"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن بنام سپریم کورٹ

وزیر دفاع اور مسلم لیگ (ن)کے مرکزی رہنما خواجہ آصف نے منگل کے روزقومی اسمبلی میں جو تقریر کی ‘ اُس سے بعض حلقوں میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مذکورہ تقریر میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ہمیں عدلیہ کی تاریخ کا حساب دیا جائے۔ ایک خصوصی کمیٹی بنائی جائے جس میں ذوالفقار علی بھٹو‘ یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کے خلاف فیصلوں کا حساب لیا جائے۔منگل کے روز ہی چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں آٹھ رکنی لارجر بینچ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی۔سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سیاسی معاملات نے عدالت کا ماحول آلودہ کردیا ہے‘ سیاسی لوگ انصاف نہیں من پسند فیصلے چاہتے ہیں۔اب یہ تاثر گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ پارلیمنٹ اور اعلیٰ عدلیہ آمنے سامنے کھڑی ہیں۔سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر ہونے والی سماعت کے بعد سیاستدانوں نے قومی اسمبلی کے فورم پر جن خیالات کا اظہار کیا ‘ایسا کرتے ہوئے بادی النظر میں آئین کے آرٹیکل 204 کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا۔اس موقع پر اراکینِ قومی اسمبلی نے عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنا کر اچھا اقدام نہیں کیا۔ اگر عدلیہ کی 75 سالہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پھر انہی سیاستدانوں نے اپنے غیر جمہوری اقدام کی حمایت کیلئے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ اکتوبر 1954ء میں آئین ساز اسمبلی تحلیل کرتے وقت گورنر جنرل غلام محمد کو ملک کے ممتاز سیاستدان اور آئین ساز اسمبلی کے متحدہ اپوزیشن لیڈر حسین شہید سہروردی کی اعانت حاصل تھی۔8اکتوبر 1958ء کوصدر اسکندر مرزا نے ملک میں مارشل لا نافذ کیا تو محترمہ فاطمہ جناح نے اس اقدام کو ریاست کے مفاد میں بہتر قرار دیتے ہوئے کہا کہ سیاستدانوں کی کرپشن کی وجہ سے ملک میں مارشل لا کا نفاذ درست قدم ہے۔ اسی طرح اس وقت کے چیف جسٹس محمد منیر نے مارشل لا کو نظریۂ ضرورت کے تحت قابلِ عمل قرار دے دیا اور بعد ازاں خود صدر ایوب خان کی کابینہ کا حصہ بن گئے۔
قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کو تنقید کا نشانہ بناکر جس نا خوشگوار روایت کا آغاز کیا گیا ہے‘اُس سے اعلیٰ عدلیہ کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔اس عمل کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے بدھ کے روز نورعالم خان کی زیر صدرات منعقدہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سپریم کورٹ کا 2010ء سے 2021ء تک آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اس حوالے سے چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے رجسٹرار سپریم کورٹ کو 16 مئی کو طلب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ اگر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے حاضر نہ ہوئے تو ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے جائیں گے۔موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں یہ بھی درست اقدام نہیں ہے اور دوسری جانب سے قومی اسمبلی کی کارروائی کی تفصیلات طلب کرنا بھی آئین کے آرٹیکل 69 سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان آرٹیکلز کی موجودگی میں پارلیمان کی اندرونی کارروائی پر سوال نہیں کیا جا سکتا اور جس سیاستدان نے عدالت میں پارلیمنٹ کی کارروائی طلب کرنے کی استدعا کی ہے‘ اس عمل سے دراصل ان کی جماعت کے سیاسی مفادات وابستہ ہیں۔ اس ساری مشق سے اب یہ تاثرمل رہا ہے کہ اس حوالے سے جو بھی قانونی کارروائی ہوئی‘ وہ آئین کے آرٹیکل 184 سے بھی متصادم ہے۔ عوام اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ عوام سے بڑی کوئی عدالت نہیں اور وہ وقت دور نہیں جب اس ملک کے عوام ملک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف اپنا فیصلہ جاری کریں گے۔
اب کچھ بات الیکشن کمیشن آف پاکستان کی۔الیکشن کمیشن آف پاکستان ملک کا اہم ترین ادارہ ہے جسے آئین کے آرٹیکل 213 سے226 تک اور آرٹیکل 237 کے تحت وسیع تراختیارات حاصل ہیں جبکہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے اراکین کو بھی ہائی کورٹ کے ججز کے مساوی آئینی تحفظ حاصل ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے الیکشن کمیشن کا 22مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پنجاب میں انتخابات کے لیے 14مئی کی تاریخ مقرر کرتے ہوئے الیکشن شیڈول بھی جاری کر دیا گیا۔ یعنی الیکشن کمیشن کو الیکشن شیڈول جاری کرنے کے اختیار سے بھی محروم کر دیا گیا جو اس ادارے کا آئینی استحقاق ہے۔ آئین کے آرٹیکل 220 کے تحت الیکشن کے تمام انتظامی امور کا اختیاربھی الیکشن کمیشن کو حاصل ہے۔الیکشن کمیشن کے یہ اختیارات بھی خود سنبھال کر وزارت ِ دفاع‘ وزارت ِ خزانہ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حکام کو طلب کر کے فیصلے سنائے گئے ۔ اس کے باوجود الیکشن کمیشن کی طرف سے ان فیصلوں کا نہ صرف احترام کیا گیا بلکہ ان پر عملدرآمد کی بھی بھرپور کوشش کی گئی لیکن حکومت کی طرف سے نہ تو مطلوبہ الیکشن فنڈز فراہم کیے گئے اور نہ ہی مطلوبہ سکیورٹی اہلکاروں کی فراہمی کی کوئی یقین دہانی کرائی گئی۔ اس دوران تحریک انصاف کی طرف سے یہ مطالبہ بھی سننے میں آیا کہ الیکشن کیلئے فنڈز نہ دینے پر سپریم کورٹ وزیر اعظم اور کابینہ کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کرے جبکہ وزیراعظم نے توہینِ عدالت سے بچنے کے لیے وفاقی کابینہ اور پارلیمنٹ کا سہارا لے لیا۔ صدرِ مملکت اس ساری صورتحال سے مصلحتاً لا تعلق رہے۔ ان کو پارٹی کے مفادات سے بالاتر ہو کر پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کو یہ حق حاصل ہے کہ کوئی قانون اگر آئین سے متصادم ہو تو اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے لیکن اس دفعہ یہ عجیب روایت دیکھنے میں آئی کہ ابھی پارلیمنٹ نے ایکٹ منظور ہی نہیں کیا تھا کہ سپریم کورٹ نے اس سے متعلق حکم امتناعی جاری کر دیاجو کہ تاحکم ثانی جاری رہے گا۔ اب پارلیمنٹ نے 21 اپریل کو پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء کے بارے میں گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے تو اس کے خدوخال کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے 8 رکنی بنچ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اس ایکٹ کو کالعدم قرار دے کر معاملہ ازسرنو پارلیمنٹ کو بھیج دیا جائے یا اس میں مناسب ترامیم کی سفارش کی جائے۔دوسری طرف دیکھا جائے تو 14 مئی کو الیکشن کا فیصلہ اب بادی النظر میں غیر مؤثر ہو چکا ہے کیونکہ ابھی تک اس تاریخ پر الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے کوئی پیش رفت یا تیاری نہیں ہو سکی ہے۔یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کے انعقاد کو ناممکن قرار دیتے ہوئے اس حکم پر نظرثانی کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے۔ اگر یہ فیصلہ غیر مؤثر ہوتا ہے تو پھر الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا فیصلہ ہی مؤثر قرار پائے گا اور الیکشن 8 اکتوبر کو ہی متوقع ہیں۔آئین کے آرٹیکل 218کے تحت عام انتخابات کے لیے تاریخ کا تعین کرنا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 58کے تحت الیکشن شیڈول جاری کرنا اور الیکشن کی تاریخ میں رد و بدل بھی الیکشن کمیشن کے اختیارات میں شامل ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کرانے کے لیے وفاقی حکومت ہی کوئی کردار ادا کر سکتی ہے۔ ابھی تک وفاقی حکومت اور عدالت عظمیٰ سامنے سامنے ہیں ۔ یہ صورتحال اطراف کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا باعث بن رہی ہے۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کے بیٹے کی مبینہ آڈیو لیک نے بھی اس صورتحال کو مزید کشیدہ کیا ہے۔لازمی ہے کہ انتخابات کے حوالے سے موجود سیاسی و آئینی ڈیڈ لاک کا جلد از جلد خاتمہ کیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں