"KDC" (space) message & send to 7575

جناح ہاؤس لاہور، جو میں نے دیکھا

مظاہرین کی جانب سے تباہ کی گئی کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ‘ جناح ہاؤس کو میں نے اپنی آنکھوں سے تباہ شدہ حالت میں دیکھا ہے۔ شرپسندوں نے جناح ہاؤس کو مکمل طور پر نذرِ آتش کرتے ہوئے قیمتی لکڑی سے تعمیر کردہ اس کے فرشوں کو بھی اکھیڑ کر آگ لگا دی۔ خوبصورت ٹائلیں بھی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نکال کر ان کو توڑا گیا۔ کمروں کو خندق نما کر دیا گیا۔ سٹاف کالونی کو بھی مسمار کر دیا گیا۔ اس عمارت کو فی الحال اسی حالت میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور عوام کے لیے دروازے کھول دیے گئے ہیں کہ عوام اس عمارت کو دیکھیں اور ان آتش فشاں تقریروں کو یاد کریں جن کے نتیجے میں یہ سب ہوا۔ آرمی کی تضحیک کرنے والوں نے مذمتی الفاظ بھی ادا نہیں کیے اور جناح ہاؤس کی تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ دراصل سابق وزیراعظم نے اقتدار میں آنے کے بعد آرمی کی بعض پالیسیوں پر شدید تنقید کا وتیرہ بنایا ہوا تھا اور پاکستان کی حساس ترین ایجنسی کے بارے میں ملک کی سلامتی کے خلاف بیان دیے گئے۔ جناح ہاؤس آئندہ الیکشن تک موجودہ حالت میں رکھا جائے گا تاکہ عوام کواندازہ ہو کہ ان کے رہنماؤں نے قائداعظم کی نشانی کو نذرِ آتش کر دیا‘ شہیدوں کے مجسموں کی بے حرمتی کی گئی اور میانوالی میں پاکستان ائیر فورس کے ایک نمائشی طیارے کو بھی آگ لگا دی۔ یہ ایک F-6 طیارہ تھا جسے میانوالی میں ایک یادگار کے طور پر نصب کیا گیا تھا۔اس طیارے کو غلط طور پر ایم ایم عالم کا طیارہ سمجھ لیا گیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہیرو ایم ایم عالم کے زیر استعمال ایف86 سیبر طیارہ کراچی میں ائیر فورس میوزیم میں رکھا گیا ہے۔
نو مئی کے واقعات میں ملوث لوگوں کے خلاف آرمی ایکٹ 52 کی دفعہ 59 کے تحت کارروائی کرنی چاہیے۔حکومت بھی اس کی حامی ہے‘ عدلیہ کو بھی اس میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ جس دن سے جناح ہاؤس کی شاندار عمارت برباد کی گئی ہے اس وقت سے یہ عوام کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے اور لوگ بڑی تعداد میں اس تباہی کے منظر کو دیکھ رہے ہیں۔ جناح ہاؤس کی بربادی نے فوج کی توہین کی عکاسی کی ہے اور اسے پاکستان کی افواج کے لیے 9/11 قرار دیا گیا ہے اور کور کمانڈر لاہور کو بھی فوراً ہٹا کر ان کے خلاف انکوائری کاحکم دیا جا چکا ہے۔
جب میں نے جناح ہاؤس کی تباہ شدہ عمارت کے اردگرد فوجی جوانوں کو مایوسی کی حالت میں دیکھا تو ذہن میں یہ سوالات اٹھنے لگے کہ کور کمانڈر نے مظاہرین کو عمارت میں آنے پر کیوں نہیں روکا؟ کینٹ کی پولیس کے بعض اہلکاروں نے بتایا کہ متعلقہ ایس ایچ او کے ماتحت دو تھانوں کی پولیس تھی لیکن انہیں بھی طاقت کا استعمال کرنے سے روک دیا گیا‘ جس کے بعد مظاہرین نے سڑکیں بلاک کیں اور حملے کیے۔ آرمی ایکٹ 52 کے تحت شرپسندوں کے خلاف کارروائی ہوگی جو عمارت کے اندر توڑ پھوڑ اور آتش زدگی میں ملوث پائے گئے جبکہ ایسے وطن دشمن عناصر جو عمارت کے باہر تخریب کاری میں ملوث تھے ان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کے مقدمات کے تحت کارروائی ہوگی۔
کرنل (ر) انعام الحق ایڈووکیٹ کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ کے چھ سالہ دور میں مجموعی طور پر 25 سویلینز کا کورٹ مارشل کیا گیا تھا۔ قانونی ماہرین کی رہنمائی کے لیے ان کی توجہ آرمی ایکٹ 52کی دفعہ ٹوون ڈی کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے جس میں دو ایسی گنجائشیں موجود ہیں جن کے تحت سویلینز کا ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کو فوجی کمانڈ کے خلاف بغاوت و فساد برپا کرنے کے لیے اشتعال دلانے‘ اُکسانے یا ترغیب یا تحریک دینے کا سبب بنے تو اس صورت میں فوج اس کا ٹرائل آرمی ایکٹ 52 ٹو ون ڈی کے تحت کر سکتی ہے‘چاہے ایسا کسی تقریر کے ذریعے ہی کیا گیا ہو۔ اگر فوج کے خلاف اُکسانے کا تاثر بھی ملے تو اس صورت میں بھی کسی شخص کا ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 131 کے تحت اگر کسی شخص پر مسلح افواج کے کسی اہلکار کو بغاوت پر اکسانے کا جرم ثابت ہو جائے تو اس کی سزا موت ہے‘ اس صورت میں بھی کورٹ مارشل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس قانون کے تحت مجرم کو عمر قید یا دس سال قید اور جرمانے کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی کے تحت کسی بھی سویلین کا معاملہ 31 ڈی میں لا کر اس کا کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے‘ لیکن اس کے لیے پہلے اس سویلین کے خلاف کسی تھانے میں مقدمہ کا اندراج اور مجسٹریٹ کی اجازت ضروری ہے۔
صدر مملکت پاکستان نے بھی سانحہ نو مئی کے حوالے سے عمران خان سے خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ کھل کر عسکری تنصیبات اور دیگر سرکاری عمارتوں کو نذرِ آتش کرنے پر مذمت کریں اور ملوث افراد کو سخت سزا ملنی چاہیے۔ اسی سانحہ کے ردِعمل اور عمران خان کی معنی خیز خاموشی کو دیکھتے ہوئے تحریک انصاف کے دس ارکان قومی اسمبلی نے تحریک انصاف سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے‘ جن میں ڈاکٹر محمد امجد جو نگران حکومت میں وفاقی وزیر رہ چکے ہیں اور بعد ازاں آل پاکستان مسلم لیگ کے پانچ سال صدر رہے اور عمران خان نے ان کو ڈپٹی سیکرٹری جنرل اطلاعات بنایا‘نے بھی تحریک انصاف سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک انصاف میں انصاف نام کا کوئی کردار نہیں ہے۔ چند من پسندوں نے تحریک انصاف کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ ان حالات میں آگے چل کر شاہ محمود قریشی‘ فواد چودھری اور اسد عمر ہی ایسی شخصیات ہیں جو تحریک انصاف کی متبادل قیادت کے طور پر آگے بڑھیں گی اور عمران خان چونکہ اہم مقدمات کی زد میں ہیں اور نااہلی کا بھی ان کو خطرہ ہے‘ لہٰذا پارٹی کی قیادت کے لیے متبادل قیادت کے طور پر عمران خان اپنی ہمشیرہ علیمہ خان کو آگے لانے کی سوچ رہے ہیں۔ بشریٰ بی بی کو پارٹی کی قیادت سنبھالنے میں دلچسپی نظر نہیں آتی لیکن علیمہ خان کو آگے لانے سے تحریک انصاف تقسیم ہو جائے گی۔
عمران خان کو ادراک نہیں کہ نومئی کے واقعات کے بعد قوم افواجِ پاکستان کی پشت پر کھڑی ہو گئی ہے اور اس کے نتیجے میں تحریک انصاف کے اندر تبدیلی کی ہوا چلتی محسوس ہو رہی ہے۔ مظاہروں اور نعروں کا انداز بدل چکا ہے۔ اس امر میں کلام نہیں کہ پاکستان کے عوام اپنی مسلح افواج سے بے پناہ محبت کرتے ہیں‘ تخریب کاروں کو آرمی ایکٹ 52 کی شق 59 کے تحت کورٹ مارشل کرنے پر جلد پیش رفت سامنے آنی چاہیے۔
یہ بات کسی طور پر نظرانداز نہیں کی جانی چاہیے کہ بعض امور میں تساہل تاخیر کا باعث بن جاتا ہے۔ کور کمانڈر ہاؤس واقعے میں جو بھی ملوث پایا جائے آرمی ایکٹ کے تحت سزا دینے میں کسی مصلحت سے کام نہ لیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں