"KDC" (space) message & send to 7575

کنونشن مسلم لیگ کا انجام اور تحریک انصاف

عمران خان کے بیشتر قریبی ساتھی اُن سے اور پاکستان تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں جس کے بعد تحریک انصاف کی حالت بھی کنونشن مسلم لیگ جیسی ہوتی جا رہی ہے۔ 25مارچ 1969ء کو جب جنرل یحییٰ خان‘ صدر ایوب خان کی سبکدوشی کے بعد برسر اقتدار آئے تو صدر ایوب خان کی جماعت کنونشن مسلم لیگ میں شامل بیشتر افراد نے جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی۔ چند ایک سیاسی رہنما ایسے تھے جو1971ء تک اس جماعت سے منسلک رہے جن میں مشرقی پاکستان کے عظیم محب وطن رہنما فضل القادر چودھری سرفہرست تھے جو 1962ء سے 1966ء تک قومی اسمبلی کے سپیکر بھی رہے اور صدر ایوب خان کے مستعفی ہونے پر کنونشن مسلم لیگ کے صدر بھی مقرر ہوئے۔ ملک محمد قاسم‘ یاسین وٹو اور چند دیگر سیاسی رہنما بھی آخری وقت تک صدر ایوب خان کے ساتھ کھڑے رہے لیکن ان کے نام نہاد لاکھوں پیروکار منظر سے غائب ہو گئے۔ خان عبدالقیوم خان‘ جو پاکستان مسلم لیگ قیوم گروپ کے سربراہ تھے اور جن کے جنرل یحییٰ خان سے گہرے مراسم تھے‘ انہوں نے جنرل یحییٰ خان کو کنونشن مسلم لیگ کا چار کروڑ روپے کا پارٹی فنڈ ضبط کرنے کا مشورہ دیا اور مارشل لاء آرڈر کے تحت کنونشن مسلم لیگ کے چار کروڑ روپے ضبط کر لیے گئے۔ پارٹی فنڈ کی ضبطی کنونشن مسلم لیگ کے لیے آخری جھٹکا ثابت ہوئی۔ انہی وجوہ کی بنا پر 1970ء کے الیکشن میں کنونشن مسلم لیگ قومی اسمبلی کی دو نشستیں ہی حاصل کر سکی۔
ملک کی سیاسی تاریخ کے پیش نظر مجھے تحریک انصاف کا انجام بھی کنونشن مسلم لیگ جیسا نظر آ رہا ہے۔ اگر قومی انتخابات اسی برس ہو جاتے ہیں تو بھی جس تیزی سے تحریک انصاف سے منسلک افراد اس جماعت سے لاتعلقی کا اعلان کر رہے ہیں‘ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف خاطر خواہ نشستیں حاصل نہیں کر سکے گی۔ 2011ء میں پاکستان تحریک انصاف کو کنونشن مسلم لیگ کی طرز پر ہی اوپر اٹھایا گیا تھا۔ اس وقت اس کی پشت پر مقتدرہ کھڑی تھی۔ بقول چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین‘ انہوں نے اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز کیانی سے اس طرزِ عمل کی شکایت بھی کی تھی۔ بعد ازاں تحریک انصاف کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی نے ستمبر 2014ء میں یہ انکشاف بھی کر دیا کہ خان صاحب کو چند نادیدہ قوتوں کی حمایت حاصل ہے۔ بطور احتجاج مخدوم جاوید ہاشمی تحریک انصاف سے علیحدہ بھی ہو گئے تھے۔
یہ حقیقت اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہی کہ جولائی 2018ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے چیئرمین کو مقتدر حلقوں کی حمایت حاصل تھی۔ جہانگیر ترین کے توسط سے 35کے لگ بھگ آزاد اراکینِ قومی اسمبلی کو تحریک انصاف میں شامل کیا گیا تھا جبکہ تحریک انصاف کی حقیقی نشستیں جن پر اُسے انتخابی میدان میں کامیابی حاصل ہوئی تھی‘ کی تعداد 110کے لگ بھگ تھی۔ اپریل 2022ء میں اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد خان صاحب کو اپنے 2011ء سے 2022ء تک کے سیاسی سفر کو مد نظر رکھتے ہوئے معتدل پالیسی اختیار کرنی چاہیے تھی اور 7اپریل 2022ء کو قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے عمل کو روکنے کے لیے اسمبلی تحلیل کرنے کے بجائے اس جمہوری عمل کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے بطور اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی میں اپنی موجودگی یقینی بنانی چاہیے تھی۔ بطور اپوزیشن لیڈر وہ نہ صرف اتحادی حکومت کو مشکل وقت دے سکتے تھے بلکہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی عوامی مسائل کے حل کے لیے کوشش کر سکتے تھے لیکن خان صاحب نے اس کے برعکس راستہ اختیار کیا اور نہ صرف تب اقتدار سے محروم ہوئے بلکہ اب اپنے اہم ساتھیوں کی رفاقت سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔
عمر ایوب خان اور گوہر ایوب خان کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے لیڈر کو ایوب خان کے انجام سے خبردار کرتے۔ دراصل خان صاحب ایسے افراد کے جال میں پھنس گئے تھے جنہوں نے انہیں مقتدر حلقوں سے ٹکراؤ کا مشورہ دیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو ادراک ہونا چاہیے تھا کہ پنجاب کا ووٹر مقتدر حلقوں سے قربت رکھنے والی شخصیات کو ہی کامیاب کراتا ہے۔ پنجاب کی ہمیشہ سے یہی روایت رہی ہے۔ آج خان صاحب اپنے اہم ساتھیوں اور مضبوط امیدواروں سے محروم ہو چکے ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ کو ایئر مارشل اصغر خان کو بھی بطور مثال مدنظر رکھنا چاہیے تھا۔ اگرچہ وہ سیاسی طور پر نظرانداز کر دیے گئے لیکن عوام میں اصغر خان کا ایک ایسا مقام‘ عزت اور احترام موجود ہے جو شاید کسی اور کو حاصل نہیں۔
دوسری طرف ماضی میں خان کے دستِ بازو رہنے والے جہانگیر ترین کو تحریک انصاف کے 70سے زائد سابق اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی کی حمایت حاصل ہو چکی ہے۔ جہانگیر ترین ملکی سیاست میں اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں۔ پنجاب کی سیاست میں اپنا اثر و رسوخ رکھنے کے ساتھ ساتھ انہیں خیبر پختونخوا کی سیاست میں بھی اہم مقام حاصل ہے اور وہ خیبر پختونخوا کے سیاسی رہنمائوں کے مرضی و منشا کے مطابق ہی اپنا لائحہ عمل طے کریں گے۔ شنید ہے کہ جہانگیر ترین نے اپنی سیاسی پارٹی کے نام کے حوالے سے مشاورت کا سلسلہ تیز کردیا ہے اور ان کی جانب سے چند روز میں پارٹی کا اعلان متوقع ہے۔ واضح رہے کہ جہانگیر ترین نے اپنی لیگل ٹیم کو پارٹی رجسٹریشن کے لیے فوری اقدامات کا ٹاسک دے دیا ہے۔ لیگل ٹیم پارٹی کے نام اور الیکشن کمیشن کو درکار تقاضے پورے کرے گی۔ رواں ہفتے قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد الیکشن کمیشن کو پارٹی رجسٹریشن کے لیے درخواست دیے جانے کا امکان ہے۔ جہانگیر ترین کو اسحاق خاکوانی کی حمایت بھی حاصل ہے جو پاکستان کے سیاسی اور بیورو کریٹک حلقوں میں جان پہچان رکھتے ہیں۔ ان حالات میں جہانگیر ترین اپنا ہوم ورک مکمل کر کے نئی سیاسی جماعت کا اعلان کریں‘ تو تحریک انصاف سے لاتعلقی اختیار کرنے والے اراکین ان کی نئی جماعت میں باقاعدہ شمولیت اختیار کر لیں گے۔ چوہدری شجاعت کی جماعت سے بھی جہانگیر ترین کا اتحاد ہو سکتا ہے۔ یہ مراحل طے کرنے کے بعد ہی وہ آئندہ انتخابات کے لیے اپنا روڈ میپ جاری کریں گے۔
اُدھر 9مئی کے سانحہ کے بعد عوام رنجیدہ ہیں۔ سیاسی ماحول کشیدہ ہو چکا ہے۔ ایسے سانحات حکومت کی کمزوری تو ظاہر کرتے ہی ہیں‘ ساتھ ہی عوام میں خوف و ہراس پھیلانے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد عسکری تنصیبات اور املاک کو نذرِ آتش کرنے والے اب قانون کی زد میں آ چکے ہیں۔9مئی کو تحریک انصاف کے چند حامیوں کی طرف سے جس شدت پسندی کا مظاہرہ کیا گیا اُس کے بعد تحریک انصاف کے اپنے رہنمائوں کاجماعت سے علیحدگی کا سلسلہ جاری ہے۔ شنید ہے کہ تحریک انصاف کے چند اہم رہنما اگلے کچھ روز میں ایک اہم پریس کانفرنس کرنے کی تیاری کر رہے ہیں جس سے خان صاحب کو سیاسی طور پر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔تحریک انصاف کے کچھ رہنما پارٹی چیئرمین کے لیے مسعود محمود ثابت ہو سکتے ہیں۔اطلاعات ہیں کہ تحریک انصاف کے مستقبل بارے قانون کے اہم پہلوؤں پر غور و فکر جاری ہے اور آڈیوز لیک سمیت وہ تمام شواہد جمع کیے جا رہے ہیں جو اس حوالے سے کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں