"KDC" (space) message & send to 7575

نگران حکومتیں برقرار رہیں گی؟

سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر سٹیٹ بینک آف پاکستان وفاقی حکومت کے اکاؤنٹ سے کون سے فنانشل قوانین کے تحت 21ارب روپے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو منتقل کر سکتا ہے؟ جبکہ وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی سے رائے لینے کے لیے منی بل قومی اسمبلی میں بھجوایا جسے مسترد کردیا گیا۔ یہ اس وقت کا اہم سوال ہے اور آج ممکنہ طور پر حکومت اس معاملے پر اہم اجلاس بھی کرنے والی ہے؛ تاہم بہت سے ماہرین کی رائے میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کسی قانون کے تحت وفاقی حکومت کے اکاؤنٹ سے رقم نہیں نکال سکتا‘ لہٰذا سپریم کورٹ کے احکامات قواعد و ضوابط کی نذر ہو جانے کا احتمال ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے پر وزیراعظم پاکستان کو توہینِ عدالت کے تحت نااہل کرنے کے احکامات جاری کرتی ہے تو وفاقی کابینہ ایسے احکام کو نظرانداز کر دے گی کیونکہ حکومت کا مؤقف ہو گا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے ججوں بشمول چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کیا گیا ہے‘ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان اور دیگر سات ججز بادی النظر میں آئینی طور پر غیرفعال ہو چکے ہیں ۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نگران حکومتیں دونوں صوبوں میں انتخابات اور منتخب حکومتوں کے قیام تک قائم رہیں گی کیونکہ 90 روز کی مدت گزرنے کے باوجود آئین کے آرٹیکل 48 (5) (بی)‘ 19 (8) ‘ 58 (2) (بی) اور آرٹیکل 224 (اے) اور آرٹیکل 223 کے مطابق نگران حکومتیں اپنا کام جاری رکھ سکیں گی۔ نگران حکومتوں کی تعیناتی آئین کے آرٹیکل 224 کے مطابق ہوئی ہے مگر اس آرٹیکل میں ان کی مدت کے بارے میں نہیں بتایا گیا؛چنانچہ یہی اخذ کیا جاتا ہے کہ انتخابات کے انعقاد اور نئی حکومتوں کے قیام تک دونوں صوبوں کی نگران حکومتیں قائم رہیں گی۔ جہاں تک 90 روز کے بعد نگران حکومت کی مدت ختم ہونے کا تعلق ہے اس کا حکومت کے مینڈیٹ کی میعاد سے کوئی تعلق نہیں ‘ لہٰذا صوبائی حکومتوں کے لیے نیا نوٹیفکیشن جاری کرنے کی شاید ضرورت نہیں۔ بعض اینکر پرسنز نگران حکومتوں کی مدت کے تعین کے حوالے سے جو حوالہ جات دے رہے ہیں اس سے ابہام پیدا ہو رہا ہے۔ نگران حکومتوں کے قیام کے لیے مختلف ممالک میں مختلف طریقہ کار رائج ہے۔ بنگلہ دیش میں نگران سیٹ اَپ تقریباً تین سال تک وقفے سے جاری رہا‘ 2006ء میں خالدہ ضیا کی حکومت تحلیل ہونے کے بعد نگران سیٹ اَپ لایا گیا جو ایک سال کے بعد حسینہ واجد کی تحریک پر ختم کر کے ملک میں ایمرجنسی کا انعقاد کرتے ہوئے نگران حکومت قائم کی گئی جو فروری 2009ء تک رہی۔ بھارت میں نگران حکومت کا آئینی طور پر کوئی نظام نہیں ‘ وہاں حکومت اور پارلیمنٹ کی تحلیل کے بعد بھی وزیراعظم برقرار رہتا ہے لیکن اس کے اختیارات محدود ہو جاتے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کے احکامات اہمیت کے حامل ہوجاتے ہیں۔ اس دوران آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ پر وزیراعظم منموہن سنگھ نے انڈین الیکشن کمیشن سے تحریری اجازت حاصل کرنے کے بعد آرمی چیف کا تقرر کیا تھا۔ نگران حکومت کی ایک اور مثال بلجیم میں ملتی ہے جہاں نگران حکومت چھ ماہ تک برقرار رہی۔
دوسری جانب عمران خان عدالتی فیصلوں کے تحت حفاظتی عبوری ضمانت پر اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان میں زیرسماعت کیس بھی اہمیت کے حامل ہیں۔اب چونکہ الیکشن کمیشن نے حکومت کو خط لے کر اپنے تحفظات سے آگاہ کر دیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی کارروائی میں عدالتیں رکاوٹیں ڈال رہی ہیں تو ممکن ہے کہ توہینِ الیکشن کمیشن کے حوالے سے عمران خان‘ اسد عمر اور فواد چودھری کے بارے میں الیکشن کمیشن کاکوئی فیصلہ بھی جلد ہی آ جائے۔اس سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا رُخ بدل سکتاہے اور قوم 'میرے پاکستان‘ کی طرف لوٹ جائے گی۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اپیل جب سپریم کورٹ میں دائر کی جائے گی تو معزز ججز صاحبان الیکشن کمیشن کے تحفظات کو بھی مدنظر رکھیں گے جس کے بارے میں کمیشن کا کہنا ہے کہ اس کے اختیارات چھین لیے گئے ہیں اور اس کے سسٹم میں مداخلت کر کے اسے بیورو کریسی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ میری رائے کے مطابق تو آئندہ ہفتے اہم فیصلے آ سکتے ہیں جس سے تحریک انصاف ایک نئے قانونی گرداب میں پھنس سکتی ہے۔ فارن فنڈز کی ضبطی کے بعد پارٹی کا سمبل بھی واپس لیا جا سکتا ہے ۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 215 بڑی واضح ہے۔
پاکستان کے سیاسی ماحول میں آلودگی پیدا کرنے میں بیرونی قوتیں بھی ملوث ہیں اور اس کا پس منظر یہ ہے کہ ملک کا سیاسی نظام‘ پارلیمنٹ‘ عدلیہ اور حساس ادارے ایک ایجنڈے کے تحت متنازع بنا ئے جا رہے ہیں اور سیاسی رہنما قومی اداروں کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ انہیں اس سے خبردار کرنے کے بجائے یہ تماشا خاموشی سے دیکھا جا رہاہے۔ پاکستان کے سیاسی ماحول کو خراب کرنے میں جہاں ملک کی سیاسی قیادت کا عمل دخل ہے‘ وہیں غیرملکی خفیہ اداروں کے عمل دخل کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ خدشہ ہے کہ غیرملکی ایجنٹوںاور جرائم پیشہ عناصر نے منی لانڈرنگ اور دیگر جرائم کو پروان چڑھانے کی غرض سے سیاسی جماعتوں میں شامل ہونے کے لیے پارٹی فنڈز میں رقوم جمع کروا کر سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو ہم نوا بنا رکھا ہے۔اسی طرح رائے عامہ کے شعبوں میں بھی ایسے لوگوں کی موجودگی کا شبہ ہے جو ملک میں انتشار پھیلانے میں مصروف ہیں۔ بلوچستان میں مشتبہ عناصر اور شدت پسندوں کی سرگرمیاں تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بلوچ نوجوانوں کو بیرونی ممالک کی شہریت دلانے کے لالچ میں ملک دشمنی کی کارروائیوں میں ملوث کیا جاتا ہے ۔خفیہ ادارے مداخلت کاروں کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے سرگرم ہیں‘ مگر ان کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان کے اداروں کے خلاف کئی طرح سے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں غیرملکی مداخلت چین کے ترقیاتی پروگراموں کے لیے بھی خطرناک ہے ‘ اس لیے قومی اداروں کو تخریب کار عناصر پر گرفت مضبوط کرنا ہوگی۔
بہرحال قومی منظر کی تشویش روز بروز شدت اختیار کررہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان آئین کی تشریح میں پارلیمنٹ کو رہنما اصول دینے کی مجاز ہے‘ لیکن ملک کی سلامتی اور ترقی و استحکام کا راستہ اس کے سوا کوئی نہیں کہ ریاستی ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے قومی مقاصد و اہداف کے حصول میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ پارلیمنٹ کے جائز مقام کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ تعاون کریں‘ جبکہ ارکانِ پارلیمنٹ بھی اپنی ذمہ داریاں کماحقہٗ ادا کر کے اپنے اختیارات کا جواز مہیا کریں۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان میں پارلیمنٹ کی حکمرانی کی لڑائی جاری ہے۔ اب جو ملک میں سیاسی اور انتخابی معرکہ آرائی ہو رہی ہے یہ پاکستان کو بنگلہ دیش کے ماڈل کی طرف لی جانے کا سبب بن سکتی ہے۔ایک حلقے کی تو رائے یہی ہے کہ 2006 ء کے بنگلہ دیش ماڈل سے پاکستان کے سیاسی انتشار کا ازالہ ہو سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں