"KDC" (space) message & send to 7575

ریاست بنام تحریک انصاف

یہ امر قابلِ افسوس ہے کہ قومی سطح کی ایک سیاسی جماعت کی طرف سے اپنے مفادات کے لیے ریاستی اداروں کے خلاف ایک مخصوص حکمت عملی کے تحت سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت کو ابھارا گیا۔ ایجنسیوں کے پاس اُن عناصر کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں جو اس عمل میں ملوث رہے‘ جو جلد ہی عوام کے سامنے بھی رکھے جائیں گے۔عوام میں اداروں کے خلاف نفرت کے جذبات کو ابھارنے کے لیے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمزمثلاً انسٹا گرام‘ فیس بک اور ٹویٹر کا استعمال کیا گیا۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ 9مئی کے روز پیش آنے والے واقعات چیئرمین تحریک انصاف کی گرفتاری پر اچانک ردِ عمل نہیں تھے بلکہ یہ کام ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا جس کی تصدیق 9مئی کے واقعات میں ملوث افراد کی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کی گئی پوسٹوں اور 9مئی کے روز اُن کی ریکارڈ ہونے والی وڈیوز اور اس سے قبل اس کام کی منصوبہ بندی کے لیے کی گئی فون کالز سے ہوتی ہے۔آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا بھی چند روز قبل ایک پریس کانفرنس میں یہی موقف تھا کہ 9 مئی کے روز پیش آئے واقعات اچانک پیدا ہونے والے ردِعمل کا نتیجہ نہیں تھے بلکہ یہ ایک منصوبہ بندی کے تحت ظاہر کیا گیا ردِعمل تھا۔ڈاکٹر عثمان انور کے مطابق سوشل میڈیا کے ذریعے ریاستی اداروں کے خلاف ایک لمبے طرزِ عمل کے ذریعے نفرت کو ابھارا گیا۔9مئی کے روز کارکنان کو جناح ہاؤس پر حملے کے لیے اکسانے کے لیے 215 کالز کی گئیں۔یہ سب کالز ریکارڈ پر موجود ہیں اور ان سے ثابت ہوتا ہے کہ جو لوگ 8 مارچ کو زمان پارک کے باہر ہنگاموں کے ذمہ دار ہیں ‘ وہی 9 مئی کو جناح ہاؤس میں ہونے والے ہنگاموں میں بھی ملوث ہیں۔154 رابطہ نمبرز ایسے ہیں جو 8 مارچ اور 9 مئی کو استعمال کیے گئے‘ یہ وہ لوگ ہیں جو ایسے ہنگاموں کے لیے تحریک انصاف کا ہر اول دستہ ہیں ‘یہ تمام لوگ 9 مئی کوجناح ہاؤس میں موجود تھے کیونکہ ان کی جیو فینسنگ ہوچکی ہے۔گوکہ تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کو مقدمے سے ڈسچارج کر دیا گیاہے لیکن پنجاب پولیس کے مطابق انہوں نے اُس روز شرپسندوں کو ہنگامہ آرائی پر اکسانے کے لیے 41کالیں کیں جن کا ریکارڈ پولیس کے پاس موجود ہے۔ 9مئی کے روز حساس تنصیبات پر حملے ایک ہی وقت میں مکمل اور منظم پلاننگ کے تحت کیے گئے تھے۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں کے کالز ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت کور کمانڈر ہائوس سمیت دیگر رہائشی اداروں کو ٹارگٹ کیا تھا۔
اسی طرح راولپنڈی سے بھی ایسی88 کالرز کا ڈیٹا پولیس کے پاس موجود ہے جو 9مئی کے روز تحریک انصاف کی قیادت کے ساتھ رابطے میں تھے۔ان کی کالز عدالت میں بطور ثبوت پیش کی جائیں گی۔لاہور اور راولپنڈی میں ان بلوائیوں کی کارروائی کی ٹائمنگ ایک جیسی ہے اور دونوں شہروں میں ایک جیسے ریاستی ادارے ان کے اہداف تھے۔9مئی کو فیصل آباد میں بھی آئی ایس آئی کے دفتر کے باہر ایک شہید کی یادگار کو توڑا گیا‘ وہاں سے بھی ایسے 25 کالرز کا ڈیٹا پولیس کے پاس موجود ہے جو حملے کے وقت جائے وقوعہ پر موجود تھے اور تحریک انصاف کی قیادت کے ساتھ رابطے میں تھے۔آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کے مطابق 165ایسے ملزمان کی شناخت بھی ہو چکی ہے جو 9مئی کے روز توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے دوران اپنی قیادت کے ساتھ رابطے میں تھے ‘ان میں سے 37 گرفتار ہیں۔ 9مئی کے روز جناح ہاؤس کے اندر جو لوگ موجود تھے ان میں سے 101 کی شناخت ہوچکی ہے اور ان میں سے 18 گرفتار ہیں۔ 8 مارچ کے ہنگاموں میں ملوث 120 افراد کی بھی شناخت ہوچکی ہے جن میں سے 19 گرفتار ہیں۔ہنگامہ آرائی کرنے والے یہ افراد جن کے ساتھ رابطے میں تھے اُن میں سے بھی 152 کی شناخت ہوچکی ہے اور 40گرفتار ہیں۔ ان افراد کے خلاف بھی ثبوت و شواہد موجود ہیں جو عدالت میں پیش کیے جائیں گے۔پنجاب پولیس کے مطابق ہنگامہ آرائی میں ملوث ان افراد کے واٹس ایپ پر گروپ بنے ہوئے تھے۔ یہ واٹس ایپ گروپ چلانے والے 170 بندوں کی شناخت کی جا چکی ہے اور ان میں سے 11 گرفتارہیں۔ ان سب افراد کے خلاف ثبوت موجودہیں‘ انہی ثبوتوں کی بنا پر ان کی گرفتاری عمل میں لائی جا رہی ہے اور انہی ثبوتوں کی بنا پر ان کے خلاف عدالتی کارروائی جاری ہے۔ گرفتار شدگان میں 50خواتین بھی زیر حراست ہیں۔
سب کچھ کھل کے سامنے آنے کے باوجود اب بھی تحریک انصاف کا منظم سوشل میڈیاریاستی اداروں کے خلاف پروپیگنڈا جاری رکھے ہوئے ہے۔ 8مارچ اور 9مئی کے واقعات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 40افراد جاں بحق ہوئے جبکہ چیئرمین تحریک انصاف کی طرف سے بھی 25کارکنان کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا۔ بعد ازاں تحریک انصاف کی طرف سے ہلاک شدگان کے لواحقین کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہم بھی چلائی گئی جبکہ پولیس کے مطابق جماعت کی قیادت کا یہ دعویٰ حقائق کے بالکل برعکس ہے۔
پنجاب پولیس کی جانب سے جمع کیے گئے ریکارڈ کی روشنی میں حکومت آئین کے آرٹیکل17اور الیکشن ایکٹ2017ء کی دفعہ212کے تحت تحریک انصاف کے خلاف کارروائی کرنے کی پوزیشن میں ہے۔1973 ء میں نیشنل عوامی پارٹی (NAP)کو اس لیے کالعدم قرار دے دیا گیا تھا کہ مذکورہ پارٹی بلوچستان کے شرپسندوں سے رابطے میں تھی۔ اب جبکہ پولیس اور حکومت کے پاس 8مارچ اور 9مئی کے روز ہونے والی ہنگامہ آرائی اور شر پسندی کے حوالے سے تحریک انصاف کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو تحریک انصاف کے خلاف بھی ایسی کارروائی کا امکان ہے۔ 9مئی کے روز نہ صرف لاہور میں جناح ہائوس کو نذرِ آتش کیا گیا بلکہ فیصل آباد ‘ میانوالی اور راولپنڈی میں بھی آرمی تنصیبات اور املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ اب اگر وفاقی حکومت تساہل پسندی سے کام لیتی ہے یا مخصوص مفادات کے لیے اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریوں سے عہدہ برا نہیں ہوتی تو ریاست کو ناقابلِ تلافی نقصانات پہنچنے کا احتمال ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی نگران حکو متوں کوبھی چاہیے کہ وہ تحریک انصاف کے خلاف وفاقی حکومت سے آئین کے آرٹیکل17کے تحت کارروائی کرنے کی سفارش کریں۔
اُدھر قومی احتساب بیورونے 19 کروڑ پاؤنڈز کی غیر قانونی منتقلی کے کیس میں سابق وفاقی وزرا اور کابینہ کے 22 اراکین کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔اس ضمن میں نیب کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے تحت سابق وزیراعظم اور دیگر کے خلاف بحیثیت سرکاری عہدیدار ذاتی مفاد کے لیے 19 کروڑ پاؤنڈز کی غیر قانونی منتقلی میں معاونت کے لیے اختیارات کے غلط استعمال کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔اب نیب راولپنڈی نیب آرڈیننس 1999ء کے تحت مذکورہ افراد کے خلاف بدعنوانی اور کرپٹ پریکٹسز کے الزامات پر تحقیقات کررہا ہے۔نیب کی طرف سے جاری کردہ اعلامیے کے تحت ان 22افراد کی جانب سے جنوری 2018ء سے 2023ء کے عرصے کے دوران خریدی یا فروخت کی گئی گاڑیوں کی تفصیلات یا مصدقہ دستاویزات کی نقول فراہم کرنے کا کہا گیا ہے‘ مطلوبہ دستاویزات نیب راولپنڈی کے دفتر میں جمع کرانی ہوں گی۔اس کیس میں ان 22افراد کی نااہلی کے امکانات موجود ہیں۔ اس نااہلی کے بعد یہ افراد سزا کے حقدار بھی ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں