"KDC" (space) message & send to 7575

مردم شماری ، نوٹیفکیشن تاخیر کا شکار کیوں؟

جمعرات کی شام قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے اعلان کیا کہ موجودہ حکومت کی آئینی مدت کے خاتمے پر اگست 2023ء میں انتظام نگران حکومت کے سپرد کردیں گے۔وزیراعظم شہباز شریف کا یہ اعلان اس لیے بھی خوش آئند ہے کہ اس سے موجودہ حکومت کی طوالت کے حوالے سے موجود پیش گوئیوں کی نفی ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت کی آئینی مدت 12اگست کو ختم ہو رہی ہے اس لیے 13اگست سے قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے گی۔قومی اسمبلی کی طرح سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں بھی اگلے مہینے اپنی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد تحلیل ہو جائیں گی۔اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 57کے تحت الیکشن کی تاریخ اور دیگر مرحلہ وار پروگرام جاری کرنے کا مجاز ہوگا اوراس دوران اگر کوئی غیر معمولی واقعہ پیش نہیں آتا تو الیکشن کمیشن کی اعلان کردہ تاریخ پر قومی انتخابات منعقد ہو جائیں گے۔ اس دوران اگر نئی مردم شماری کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوتا تو اگلے عام انتخابات 2017ء کی مردم شماری کی بنیاد پر کی گئی حلقہ بندیوں پر ہی کروا دیے جائیں گے جو کہ الیکشن کمیشن پانچ اگست 2022ء کو الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 17کے تحت پہلے ہی جاری کر چکا ہے لیکن اگر قومی انتخابات کی اعلان کردہ تاریخ سے پہلے نئی مردم شماری کا حتمی گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہو جاتا ہے تو اس سے الیکشن کمیشن کا شیڈول متاثر ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں الیکشن کمیشن کو نئی مردم شماری کے حتمی نتائج کے پیش نظر نئی حلقہ بندیاں تشکیل دینا ہوں گی اور پھر قومی انتخابات کا ڈول ڈالا جائے گا۔ نئی مردم شماری کا عمل اپنی تکمیل کو پہنچ چکا ہے‘ اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ حتمی گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد ہی الیکشن کمیشن قومی انتخابات کا شیڈول جاری کرے۔ بیشتر قومی سیاسی جماعتوں کا بھی یہی موقف ہے کہ نئی مردم شماری کے حتمی نتائج کے بعد پہلے نئی حلقہ بندیاں تشکیل دی جائیں اور پھر قومی انتخابات منعقد کرائے جائیں۔ نئی حلقہ بندیوں کے لیے الیکشن کمیشن کو کم از کم چار ماہ کا عرصہ درکار ہوگا۔ یہ وہ مدت ہے جو الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیوں کی منصوبہ بندی کے لیے درکار ہے لیکن اگر نئی حلقہ بندیوں پر کسی جماعت کی طرف سے اگر کوئی اعتراض سامنے آتا ہے یا انہیں عدالت میں چیلنج کیا جاتا ہے تو اس عمل میں مزید وقت صرف ہوگا۔ اپریل 2021ء میں گزشتہ حکومت کے دورِ اقتدار میں مشترکہ مفادات کونسل میں بھی یہی فیصلہ کیا گیا تھا کہ آئندہ قومی انتخابات نئی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کے بعد ہی منعقد کرائے جائیں گے۔ نئی مردم شماری کے حتمی نتائج کے اعلان کے بعد اگر الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیوں پر کام کرتا ہے تو اسے ایسا کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل (3)51 اور الیکشن ایکٹ 2017کی دفعہ سات کو مد نظر رکھنا ہوگا۔
توقع کی جا رہی تھی کہ نئی مردم شماری کا حتمی گزٹ نوٹیفکیشن 30اپریل تک جاری کر دیا جائے گا لیکن مردم شماری کے عمل میں التوا اور اس پر اٹھائے جانے والے اعتراضات میں وقت صرف ہونے کے باعث ابھی تک حتمی گزٹ نوٹیفکیشن جاری نہیں ہو سکا۔ لگتا ہے کہ جولائی کا مہینہ بھی اسی کشمکش میں گزر جائے گا۔ مردم شماری کا عمل مئی کے وسط میں مکمل ہو چکا ہے اور اب تقریباً دو ماہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی حتمی نتائج کا اعلان نہ ہونے کے باعث مردم شماری کے عمل کی شفافیت کے حوالے سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اورایم کیو ایم کی طرف سے نئی مردم شماری کے حوالے سے پہلے ہی تحفظات کا اظہار کیا جا چکا ہے جبکہ ایم کیو ایم نئی حلقہ بندیوں کے بعد ہی الیکشن کی خواہاں ہے۔ شنید ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کی صورت میں پنجاب کی قومی اسمبلی کی چار نشستیں کم ہو کر بلوچستان اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے پاس چلی جائیں گی۔ 2017ء کی مردم شماری کے بعد بھی پنجاب کی آبادی کم ہونے کی وجہ سے پنجاب سے قومی اسمبلی کی سات نشستیں کم کرکے بلوچستان‘ خیبر پختونخوا اور اسلام آباد میں تقسیم کر دی گئی تھیں۔ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ کے لگ بھگ تھی لیکن متحدہ قومی موومنٹ نے ان نتائج کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ متحدہ قومی موومنٹ کا موقف تھا کہ کراچی کی آبادی مردم شماری کے حتمی نتائج میں ظاہر کی گئی آبادی سے زیادہ ہے۔ ان اعتراضات اور تحفظات کی وجہ سے 2018ء کے اوائل میں مشترکہ مفادات کونسل نے 2017ء کی مردم شماری کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کروانے کا فیصلہ کیا تھا لیکن بعض ناگزیر حالات کے پیشِ نظر یہ تھرڈ پارٹی آڈٹ نہ کرایا جا سکا اور اس کے بجائے آئین کے آرٹیکل (3)51 میں عبوری ترمیم کر کے یہی فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ انتخابات کے لیے از سر نو مردم شماری کروائی جائے گی۔ اپریل 2021ء میں بھی مشترکہ مفادات کونسل نے سابق وزیراعظم اور چیئرمین تحریک انصاف کی سربراہی میں یہی فیصلہ کیا تھا کہ آئندہ انتخابات نئی مردم شماری کے مطابق کرائے جائیں گے۔ اب جبکہ تاحال نئی مردم شماری کے نتائج سرکاری طورپر جاری نہیں کیے گئے ہیں تو آئندہ انتخابات میں تاخیرکا امکان موجود ہے۔ ویسے تو الیکشن کمیشن ملک میں انتخابات کے انعقاد کے لیے با اختیار ادارہ ہے اور وزیراعظم شہباز شریف بھی اپنے حالیہ خطاب میں کہہ چکے ہیں کہ اسمبلیوں کی بروقت تحلیل کے بعد بروقت انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے‘ لیکن الیکشن کمیشن کو موجودہ صورتحال میں الیکشن شیڈول جاری کرتے ہوئے نئی مردم شماری کے گزٹ نوٹیفکیشن کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا۔ مشترکہ مفادات کونسل کے 2021ء کے فیصلہ کے مطابق ملک میں دسمبر 2022ء تک نئی مردم شماری کا عمل مکمل کرکے حتمی گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا جانا تھا تاکہ الیکشن کمیشن بروقت نئی حلقہ بندیوں کی تشکیل کا عمل مکمل کرکے مقررہ مدت میں انتخابات کا انعقاد یقینی بنا سکے لیکن اس فیصلہ کے برعکس ملک میں نئی مردم شماری کا عمل شروع ہی مارچ 2023ء میں ہوا جو مختلف وجوہات کی بنا پر التوا کا شکار ہوتا ہوا وسط مئی میں تکمیل کے مرحلے تک پہنچا اور اب دو ماہ گزرنے کے بعد بھی اس کا حتمی گزٹ نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔
اگر اسمبلیاں اپنی آئینی مدت کے مطابق تحلیل ہو جاتی ہیں تو امید ہے کہ الیکشن کمیشن اگست کے تیسرے ہفتے میں الیکشن شیڈول جاری کر دے گا۔ لیکن اگر اسمبلیاں اپنی آئینی مدت سے پہلے ہی تحلیل ہو جاتی ہیں اور نوے دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کی آئینی صورتحال درپیش ہوتی ہے تو الیکشن شیڈول ستمبر کے پہلے ہفتے میں جاری ہونے کی توقع ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما نیّر بخاری کے مطابق اسمبلیوں کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے اور اس موقع پر قبل از وقت تحلیل کی طرف نہیں جانا چاہیے۔ اس حوالے سے دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہو سکتی ہے کہ جب الیکشن شیڈول کے اجرا کے بعد نئی مردم شماری کے حتمی نتائج کا اعلان کر دیا جائے۔ اس صورتحال میں الیکشن کمیشن کو اپنے شیڈول میں ردوبدل کے لیے الیکشن ایکٹ 2017کی دفعہ 58کا سہارا لینا پڑے گا۔ قومی انتخابات کا انعقاد نئی حلقہ بندیوں کے مطابق اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ صوبوں کے مابین آبادی کے تناسب سے اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم یقینی بنائی جا سکے۔
ادھرپارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کمیٹی‘ جس کے سربراہ قومی اسمبلی کے سابق سپیکر سردار ایاز صادق ہیں‘ نے الیکشن ایکٹ 2017 میں 66کے لگ بھگ شقوں میں ترامیم کا بل تیار کر لیا ہے۔ ان ترامیم کی منظوری کے بعد الیکشن کی شفافیت پر سوال نہیں اٹھایا جا سکے گا۔ ان ترامیم کے تحت الیکشن کمیشن کو بادی النظر میں آئین کے آرٹیکل 218کے مطابق مزید بااختیار بنانے کی کوشش کی جائے گئی۔ ان ترامیم میں الیکشن کمیشن کی ان تجاویز کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے جن سے الیکشن کمیشن نے ایک خط کے ذریعے وزیراعظم‘ سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو آگاہ کیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں