"KDC" (space) message & send to 7575

قومی بجٹ کے الیکشن پر اثرات

وفاقی حکومت نے مزید 215ارب کے ٹیکس لگانے کی آئی ایم ایف کی شرط تسلیم کر لی ہے۔ نئے اقدامات سے مالیاتی خسارہ300ارب روپے کم اور حکومتی اخراجات میں 85ارب روپے کی کمی ہوگی۔ وفاقی بجٹ کے آئندہ انتخابات پر بھی گہرے اثرات ہوں گے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ یہ الیکشن بجٹ ہے‘ حالانکہ حکومت 12اگست سے قبل ہی تحلیل ہوجائے گی اور بیک وقت وفاق سمیت چاروں صوبوں میں انتخابات کی تاریخ مقرر ہوجائے گی اور وفاق کی سطح پر نگران سیٹ اَپ کی تشکیل آئین کے آرٹیکل 224کے تحت مکمل ہوجائے گی۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ اس بجٹ کو الیکشن سے زیادہ ترقیاتی بجٹ کے طور پر دیکھا جائے۔مگراہم سوال یہ اُٹھتا ہے کہ ترقیاتی بجٹ پر عمل در آمد کرانے کے لیے کون سی سیاسی قوت سامنے آئے گی جبکہ موجودہ حکومت12اگست کے بعد باقی نہیں رہے گی۔ الیکشن کمیشن 12اگست پر نظر یں جمائے بیٹھا ہے اور نگران حکومت ترقیاتی سکیموں پر عمل درآمد کا اختیار نہیں رکھتی۔ زمینی حقائق کے مطابق اس رائے سے کم ہی اختلاف کیاجاسکتا ہے کہ ہماری معاشی تباہی کی ذمے داری کسی اور پر نہیں بلکہ من حیث القوم ہم پر ہی عائد ہوتی ہے۔ معاشی گراوٹ کا آغاز 2008ء سے شروع ہوگیاتھا۔ صدر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں معاشی استحکام نظر آتاتھا‘ اس کے بعد آنیوالی حکومتوں نے اس کی بہتری کی بنیادی ضرورت پوری نہیں کی۔ معاشی پالیسیوں کا تسلسل اورگڈگورننس میں بہتری یا صرف اقتصادی حالات کی بہتری کا ذکر کرنا یا اس پر تنقید کرنا کافی نہیں نہ ہی یہ مسئلے کا حل ہے؛چنانچہ عوام کو بھی اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔ اس کا عملی ثبوت یہ ہوسکتا ہے کہ وہ ایسی بااختیار حکومتیں اقتدار میں لائیں جو اپنی تمام تر توانائیاں قومی اہداف کے حصول پر لگادیں۔ چین‘ جاپان‘ ترکیہ اور ملائیشیا کی مثالیں دینے سے کام نہیں چلے گا‘بلکہ وہ طریقے اپنانا ہوں گے جو وہاں کے عوام نے حکومتوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اقتصادی ترقی کیلئے اپنائے۔ اپنی سیاسی وابستگیوں سے بلند ہو کر دیکھنا ہوگا۔ پاکستانی قوم خاص طور پر نوجوانوں کو پاکستان کی معاشی بنیادوں کو مضبوط کرنے کیلئے جذباتی نعروں اور دلفریب تقاریر سے ہٹ کر ایسی پارٹیوں کے منشور کو لے کر آگے چلنا ہوگا جو پوری قوم کیلئے مشعلِ راہ ثابت ہو سکیں اورملک کی ترقی اور معیارِ زندگی میں بہتری لاسکیں۔پاکستان کی لیڈر شپ تب ہی گڈ گورننس کی طرف گامزن ہوگی جب نوجوان قیادت ان کا ہر موڑ پہ احتساب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
ہم نے اپنی تمامتر حماقتوں کے باوجود ایک جمہوری نظام کی بنیاد رکھ لی ہے جس پر عوام کو اعتماد ہے اور اب اسے ختم کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ عوام اب صرف منتخب حکومتوں ہی پر اعتماد کریں گے اور سیاسی کرپٹ لوگوں کو ووٹ کی طاقت سے شکست دیں گے‘ لہٰذا آئندہ انتخابات کے موقع پر ترقیاتی سوچ پر مبنی منشور پیش کرنا ہوگا اور عدالتی ‘ انتخابی‘ انتظامی اور آئینی اصلاحات کرنا ہوں گی۔ ضلعی سطح پر احتسابی کمیٹیاں اور یونین کی سطح پر خود احتسابی کمیٹیاں بنانا ہوں گی اور اپنے نمائندوں اور گورننس میں شامل تمام اداروں کی کارکردگی پرنظر رکھنا ہوگی۔ سیاسی جماعتوں کو مجبور کرنا ہوگا کہ پارٹی ٹکٹ دینے کیلئے یونین کونسل کی سطح پر مشاورتی بورڈ بنائیں اور یونین کونسل‘ تحصیل کونسل اور ضلع کونسل کی سفارشات پر پارٹی ٹکٹ ایوارڈ کیے جائیں۔ برطانیہ‘کینیڈا‘ بھارت‘بنگلہ دیش اور سری لنکا میں یہ طریقہ کار بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔ پارلیمانی بورڈ کا سربراہ ازخود کسی کو پارٹی ٹکٹ ایوارڈ کرنے کا مجاز نہیں اور الیکشن کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے منتخب ارکان کو اپنی اپنی کارکردگی ہر ہفتے اپنے حلقوں میں آکر عوام کے سامنے پیش کرنا لازمی ہے۔پاکستان کو موجودہ حالات میں ایک ایسی حکومت درکار ہے جسے معاشی معاملات کا ادراک ہو۔ آئندہ آنے والی حکومت کو معلوم ہو کہ بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری کے تقاضے کیا ہیں‘ ان معاملات سے کیسے نمٹا جائے اور کیسے ملک کی ترقی کو آگے بڑھایا جائے نیز سرمایہ کاروں کو ضرورت کی ہر ٹیکنالوجی فراہم کی جائے اور عوام کو ایسی پارٹیوں کے منشور کی حمایت کرنی چاہئے جو ترقیاتی منصوبے عوام کی خواہش پر شروع کریں اور انصاف ان کی دہلیز پر فراہم کریں۔قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی قائمہ کمیٹی کی طرز پر ہر یونین کونسل کی سطح پر قائمہ کمیٹی بنا کر ہر ادارے کا مقامی سطح پر احتساب کیا جائے۔
غالباًنگران حکومت کا قیام اگست کے وسط تک مکمل ہوجائے گا ‘الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت انتخابات نومبر کے پہلے ہفتے تک مکمل کرنا ہوں گے‘ بشرطیکہ ملک کے حالات الیکشن کمیشن کی پلاننگ کے عین مطابق رہے اور الیکشن کا عملہ اور ووٹرز کو مکمل اور آزادانہ طور پر پولنگ سٹیشنوں تک رسائی حاصل رہی۔ بہرحال آئندہ چند ہفتوں میں الیکشن کرانے کے ماحول کے بارے میں حقیقت آشکار ہوجائے گی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی الیکشن کمیشن کی نظرثانی کی درخواست پر اہم فیصلہ کرنا ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے سات رکنی نتیجے پر جو نوٹ لکھا ہے اس کا پیراگراف سات بھی بڑی اہمیت کا حامل معلوم ہوتاہے‘ جس میں انہوں نے تحریر کیا ہے کہ اسی بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ موجودہ آئینی درخواستوں سے ملتے جلتے امور 26مقدمات (سول پٹیشن نمبر 2019/1675)میں عدالت عظمیٰ کے سامنے پہلے سے دائر شدہ ہیں۔ یہ مقدمات عدالت عالیہ پشاور کے 17 اکتوبر 2019ء کے فیصلے کے خلاف دائر کئے گئے تھے جس فیصلے میں کہا گیا تھا کہ قید خانے اور ان کے متعلق قوانین آئین سے متصادم ہیں۔ اس فیصلے کے خلاف حکومت نے اپیل دائر کی‘ جب موجودہ مقدمے ہی کے درخواست گزار نمبر چار وزیراعظم کی حیثیت سے وفاقی حکومت کے سربراہ تھے۔ عدالت عظمیٰ نے 24 اکتوبر 2019ء کو عدالت عالیہ پشاور کے فیصلے کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا جو آج تک برقرار ہے‘ ان مقدمات کی سماعت آخری بار چار دسمبر 2019ء کو ہوئی اور اس تاریخ کا تحریری حکم یہ ہے کہ کچھ مزید دلائل سنے گئے۔ جب ایک دفعہ کسی مقدمے کی سماعت شروع ہو جائے تو پھر اس کا بلاتاخیر فیصلہ بھی ہوتا ہے لیکن ساڑھے تین سال گزرنے کے باوجود ان 26 مقدمات کو سماعت کیلئے مقرر نہیں کیا گیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا یہ نوٹ سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ کیلئے اہمیت کا حاصل ہے۔یہاں یہ کہنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی نااہلی کا کیس بھی پونے چار سال سے التوا میں ہے۔ الیکشن ٹربیونل نے اکتوبر 2019ء میں قاسم سوری کے قومی اسمبلی کے انتخاب کو کالعدم قراردیا تھا کہ قاسم سوری نے نادرا رپورٹ کے مطابق 55 ہزار جعلی ووٹ ڈلوائے جن کے انگوٹھے کے نشانات جعلی تھے۔ قاسم سوری نے سپریم کورٹ سے حکم امتناع حاصل کر لیااور ان کے کیس کی دوبارہ سماعت نہیں ہو سکی اور موصوف ابھی تک قومی اسمبلی کے رکن ہیں‘ بشرطیکہ انہوں نے استعفیٰ نہ دے دیا ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں