"KDC" (space) message & send to 7575

انتشار کی سیاست اور سازشی منصوبہ بندی

عمران خان نے نو مئی کے سانحہ کی قومی سطح پر مذمت نہیں کی۔ ان کے کئی رہنما اہم قومی تنصیبات کو نقصان پہنچانے کے مرتکب قرارپائے ہیں۔عمران خان نو مئی کے واقعات میں ملوث نہ ہونے کی وضاحت اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں جبکہ حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ اس کے پاس پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے خلاف نو مئی کے واقعات کے ٹھوس شواہد ہیں۔ حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق عمران خان نے نو مئی کے واقعات کی پلاننگ کی اور ان کے قریبی ساتھی ان سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے عسکری تنصیبات پر حملوں کی مذمت کررہے ہیں۔اطلاعات کے مطابق انٹیلی جنس ایجنسیوں نے حکومت کو آگاہ کیا تھا کہ نو اور 10 مئی کے واقعات کی پلاننگ بہت عرصہ پہلے ہوئی تھی اور اس میں عمران خان بھی شریک تھے۔ پلاننگ تیار کرنے میں غالباًان کو بیرونی امداد کرنے والے سوشل میڈیا ایکٹوسٹس اور بلاگرز بھی شامل تھے جنہوں نے مخصوص پلاننگ کے تحت سوشل میڈیا کے ذریعے افواجِ پاکستان کے خلاف مذموم سرگرمیاں شروع کر رکھی تھیں اور سوشل میڈیا کی ٹیم جو چار سے پانچ ہزارافراد پر مشتمل تھی اور مبینہ طور پر ان کو خیبر پختونخوا‘ پنجاب اور وفاقی اداروں سے مالی امداد ملتی رہی‘ اب فواد چودھری کو بلا کر ان سے اس بارے دریافت کیا جانا چاہیے۔ اب چونکہ ان کا ضمیر جاگ اُٹھا ہے تو قوی امکان ہے کہ وہ اس پلاننگ سے پردہ اٹھا سکتے ہیں اور ان کی نگرانی میں جو بلاگرز کام کررہے تھے ان کی فہرست بھی اداروں کو فراہم کر دیں گے۔
میڈیا میں رپورٹیں آ رہی ہے کہ عمران خان نے ہدایت دی تھیں کہ ان کی گرفتاری کی صورت میں حساس اداروں کی عمارتوں کو نقصان پہنچایا جائے۔ اگر نو مئی کے واقعات کی پلاننگ زمان پارک میں ہونے کے ٹھوس شواہد مل جاتے ہیں تو تحریک انصاف کو کالعدم قرار دینے کے لیے آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے اور لیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 212 کے تحت پارٹی کو خلافِ قانون قرار دے کر ریفرنس سپریم کورٹ میں بھجوایا جا سکتا ہے۔ نو مئی کے واقعات اس قدر سنجیدہ معاملہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 17 کے مطابق کارروائی کرنی چاہیے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے جو پریس کانفرنس کرے‘ لاتعلقی کا اعلان کر ے اسے باعزت گھر بھجوادیا جائے۔
عمران خان کو دو طرح کے پارٹی رہنما لاتعلقی کا اعلان کر کے چھوڑ رہے ہیں‘ ایک وہ جو نام نہاد الیکٹ ایبلز تھے‘ جنہوں نے بہت آسانی سے ہوا کے رُخ کی تبدیلی کا اثر لیا‘اور دوسرے وہ ہیں جو عمران خان کا اصل چہرہ دیکھنے کے بعد ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ دونوں طرح کی پریس کانفرنسز اور جذبات میں خاصا فرق دیکھنے میں آ رہا ہے۔بادی النظر میں عمران خان نے 190 ملین پاؤنڈ کے سکینڈل میں اپنی اہلیہ سمیت ذاتی حیثیت میں فائدہ اٹھایا۔ عمران خان کے سینکڑوں پیغامات ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ وہ بیرون ملک چوری کی رقوم بازیاب کر کے پاکستان لائیں گے اور اربوں روپے کی رقوم عوام کی فلاح و بہبود پر لگائی جائے گی۔ قدرت نے ایسا ایک موقع عمران خان کو ان کے دورِ حکومت میں دیا کہ جب یہ 190 ملین پاؤنڈ کی رقم برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی( این سی اے) نے پاکستان منتقل کی مگر یہ 190 ملین پاؤنڈ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اکاؤنٹ میں جمع کروانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروا دیے گئے۔ وجہ بظاہر یہ تھی کہ ایک کیس میں سپریم کورٹ نے مذکورہ پراپرٹی ٹائیکون پر400 ارب روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا جو انہوں نے ادا کرنا تھا تو وہ جو 60 ارب روپے برطانیہ سے آئے‘ اس کی کابینہ سے منظوری لے کر جرمانے کی مد میں سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروا دیے گئے۔ اس کے بدلے میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے القادر ٹرسٹ کے لیے فنڈنگ حاصل کی گئی‘ یعنی وہی کام عمران خان نے بھی کیا جس کے الزامات وہ اپنے سیاسی مخالفین پر لگاتے رہے ہیں۔
حکومت ایسے حیران کن انکشاف کر رہی ہے جن سے عمران خان کے کیمپ کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ عمران خان نے شہباز گل اور اعظم سواتی کے حوالے سے جو بیانیہ عوام تک پہنچایا اسی سے عوام اور مقتدر حلقوں کے درمیان خلیج پیدا ہوئی اور جو مہم عمران خان نے شروع کی تھی اس سے ان خاندانوں کو نجی سطح پر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا‘ لیکن عمران خان اپنے مقصد میں خاطر خواہ نتائج حاصل کر چکے تھے۔اسی طرز پر اب عمران خان کے پلان کے بارے میں سرگوشیاں ہو رہی ہیں اور وزیرداخلہ نے بتایا ہے کہ عمران خان کا پلان یہ ہے کہ زیرحراست کسی خاتون رکن کی جانب سے جیل سے نکلنے کے بعد الزام تراشی کی جائے کہ اس کے ساتھ زیادتی کی گئی اور اس کی وڈیو بھی بنائی گئی۔ دوسرا پلان یہ بتایا گیا ہے کہ تحریک انصاف کی سینئر قیادت یہ سازش کر رہی ہے کہ جیل کے اندر یا جیل سے نکلنے کے بعد کسی رہنما پر قاتلانہ حملہ کروایا جائے اور الزام اداروں اور حکومتی حلقوں پر لگایا جائے‘ تیسرا پلان یہ بتایا گیا ہے کہ پولیس کے اندر کسی سہولت کار کے ذریعے ایک ایسا واقعہ کیا جائے جس سے سکینڈل اس انداز سے سامنے آئے کہ قومی اور عالمی سطح پر پریشر بڑھایا جا سکے۔ حکومت کے بقول عمران خان کی اس منصوبہ بندی کو بے نقاب کر کے پلاننگ کرنے والوں کے منصوبے کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔ اس طرح کی منصوبہ بندی کے لیے جرائم پیشہ افراد کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں اور تحریک انصاف کے بیانیے کا اگر جائزہ لیا جائے تو بعید نہیں کہ ایسا منصوبہ ان کے ذہن میں ہو اور تیاری کے ابتدائی مرحلے میں ہو‘ جسے حکومت نے ناکام بنا دیا۔ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ خفیہ اداروں نے ایک گفتگو پکڑی ہے اور گفتگو کے مطابق اس طرح کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی‘ لہٰذا یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ حساس اداروں نے ملک میں خلفشار اور انتشار کی فضا پیدا کرنے والے عناصر کو ناکام بنا دیا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کی تشکیل کے نوٹیفیکیشن کالعدم قرار دے کر کمیشن کوکارروائی سے روک دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں اعلیٰ عدلیہ کے ججز پر مشتمل تین رکنی کمیشن آڈیو لیکس کی انکوائری کے لیے حکومت نے تشکیل دیا تھا۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ حاضر سروس ججز کو کمیشن میں تعینات کرنے سے پہلے چیف جسٹس سے مشاورت ضروری تھی‘ جو کہ نہیں کی گئی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت نے سپریم کورٹ آف پاکستان کی مشاورت کے بغیر اعلیٰ ججز پر مشتمل کمیشن تشکیل دے کر ججز کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔میری رائے میں حکومت نے اس معاملے میں عجلت سے کام لیا۔ اگر وفاقی حکومت کمیشن بنانے کے لیے سپریم کورٹ کے ججز کا پینل تشکیل دینے کا کہتی اور چیف جسٹس آف پاکستان ججز کا پینل تشکیل دیتے اور حکومت اگر پینل میں کسی جج کے بارے میں مطمئن نہ ہوتی تو صوابدیدی اختیارات اور انکوائری آرڈرز کی روشنی میں سینئر ترین جج قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں کمیشن بنایا جا سکتا تھا۔ آڈیو لیکس پر انکوائری کمیشن قانون کے تحت بنا اور سپریم کورٹ آف پاکستان ہائی کورٹس کی نگرانی کرنے کی مجاز نہیں ہے اور قواعد کے مطابق فریقین کو سن کر فیصلہ کیا جانا آئین کے آرٹیکل 10Aکے مطابق ضروری ہے۔ عوام‘ سیاسی حلقے اور وکلا برادری سمیت ارکانِ پارلیمنٹ حیران ہیں کہ کمیشن کی کارروائی معطل کیے جانے سے مزید تنازعات کو ہوا ملے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں