"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن کی حاکمیت

گزشتہ جمعہ کو قومی اسمبلی کا اِن کیمرا سیشن ہوا جس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر سمیت دیگر عسکری حکام بھی شریک ہوئے۔اس موقع پر آرمی چیف کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ طاقت کا محور عوام ہیں‘ آئین کہتا ہے اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال ہوگا۔ہمیں نئے اور پرانے پاکستان کی بحث کو چھوڑ کر ''ہمارے پاکستان‘‘ کی بات کرنی چاہیے۔ عوام کے منتخب نمائندے منزل کا تعین کریں‘ پاک فوج پاکستان کی ترقی اور کامیابی کے سفر میں ان کا بھرپور ساتھ دے گی اور یہ کہ ملک میں دائمی قیامِ امن کے لیے سکیورٹی فورسز مستعد ہیں۔آرمی چیف نے اپنے اس خطاب میں موجودہ کشمکش کی صورتحال اور عدلیہ و پارلیمنٹ میں موجود کھچاؤ کے تناظر میں ملکی وحدت اور سالمیت کے حوالے سے اداروں کو اپنی حدود میں رہنے کی راہ دکھا دی ہے۔
گزشتہ ہفتے ہی چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال سمیت 8 ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا گیا ‘جس میں آئین کے آرٹیکل 209 اور ججز کوڈ آف کنڈکٹ کی دفعہ تین تا چھ اور نو کو بنیاد بنایا گیا۔ریفرنس کے متن کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پارلیمنٹ کے منظورکردہ بل کو سماعت کے لیے مقرر کرکے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا اورپارلیمنٹ کے بل کی سماعت کے لیے 8 رکنی بینچ تشکیل دے کر اور درخواستوں کی سماعت کے لیے بینچ کی خود سربراہی کر کے مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے۔مزید یہ کہا گیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023ء کے خلاف حکم امتناعی عدالتی نظائر کی خلاف ورزی ہے۔ 8 ججز نے پارلیمنٹ کا بل معطل کرکے ڈاکٹر مبشر حسن اور اعتزاز احسن کیس کی خلاف ورزی کی۔
بادی النظر میں مذکورہ ریفرنس کے بعد آئین کے آرٹیکل(3) 180 کے تحت غیر فعالیت کی راہ ہموار ہوتی جا رہی ہے۔ آئین کی اس شق کے تحت 9مارچ 2007ء کو اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کو غیر فعال کرتے ہوئے جسٹس رانا بھگوان داس کو قائم مقام چیف جسٹس مقرر کر دیا گیا تھا۔ مگر واضح رہے کہ بعد ازاں 22جولائی 2007ء کوچیف جسٹس کی نااہلی خلافِ ضابطہ ثابت ہو ئی اور جسٹس افتخار محمد چودھری بطور چیف جسٹس بحال ہو گئے اور ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل نے کیس خارج کر دیا۔ یہی صورتحال موجودہ تناظر میں دیکھنے میں آ رہی ہے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں کے برعکس قومی اسمبلی نے آرٹیکل (3)184کے تحت سپریم کورٹ کے فیصلوں پر اپیل کے حق کے لیے سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز بل 2023ء منظور کرلیا ہے۔ بل کے مطابق نظر ثانی اپیل کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ کا لارجر بینچ تشکیل ہو گا اور نظرثانی درخواست دائر کرنے کی مدت 60 دن ہو گی۔
اُدھر چیف الیکشن کمشنر نے گزشتہ ہفتے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کو خط لکھا جس میں کہا گیا کہ یکم مارچ اور چار اپریل کے عدالتی فیصلوں نے الیکشن کمیشن کو آئینی اختیار سے محروم کردیا ہے اور یہ کہ الیکشن کمیشن اس کی وجہ سے آئندہ شفاف الیکشن کروانے میں رکاوٹ محسوس کر رہا ہے۔ مزید یہ کہ آئین کے تحت الیکشن کمیشن یہ فیصلہ کرنے والا واحد ادارہ ہے کہ حالات الیکشن کیلئے سازگار ہیں یا نہیں اور یہ کہ صدر کا الیکشن کی تاریخ دینا آئین کے منافی ہے۔ الیکشن کمیشن نے صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے کوشش کی جبکہ ان مثالی کوششوں کی معاونت نہیں کی گئی اور الیکشن کمیشن کی رِٹ کو منظم طریقے سے چیلنج کرکے عملی طور پر الیکشن کمیشن کے اختیار کو ختم کیا گیا ہے۔خط میں چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی رِٹ پر سمجھوتا کیا گیا۔ اس کے بعد کیا انتظامیہ‘ سیاسی نمائندے اور ادارے الیکشن کمیشن کو سنجیدگی سے لیں گے؟ کیا موجودہ حالات میں ان اداروں اور انتظامیہ کے ذریعے پنجاب‘ خیبر پختونخوا میں صاف شفاف انتخابات کرائے جاسکتے ہیں؟خط میں چیف الیکشن کمشنر نے یہ بھی کہا کہ الیکشن کمیشن نے ڈسکہ الیکشن میں دھاندلی میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی لیکن اس محکمانہ کارروائی کو ایک طرف رکھ دیا گیاجس سے انتظامی افسران کو یہ پیغام گیا کہ وہ سنگین بے ضابطگی کے باوجود فیصلوں کے پیچھے چھپ سکتے ہیں۔ جب توہینِ الیکشن کمیشن پہ نوٹسزجاری کیے گئے تو چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن ممبران کو جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں۔ توہین کے مرتکب افراد نے الیکشن کمیشن کی کمزور ہوتی ہوئی رِٹ کو بھانپ لیا اور کارروائی میں پیش نہ ہوئے۔ اس خط کی روشنی میں چیئرمین سینیٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دے دی ہے‘ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ مذکورہ کمیٹی مطلوب نتائج حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہے یا نہیں۔
اُدھرقومی اسمبلی نے پیر کے روز الیکشن کمیشن کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے21 ارب روپے فراہم کرنے کی ڈیمانڈ کثرتِ رائے سے مسترد کر کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو یکسر نظرانداز کر دیا ہے۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ہفتہ کی شام کو قومی اسمبلی میں تحریک پیش کی جس میں پنجاب میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو رواں مالی سال کے دوران اضافی اخراجات کی مد میں وفاقی حکومت سے 21 ارب روپے سے زائد کی ضمنی گرانٹ دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ وفاقی کابینہ اور وزارتِ خزانہ کی قائمہ کمیٹی بھی یہ اخراجات دینے پر تیار نہیں۔ دیکھتے ہیں کہ انتخابی اخراجات کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
سپریم کورٹ کی بات کی جائے تو سپریم کورٹ میں اندرونی اختلاف کا جو تاثر ابھارا جا رہا ہے‘ اس کیلئے دو ججوں کی تعیناتی کو بطور حوالہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ وفاقی وزرا نے ان ججز کی تعیناتی کو جواز بنا کر بلاوجہ سپریم کورٹ کی اتھارٹی پر سوال کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ ان جج صاحبان کی تعیناتی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں اور ان کے فیصلے متنازع قرار دیے جارہے ہیں اور وفاقی وزیر قانون نے ان ججزکی تعیناتی کے حوالے سے طاقتور حلقوں کے دباؤ کا ذکر کر کے اہم ترین عدالتی فورم کو متنازع کرنے کی کوشش کی۔
سپریم کورٹ کی جاری کردہ ڈیڈ لائن کے باوجود حکومت کی جانب سے 21ارب روپے جاری نہ کرنے کے بعد پنجاب کے انتخابات سے متعلق غیر یقینی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر حکم امتناعی کے خلاف وکلا کمیونٹی اور پاکستان بار کونسل احتجاج کر رہی ہے۔ملک کی ابتر معاشی صورتحال‘ لاء اینڈ آرڈر کے بگڑتے ہوئے حالات‘ مہنگائی‘ بے روزگار ی اور بد ترین گورننس پر ملک کے غریب عوام کی فلاح کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔ اس پس منظر میں چیف الیکشن کمشنر کا چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کو خط الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات کم کرنے کی کوششوں پر اظہارِ افسوس ہے۔ لازم ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی آزادانہ حیثیت کا آئین کے آرٹیکل 218(3) اور 237 کے تحت تعین کیا جائے اور ایسا کرتے ہوئے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 85 اور 87 کو بھی مدِنظر رکھا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں