"KDC" (space) message & send to 7575

معاشی بحالی کا پلان اور ریاست

ملکی معیشت جن گمبھیر حالات سے دوچار ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اب حکومت کی طرف سے معیشت کی بحالی کیلئے ایک قومی پلان تیار کیا گیا ہے۔ مذکورہ پلان کے تحت غیرملکی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کیلئے ایک سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل قائم کی گئی ہے۔ خصوصی سرمایہ کاری کونسل کے قیام کا فیصلہ معاشی چیلنجز سے نمٹنے اور سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے کیا گیا ہے جس کا اولین ہدف براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری کو پانچ ارب ڈالر تک بڑھانا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے ملک میں سرمایہ کاری لانے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔خصوصی سرمایہ کاری کونسل کے قیام کا جو سرکاری نوٹیفیکیشن جاری کردیا گیا ہے اس کے مطابق سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل کے نام سے بنائی گئی اس خصوصی کمیٹی کا مقصد دفاع‘ زراعت‘ معدنیات‘ آئی ٹی اور توانائی کے شعبوں میں گلف کوآپریشن کونسل یعنی خلیجی ممالک سے سرمایہ کاری کے عمل کو بہتر بنانا ہے۔ یہ معاشی پلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے اور عالمی مالیاتی فنڈ کے توسیعی پروگرام کی بحالی کے امکانات معدوم ہوچکے ہیں کیونکہ یہ پروگرام 30 جون کو ختم ہو رہا ہے۔ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات بھی بڑھ رہے ہیں جبکہ دوسری جانب ملک میں سیاسی بحران بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔
اس خصوصی سرمایہ کاری کونسل کے تحت مزید کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں جن میں اولین اپیکس کمیٹی ہے جس کی سربراہی وزیراعظم خود کریں گی جبکہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو خصوصی تجویز پر اس کا حصہ بنایا گیا ہے۔اپیکس کمیٹی کے بعد ایگزیکٹو کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں وفاقی وزرا برائے دفاع‘ آئی ٹی اور توانائی کے علاوہ وزرائے مملکت برائے پٹرولیم اور امورِ خزانہ بھی شامل ہوں گے۔ان کے علاوہ صوبائی وزرا برائے زراعت‘ معدنیات‘ آئی ٹی‘ توانائی‘ امورِ خزانہ‘ منصوبہ بندی اور تمام چیف سیکرٹری بھی اس کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔تیسری سطح پر ایک عملدرآمد کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کے ارکان کی تعداد تین مقرر کی گئی ہے جن میں پاک آرمی کے ایک ڈائریکٹر جنرل‘ وزیر اعظم کے ایک معاونِ خصوصی اور کونسل کے سیکرٹری شامل ہیں۔
یہ معاشی پلان ملکی معیشت کو درست سمت میں گامزن کرنے کی بنیاد ثابت ہو سکتا ہے۔ اس پلان کے تحت حکومت زراعت‘ لائیو سٹاک‘ معدنیات‘ آئی ٹی اور توانائی کے شعبوں کی مقامی پیداواری صلاحیت اور ان میں بیرونی سرمایہ کاری بڑھانے کی خواہاں ہے۔ زراعت کا شعبہ ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ فنانس ڈویژن کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی 65سے 70 فیصد آبادی اپنی روزی روٹی کے لیے اسی شعبے پر انحصار کرتی ہے اور یہ شعبہ 38.5 فیصد لیبر فورس کو روزگار فراہم کرتا ہے جبکہ ملکی جی ڈی پی میں اس کا حصہ تقریباً 24 فیصد ہے۔ یہ معاشی بحالی منصوبہ ملکی معیشت کو یقینی طور پر مستحکم بنیادیں فراہم کرے گا کیونکہ سرمایہ کاری میں اضافے سے ملکی برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کا تو کہنا ہے کہ ملکی معیشت 2035ء تک دنیا کی ایک بڑی معیشت بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ انہوں نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ آئندہ پانچ برسوں میں ملکی برآمدات 100 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔معاشی بحالی کے اس منصوبے کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ کسی حکومت نہیں بلکہ ریاستِ پاکستان کا منصوبہ ہے‘ جس کا تسلسل حکومتیں تبدیل ہونے پر بھی جاری رہے گا۔ جس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس منصوبے کی پشت پر سول و عسکری قیادت شانہ بشانہ کھڑی ہے۔
دوسری طرف یہ بھی اطلاعات ہیں کہ حکومتِ پاکستان نے آئی ایم ایف سے معاہدے کی بحالی کیلئے امریکہ سے مدد و معاونت کی استدعا کی ہے جس پر واشنگٹن نے بظاہر سرد مہری کا مظاہرہ کیا ہے۔ پیرس میں وزیراعظم شہبازشریف کی ایم ڈی آئی ایم ایف کرسٹا لینا جارجیوا سے بھی ملاقات ہوئی ہے لیکن یہ ملاقات بھی بے سود ثابت ہوتی نظر آتی ہے۔ اگر حکومت نے اب بھی وسائل کی منصفانہ تقسیم کی کوئی پالیسی مرتب نہ کی تو آنے والا وقت مزید مشکل ثابت ہوسکتا ہے اور دیوالیہ پن کے خطرے میں بھی تیزی آسکتی ہے۔ ایسے میں ملکی معیشت کو ٹریک پر لانے کے لیے اٹھائے جانے والے سبھی اقدامات ناکامی سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
موجودہ معاشی صورتحال کے پیش نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا جائے کہ آئین کے آرٹیکل پانچ کے تحت موجودہ حالات میں انتخابات کرانے کا خطرہ مول نہ لیا جائے۔موجودہ حالات میں انتخابات کا طبل بجا تو معاشی استحکام کی منزل مزید دور ہو جائے گی۔اُدھرجمعرات کے روز سماعت کے دوران عدالت نے 9 مئی کے واقعات کے بعد گرفتار ہونے والے افراد کا ڈیٹا طلب کرتے ہوئے ملٹری کورٹس میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف فوری حکم امتناع کی درخواست مسترد کردی۔دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا کہ ملکی سلامتی کے معاملات براہِ راست آرمی کے تحت آتے ہیں‘ کیا طریقہ کار ہو گا جس کے تحت مقدمات ملٹری کورٹ کو بھیجوائے جائیں گے؟چیئرمین پی ٹی آئی‘ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ‘ معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سائٹی کی جانب سے عام شہریوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ کا سات رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے‘ جس کی اگلی سماعت پیر 26جون تک ملتوی کی گئی ہے۔یہ بینچ پہلے نوجج صاحبان پر مشتمل تھالیکن جمعہ کے روز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے بینچ سے علیحدگی اختیار کر لی اور سات رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔اب اس کیس میں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کر دیے ہیں مگر شنید ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ ہی کو ماننے سے انکار کر دے گی۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ سپریم کورٹ میں اس چارہ جوئی کا مقصد 9مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائیوں میں خلل ڈالنا اور تحریک انصاف کو سہولت فراہم کرنا ہے۔ادھر تحریک انصاف کے رہنماپرویز خٹک انکشاف کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی سیاست جلد اختتام کو پہنچنے والی ہے ‘بقول ان کے دو ماہ کے بعد تحریک انصاف کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں ہوگا‘ چیئرمین تحریک انصاف اپنی جماعت کو اَنا پرستی کی بھینٹ چڑھا چکے ہیں۔اگلے روز تحریک انصاف کے سینئر رہنما غلام سرور اور ہمایوں اختر بھی پارٹی چھوڑنے والوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ ہمایوں اختر اور ہارون اختر ملک کے سنجیدہ سیاستدان سمجھے جاتے ہیں۔ حالانکہ ہمایوں اخترنے جب تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرکے خواجہ سعد رفیق کے خلاف قومی اسمبلی کا ضمنی الیکشن لڑا تھا تو اس حلقے کے تحریک انصاف کے حامیوں نے ان کو ووٹ نہیں دیے تھے۔ ہمایوں اختر کی پارٹی میں بھی کوئی نمایاں اپوزیشن نہیں تھی۔شنید ہے کہ تحریک انصاف کے رہنمائوں نے ہمایوں اختر کو چیئر مین تحریک انصاف کے قریب نہیں ہونے دیا ‘ جبکہ جہانگیر ترین سے اختلافات کی بنا پر وہ استحکام پاکستان پارٹی میں بھی نمایاں مقام حاصل نہیں کر سکیں گے اور چودھری شجاعت حسین بھی ان کو اپنی پارٹی میں شامل نہیں کریں گے ‘ پیپلزپارٹی میں بھی ان کے لیے خاص جگہ اس وقت نظر نہیں آتی‘ لہٰذا ان کو اپنی پاکستان مسلم لیگ (ہم خیال گروپ) کو فعال کرنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں