"KDC" (space) message & send to 7575

اخراجات کیسے پورے ہوں ؟

رواں برس 12اگست کو حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد‘ آئین کے آرٹیکل 224کے مطابق اگلے انتخابات اکتوبر یا نومبر میں منعقد ہونے چاہئیں۔ نگران حکومتیں 60دنوں میں انتخابات کرانے کی پابند ہوں گی بشرطیکہ الیکشن کمیشن کو آئین کے آرٹیکل (3)218 کے مطابق انتخابی ماحول میسر آ جائے۔ اب تو آئین کے آرٹیکل 232کے تحت معاشی ایمرجنسی لگانے کا وقت بھی گزر چکا ہے۔ سیاسی ماحول میں اس وقت خوب گرما گرمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔دوسری طرف ملک کی معاشی حالت تشویشناک ہے۔ بظاہر وزیراعظم شہباز شریف یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے پا گئے ہیں اور اب وہاں سے خوشخبری آئے گی لیکن اُنہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر آئی ایم ایف معاہدہ نہیں ہوتا تو پاکستانی قوم بہت مضبوط ہے‘ یعنی حکومت مبہم انداز میں یہ اشارہ دے رہی ہے کہ اگر آئی ایم ایف سے مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں تو قوم مشکل ترین معاشی حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے وزارتِ خزانہ کو یہ بجٹ آئی ایم ایف کے طے شدہ معیارات کے مطابق بنانے کا پابند بنایا تھا۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 700ارب سے زائد کے نئے ٹیکسز عائد کیے جائیں گے۔ آئی ایم ایف کی مشاورت سے ایف بی آر کے لیے آئندہ مالی سال کے لیے 9200ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
پاکستان میں عالمی مالیاتی فنڈ کی نمائندہ ایستھر پیریز روئیز کا کہنا ہے کہ اس سے قبل کہ پاکستان کا آئی ایم ایف پروگرام رواں ماہ ختم ہو جائے (جس میں تقریباً 2ارب 50کروڑ ڈالر جاری ہونا ابھی باقی ہیں) پاکستان کو اگلے مالی سال کے بجٹ کے حوالے سے فنڈ کو مطمئن کرنا ہوگا۔ توسیعی فنڈ سہولت کی میعاد ختم ہونے میں صرف تین ہفتے باقی ہیں اور حکومت کو ابھی کئی اقدامات کرنے ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے بیرونی فنانسنگ کے شعبے میں 6 ارب ڈالر پورے کرنے کی شرط کا بھی کہا گیا‘ تاہم پاکستان صرف 4 ارب ڈالرز حاصل کرنے میں کامیاب رہا جو زیادہ تر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے حاصل کیے گئے۔ ایستھر پیریز کا کہنا تھا کہ اخراجات میں اضافے سے پاکستان کے سب سے کمزور طبقے پر مہنگائی کے اثرات کم ہوں گے لیکن حکومت کو اس کے حصول کے لیے اخراجات اور آمدنی پیدا کرنے والے اقدامات کی نشاندہی کرکے اس حوالے سے پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مئی میں مہنگائی کی شرح 37.9فیصد پر پہنچ گئی تھی جو 76سال کی بلند ترین سطح تھی۔ ملک پہلے ہی معاشی بحران کا شکار ہے۔ آئی ایم ایف کے اطمینان کے لیے بجٹ میں شامل کیے جانے والے نئے ٹیکسوں کے اثرات اگلے عام انتخابات پر پڑیں گے۔ اگر قومی اسمبلی اگست میں تحلیل ہوتی ہے یا پھر ناگزیر وجوہات کی بنا پر قومی اسمبلی بجٹ کی منظوری کے بعد تحلیل ہوتی ہے تو اسمبلی کی تحلیل کے تین ماہ کے اندر اندر انتخابات کا انعقاد یقینی بنانا ہوگا۔ اس قلیل مدت میں عوام آئندہ مالی سال کے بجٹ میں شامل کیے جانے والے بھاری ٹیکسوں کو آسانی سے نہیں بھولیں گے اور اس کا بدلہ الیکشن کے روز چکائیں گے۔ لیکن الیکشن کی حتمی تاریخ کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ سپریم کورٹ نے ملک بھر میں ایک دن انتخابات کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کرتے ہوئے اپنے حکم نامے میں کہا تھا کہ ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کو باہمی مشاورت سے اتفاقِ رائے کر لینا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے دراصل الیکشن کمیشن کا 22مارچ کا فیصلہ‘ جس میں الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں ایک ہی دن الیکشن کرانے کے لیے 8 اکتوبر کا شیڈول جاری کیا تھا‘ اسے چار اپریل کو کالعدم قرار دے دیا تھا اور پنجاب اور کے پی کے گورنر صاحبان کو انتخابات کے لیے الیکشن کی تاریخ دینے کا پابند بنایا تھا۔ صدرِ مملکت کی طرف سے پنجاب میں الیکشن کے لیے 14مئی کی تاریخ کا اعلان کیا گیا لیکن اس تاریخ پر صوبے میں الیکشن کا انعقاد نہ ہو سکا۔ جس پر الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی اپیل دائر کر دی۔ اس درخواست کی سماعت فی الحال ملتوی ہے۔ ممکن ہے کہ چند روز میں اس کی سماعت شروع ہو جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ الیکشن کمیشن کے 22مارچ کے فیصلے کو بحال کرتے ہوئے ملک بھر میں 8اکتوبر کو انتخابات کے انعقاد کا حکم نامہ جاری کر دیا جائے۔
پاکستان اس وقت جس بدترین معاشی بحران کا شکار ہے اپنی 76سالہ تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ اس پر قابو پانے کے لیے دوست ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے تعاون سے اقدامات کیے گئے مگر صورت حال کہ قابو میں نہیں آ رہی اور بیرونی قرض کی ادائیگیوں کے معاملے میں ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ معاشی ماہرین کے خیال میں پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام کی اشد ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط یقینا بہت سخت ہیں لیکن معاشی ابتری پر قابو پانے کے لیے ان پر عمل درآمد کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔ اگر خدانخواستہ ملک دیوالیہ ہو گیا تو مہنگائی میں‘ جو پہلے ہی عام آدمی کے لیے سوہانِ روح ہے‘70 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے جس سے صاحب ِ حیثیت لوگ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ معاشی بحران ملک میں معاشی عدم استحکام کا براہِ راست نتیجہ ہے اور آئی ایم ایف بھی سخت ترین شرائط پوری کرنے کے باوجود اسی وجہ سے قرضہ جاری نہیں کر رہا۔ اسی لیے سیاستدانوں کو اپنی سیاست کے بجائے ریاست کے مفادات پر توجہ دینا ہو گی تاکہ معاشی ابتری دُور کرنے کی تدابیر کارگر ہو سکیں۔ معاشی بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کو بھی عملی اقدامات اٹھاتے ہوئے غیر ضروری اخراجات ختم کرنا ہوں گے۔ اس وقت پروٹوکول کے نام پر اربوں روپے کے اخراجات اُٹھ رہے ہیں۔ اگلے مالی سال میں صرف سود کی ادائیگیوں کی مد میں 7500 ارب روپے درکار ہیں یعنی ٹیکس آمدنی کا 80 فیصد سے زائد سود میں چلا جائے گا۔ حکومت 9200 ارب روپے کا ٹیکس ٹارگٹ رکھ رہی ہے مگر گیارہ ماہ میں رواں مالی سال کے 7640 ارب روپے ٹیکس ٹارگٹ میں 428 ارب روپے کا شارٹ فال ہے۔ اس بدترین معاشی بدحالی میں آئندہ عام انتخابات کیلئے تقریباً 70 ارب روپے سے زائد اخراجات بھی کرنا ہوں گے‘اُن کا انتظام کیسے ہوگا‘ حکومت کو ان تمام عوامل کو مد نظر رکھنا ہوگا۔
سانحہ 9مئی کے بعد سے جہاں اس واقعہ میں ملوث شر پسندوں کے خلاف قانونی کارروائی جاری ہے وہیں تحریک انصاف میں توڑ پھوڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پارٹی میں توڑ پھوڑ کا غصہ چیئرمین تحریک انصاف اداروں پر تنقید کی صورت میں نکال رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے اُن کی طرف سے پاکستان کے لیے امریکی فوجی امداد کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ امریکہ میں پاکستان کے خلاف کوئی بھی مہم امریکہ کو پاکستان کے اندورنی معاملات میں دعوت دینے کے مترادف ہے۔ امریکہ میں بے شمار لابسٹ فرمز موجود ہیں جو مختلف ممالک کے سیاستدانوں کے لیے لابنگ کے فرائض سر انجام دیتی ہیں۔ ماضی میں امریکی کانگرس کے اہم ارکان بشمول چند وزرا عراقی صدر صدام حسین کی پے رول پر ان کے لیے لابنگ کرتے رہے ہیں لیکن جب صدام حسین پر برا وقت آیا تو یہ سب لابسٹ منظر سے غائب ہو گئے۔ تحریک انصاف نے امریکہ میں جو چند لابسٹ رکھے ہوئے ہیں‘ وہ بھی ایسا ہی کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں