"KDC" (space) message & send to 7575

ملک میں اضطراب کیوں؟

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ملک کے سیاسی خلفشار سنگین معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے پہلے کہ کوئی بڑا حادثہ ہو جائے سیاستدان مل بیٹھ کر ملک کو سیاسی بحران سے نکالیں۔18 مارچ کو اس قسم کے اندیشے تقویت اختیار کر چکے تھے مگر مقام شکر ہے کہ ہم کسی بڑی تباہی سے بچ گئے۔اس روزاسلام آباد کے ڈیشل کمپلیکس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی پیشی کے موقع پر حالات جو پُرتشدد صورت اختیار کر گئے اور اس دوران پولیس اور پی ٹی آئی کے کارکنوں میں جو جھڑپیں ہوئیں ان سے علاقہ میدانِ جنگ بن گیا تھا۔پولیس کی جانب سے جی بھر کر شیلنگ کی گئی جبکہ دوسری جانب پُر جوش مظاہرین نے پولیس چوکی اورگاڑیوں کو نذرِ آتش کر دیا۔ ان واقعات کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو صدرِ مملکت کے خدشات درست معلوم ہوتے ہیں۔ اسلام آباد میں پولیس ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو روکنے میں ناکام ثابت ہوئی‘اس سے یہ اخذ کیا جارہا ہے کہ حکومتی عملداری کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج جناب ظفر اقبال نے عدالت کے گیٹ پر عمران خان کی حاضری منظور کر کے 30 مارچ تک اس مقدمے کی سماعت ملتوی کردی۔ جج صاحب نے ریمارکس دیے کہ سماعت واقعی ممکن ہی نہیں تھی اور دفعہ144کے باوجود پولیس امن و امان قائم کرنے میں ناکام ثابت ہوئی۔
اس دوران جب عمران خان اسلام آبادکی عدالت میں پیشی کے لیے براستہ موٹر وے لاہور سے اسلام آباد کی جانب محوِ سفر تھے‘ لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر پولیس نے آپریشن کر دیا۔ اس آپریشن کے حوالے سے انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس عثمان انور نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا کہ زمان پارک آپریشن قانونی کارروائی تھی جسے پورا کیا گیا۔بقول آئی جی‘ عدالتی حکم کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے پولیس نے سرچ آپریشن کیا۔ دوران آپریشن پولیس پر پٹرول بم پھینکے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم قانون کے مطابق نفری زمان پارک میں رکھیں گے‘ اسلحہ و دیگر چیزوں کا پرچہ اس کے خلاف کٹے گا جس سے برآمد ہوا۔آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ ہم سیاسی عمل پر یقین رکھتے ہیں اور عدالتوں اور الیکشن کمیشن کے تابع ہیں۔ آئی جی پنجاب نے کہا کہ وہ اور سی سی پی او گولی چلانے کا حکم دے سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
پولیس کی اس کارروائی کے بعد یہی لگ رہا تھا کہ زمان پارک کے علاقے میں پولیس کا یہ آپریشن حتمی طور پر کامیاب رہا اور وہاں پی ٹی آئی کے کارکنوں کو دوبارہ جمع ہونے کا موقع نہیں ملے گانہ ہی پولیس پہلے جیسی تجاوزات قائم کرنے دے گی‘ مگر اسلام آباد کی عدالت میں حاضری لگوانے‘ وارنٹ منسوخ کئے جانے اور مذکورہ مقدمے کی سماعت 30 مارچ تک ملتوی کئے جانے کے بعد رات گئے جب عمران خان اسلام آباد سے لاہور پہنچے تو زمان پارک میں پہلے کی طرح پی ٹی آئی کے کارکن جمع تھے اوریوں لگ رہا تھا کہ پنجاب پولیس کو آگے بڑھنے میں رکاوٹ پیش آ رہی ہے۔
توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کی حاضری دستخط والی فائل کا پُر اسرار طور پر غائب ہوجانا بھی حیران کن ہے۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ جب عدالت نے حاضری کی فائل بارے استفسار کیا تو عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ان سے یہ فائل ایس پی نے لے لی تھی جبکہ ایس پی نے عدالت کے روبرو کہا کہ مجھے نہیں علم کہ فائل پر عمران خان کے دستخط ہوئے ہیں یا نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ مجھے چوٹ لگی ہے‘ میرے پاس دستخط شدہ درخواست نہیں‘ درخواست شبلی فراز کو دی گئی تھی۔اس پر جج نے کہا کہ یہ بہت اہم فیصلہ ہے‘ قانونی ریکارڈ ہے‘ اسے ڈھونڈیں۔دیکھنا یہ ہے کہ اگلی سماعت تک یہ فائل بازیاب ہوتی ہے یا نہیں۔عدالت کے باہر عمران خان کی حاضری پر بھی کئی سوال اٹھائے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ عدلیہ کی تاریخ میں اس سے نئی روایت پڑے گی اور ہر طاقتور اور بااثر شخصیت گھر میں بیٹھ کر عدالتی کارروائی کا حصہ بننا چاہے گی۔یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ ایڈیشنل سیشن جج کو دیر گئے تک عدالت لگانے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ وقت ِ مقررہ کے بعد گھر لوٹ جاتے اور عمران خان کی خواہش پر جوڈیشل کمپلیکس کے گیٹ پر حاضری لگوانے سے گریز کرتے۔ عدلیہ کی حرمت‘ اتھارٹی‘ اور آئین و قانون کی بالادستی کے لیے اس پر بازپرس کرنی چاہیے۔
توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے وکیل خواجہ حارث ملک کے ممتاز قانون دان ہیں مگر ان کے ان دلائل سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن یہ کیس درج کرانے کے مجاز نہیں۔ توشہ خانہ کیس سپیکر قومی اسمبلی کے ریفرنس کی روشنی میں الیکشن کمیشن کی مدعیت میں کرپٹ پریکٹس کے سیکشن 167‘ 173‘ 174 اور 137کی روشنی میں ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد کو بھجوایا گیا تھا اور الیکشن کمیشن کے ٹرم آف ریفرنس‘ قانون اورآئین کے مطابق سیکرٹری الیکشن کمیشن ہی الیکشن کمیشن کے فیصلوں پر عملدرآمد کا ذمہ دار ہے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن کے فرائض وسیع تر ہیں‘وہ الیکشن کمیشن کے فنانشل معاملات میں پرنسپل افیسر اورانتظامی سربراہ کے ساتھ سیکرٹری ٹو الیکشن کمیشن کے فرائض بھی سرانجام دیتا ہے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ‘ یا توہینِ الیکشن کمیشن اور فواد چوہدری کے خلاف جو مقدمات درج کرائے وہ الیکشن کمیشن کے احکامات پر عمل درآمد کرانے کے لیے ان کی ہی ذمہ داری تھی۔
جہاں تک پی ٹی آئی کی مقبولیت کا سوال ہے تو یہ باور کیا جاتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکمت عملی‘ ایجنڈا‘ بیانیہ ان کے پانچ ہزار یوٹیوبرز اور ٹک ٹاکر کے اردگرد گھومتا رہا ہے‘ جن کو مبینہ طور پر صوبہ خیبر پختونخواہ حکومت نے ان کی سروسز حاصل کرنے کے لیے صوبائی خزانے سے ادائیگی ہوتی رہی جبکہ پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں بھی بلاگرز کی خدمات حاصل کی گئیں اور ان کے بلاگز نے عمران خان کے بیانیہ کو عمدہ طریقہ سے عوام کو ذہن نشین کرا دیا۔ دیگر سیاسی جماعتوں کے ڈیجیٹل میڈیا کے شعبے ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
لاہور ہائی کورٹ‘ اسلام آباد ہائی کورٹ اور ایڈیشنل سیشن جج کی عدالتوں سے عمران خان کو غیر معمولی حالات میں ریلیف ملا ہے‘اس پر عمران خان کے ناقدین کہہ رہے ہیں کہ انہیں ریلیف ملنے سے جمہوری اقدار کو نقصان پہنچا۔پتھروں‘ ڈنڈوں اور پٹرول بموں کا سامنا کرنے سے پولیس کی حوصلہ شکنی ہوئی اور بادی النظر میں پُر تشدد ذہن رکھنے والے کارکنوں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور اس کے نتیجہ میں ملک میں جارحانہ طرزِ عمل کی روایت کو فروغ ملے گا۔ عمران خان کے سیاسی مخالف انہیں عدالتوں سے ملنے والے ریلیف پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ انہیں گرفتار نہ کرنے کا حکم جاری کر کے انصاف کو سوالیہ نشان بنا دیا گیا۔ ان کی خواہش پر عدالتی ایونیو کو بھی تبدیل کیا گیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 63 (1) کی جو تشریح کی گئی اس سے بھی تحریک انصاف کے مقدمے کو تقویت ملی کیونکہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے تحریک انصاف کے ارکان کو نااہل کر دیا گیا اور ان کے ووٹ شمار نہیں کیے گئے۔اس پر یہ رائے بھی سامنے آئی کہ یہ تو آئین کو نئے سرے سے تحریر کرنے کے مترادف ہے۔ بہرحال عمران خان اس لحاظ سے خوش قسمت واقع ہوئے ہیں کہ انہیں عدالتوں سے ریلیف ملنے کی ایک طویل ٹریل موجود ہے۔بہرکیف مقتدر حلقوں کو ملکی سا لمیت اور ملک کی جغرافیائی صورتحال اور بین الاقوامی حالات کو دیکھتے ہوئے اہم فیصلے کرنے چاہئیں‘ آئین کی 19 ویں ترمیم پر بھی نظرِثانی کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں