"KDC" (space) message & send to 7575

سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان اور پارلیمنٹ میں آئینی اختیارات کے حوالے سے کشمکش سے ملک میں سیاسی نظام کے وجود کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ عدالت عظمیٰ کے آٹھ رکنی بنچ کی تشکیل پر وکلاء کمیونٹی بھی منقسم ہے۔ پاکستان بار کونسل کا سپریم کورٹ کی جانب سے آٹھ رکنی بینچ بنانے کے فیصلے کے خلاف احتجاجی کال پر وکلا نے ملک گیر ہڑتال کر کے عدالت عظمیٰ کے بینچ پر عدم اعتماد کا اظہارکیا جبکہ حکومت نے پارلیمنٹ کے ذریعے آٹھ رکنی بینچ کو تحلیل کرنے کی قرارداد منظور کرائی‘ لیکن عدالت عظمیٰ نے حکومتی قرارداد کے برعکس چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر تا حکم ثانی عمل درآمد روک دیا اور سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت اور اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں اور تحریک انصاف کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت دو مئی تک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کا بہت احترام کرتی ہے لیکن عدلیہ کی آزادی بنیادی حق ہے جس کو آئین کا مکمل تحفظ حاصل ہے لہٰذا عدالت عظمیٰ نے جائزہ لینا ہے کہ اس معاملہ میں آئین کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی ‘جبکہ حکومتی سطح پر سپریم کورٹ کی پارلیمنٹ کے معاملہ میں مداخلت پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بینچ میں دو سینئر ترین ججز کو شامل نہ کرنا درست نہیں اور عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کو متنازع تصور کیا جائے۔ ویسے زمینی حقائق یہی معلوم ہوتے ہیں کہ سینئر ترین ججز کو شامل نہ کر کے تقسیم کا تاثر ابھرتا ہے اور سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججوں کو شامل کر لیا جاتا تو ان کا فیصلہ منطقی طور پر بہتر ہوتا۔
دوسری جانب پنجاب کے انتخابات اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے لیے حکومت کی جانب سے فنڈز کی فراہمی میں ناکامی پر سپریم کورٹ نے براہِ راست سٹیٹ بینک کو حکم دیا ہے کہ 17 اپریل تک 21 ارب روپے الیکشن کمیشن کو جاری کیے جائیں۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کی جانب سے نو صفحات پر مشتمل اِن چیمبر سماعت کے تحریری حکمنامے میں قرار دیا کہ سٹیٹ بینک سے 21 ارب روپے وصول ہونے کے بعد الیکشن کمیشن پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے سلسلے میں فنڈز کے اجرا کا عمل شروع کرے گا۔سٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کو 18 اپریل تک حکم کی تعمیل پر رپورٹ جمع کرائیں جبکہ الیکشن کمیشن 18 اپریل کو سپریم کورٹ کو رپورٹ میں بتائے کہ اسے الیکشن کے انعقاد کے لیے 21 ارب روپے موصول ہوچکے ہیں۔تحریری حکمنامے میں کہا گیا کہ یہ واضح ہے کہ الیکشن کی آئینی ذمہ داری کے لیے 21 ارب روپے کی ادائیگی سے وفاقی حکومت پر مالی بوجھ نہیں پڑے گا۔
تاہم ایک رائے یہ ہے کہ سٹیٹ بینک کو21ارب روپے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو منتقل کرنے کے جو احکامات جاری کئے گئے ہیں وہ وفاقی حکومت سے منظوری سے منسلک ہیں۔میری ناقص رائے کے مطابق سٹیٹ بینک آف پاکستان حکومت کی منظوری کے بغیر رقوم دینے کا مجاز نہیں جبکہ اٹارنی جنرل آف پاکستان نے سپریم کورٹ آف پاکستان کو باور کر دیا ہے کہ پارلیمنٹ نے فنڈز مہیا کرنے کی حکومتی استدعا مسترد کر دی ہے۔ان حالات میں سپریم کورٹ آف پاکستان اور حکومت آمنے سامنے کھڑی ہو گئی ہیں اور پارلیمنٹ حکومت کے ساتھ کھڑی ہے ۔سپریم کورٹ کے وہ آٹھ ججز بشمول چیف جسٹس آف پاکستان‘ جنہیں پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا جائزہ لینے کے لیے بینچ میں شامل کیا گیا حکومتی ایما پر ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھجوا دیے گئے ہیں ۔ حکومت ان غیر معمولی حالات میں چیف جسٹس آف پاکستان کو غیر فعال کرنے کے لیے بے تاب۔ اگلے روز یہ خبر آئی تھی کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی مدتِ ملازمت کو کم کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ حکومت آئین کے آرٹیکل 180(3)کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ آنے تک چیف جسٹس کے منصب کو غیر فعال یا معزول کرنے کے لیے بھی غور کر رہی ہے جیسا کہ پرویز مشرف نے 9مارچ 2007ء کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری کو غیر فعال کر کے ان کی جگہ جسٹس جاوید اقبال کو قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان مقرر کر دیا تھا اور بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر موسٹ جج رانا بھگوان داس کو قائم مقام چیف جسٹس مقرر کیا گیا اور جسٹس افتخار محمد چودھری سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلہ آنے تک غیر فعال چیف جسٹس رہے اور 22جولائی 2007ء کو سپریم جوڈیشل کونسل نے جب افتخار محمد چودھری کو بحال کر دیا تو انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کی ذمہ داریاں سنبھال لیں اور بعد ازاں ان کو 3نومبر 2007ء کو ایمرجنسی پلس لگانے کے بعد سپریم کورٹ کی سربراہی سے فارغ کردیا گیا تھا۔ مگر افتخار محمد چودھری کی معزولی کے واقعے نے جوڈیشل موومنٹ کو جنم دیا جس نے ملک کی سیاست اور جوڈیشل ایکٹوازم کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا اورپرویز مشرف کے آہنی پنجوں کی پکڑ کو کمزور کرنے اور بالآخر عہدہ صدارت سے استعفیٰ دے کر خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے کا موجب بنی۔ کیا موجودہ حکمران اتحاد اس کے لیے تیار ہے اور اس کی سیاسی قیمت کا متحمل ہوسکتا ہے؟
ماہرینِ قانون کے ایک حلقے کی رائے ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان وفاقی حکومت کے خلاف توہین عدالت نہیں لگا ئے گی کیونکہ حکومت نے محفوظ راستہ اختیار کرتے ہوئے کابینہ سے منظوری حاصل کرنے کے بعد معاملہ آئین کے آرٹیکل82(1) کے تحت قومی اسمبلی کو بھجوا دیا تھا اور قومی اسمبلی نے کثرتِ رائے سے قرارداد منظور کرتے ہوئے صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخواکے جنرل الیکشن کروانے کیلئے فنڈز فراہم کرنے سے انکار کر دیا ۔یہ ساری کارروائی یہ منصوبہ بندی سے ہوئی وہ حکومت کوقانونی تحفظ فراہم کرتی ہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے عدالتی اصلاحات ایکٹ کی کارروائی معطل کر کے وفاقی حکومت کے اختیارات کو چیلنج کر دیا گیا ہے‘ اب حکومت نے یہ طے کیا ہے کہ چونکہ پارلیمنٹ کو قانون سازی سے نہیں روکا جا سکتا‘ لہٰذا دو مئی کو جب یہ بل قانون بن جائے گا تو سپریم کورٹ اسے مسترد نہیں کر سکے گی‘ مگر سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ نے جمعرات کے روز کی سماعت کے بعد جو آرڈر پاس کیا‘ اس سے تو لگتا ہے کہ سپریم کورٹ اس قانون کو آڑے ہاتھوں لے گی۔
بہرکیف پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں جو روایت قائم کی جا رہی ہے اس کا جمہوری نظام کو نقصان ہو رہا ہے۔ کسی بھی جمہوریت میں پارلیمنٹ سے زیادہ طاقتور ادارہ نہیں ہوتا اور ایسا نہیں ہو سکتا کہ سپریم کورٹ قانون بننے سے پہلے ہی اس پر فیصلہ دے دے۔ اب تازہ ترین صورتحال یوں ہے کہ قومی اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے آٹھ رکنی بینچ کو غیر آئینی قرار دیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں سپریم کورٹ آف پاکستان بھی کشمکش میں ہے اور بعض معزز ججز حساس ترین معاملات میں جس انداز میں فیصلے کر رہے ہیں اس سے سپریم کورٹ آف پاکستان کی عزت پر حرف آ رہا ہے ۔ چیف ا لیکشن کمشنر نے بھی پارلیمنٹ اور پارلیمانی امور کی وزارت کو خط لکھ کر واضح کر دیا ہے کہ عدالتوں کی بے جا مداخلت سے الیکشن کمیشن آف پاکستان آئندہ انتخابات میں شفاف الیکشن کرانے میں رکاوٹ محسوس کر رہا ہے کیونکہ بیورو کریسی کو احساس ہو گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو عدالتوں کا تحفظ حاصل نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں