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایک بار پھر سیاسی کشیدگی کی کم کرنے کوشش کی۔صدرِ مملکت نے عمران خان صاحب کو دیگر سیاسی جماعتوں سے بات چیت کا مشورہ دیا۔ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ بھی نے اس سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کی اپنی سی کوشش کی اور یہ خدشہ ظاہر کیا کہ سیاسی بے یقینی اور امن و امان کی خراب صورتحال الیکشن ملتوی کرنے کا جواز فراہم کر سکتی ہے۔لازم ہے کہ سیاسی چپلقش اور مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے سیاستدان ایک گول میز کانفرنس کا انعقاد کریں اور ایک ہی دن ملک گیر انتخابات کے انعقاد سمیت دیگر اہم معاملات پر متفقہ اور قابلِ عمل لائحہ عمل تیار کریں تاکہ سیاسی رسہ کشی کا جاری سلسلہ تھم سکے اور ملک سیاسی استحکام کی جانب اپنا سفر شروع کر سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں