"KDC" (space) message & send to 7575

مردم شماری کے تنازعات اور عام انتخابات

حکومت نے دانش مندانہ فیصلہ کیا ہے کہ نئی مردم شماری کے نتائج جاری نہیں کئے جائیں گے کیونکہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نئی مردم شماری کے نتائج سے غیر مطمئن ہے۔ اب عام انتخابات کے بارے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان قومی اسمبلی اور دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد زمینی حقائق‘ امن و امان اور سیاسی محاذ آرائی کی صورتحال اور ایک اہم سیاسی شخصیت کے خلاف مقدمات کے نتائج کو دیکھنے اور اس کے عوامی ردعمل کا جائزہ لینے اور اس حوالے سے حساس اداروں کی جائزہ رپورٹ حاصل کرلینے کے بعد ہی کسی لائحہ عمل کا اعلان کرے گا۔ قومی اسمبلی کی مدت کے اختتام تک الیکشن ایکٹ میں 66 سے زائد ترامیم کے بعد جو صورتحال سامنے آئے گی الیکشن کمیشن نے اس کے مطابق ہی فیصلہ کرنا ہے۔ الیکشن ایکٹ میں ایک ترین ترمیم کے ذریعے الیکشن کمیشن کو پولنگ سٹیشنوں پر حفاظتی کیمرے نصب کرنا اور ان کیمروں کے ذریعے پولنگ سٹیشنوں کے اندر نقل و حرکت اور ووٹوں کی گنتی کے مرحلے کو بھی ریکارڈ کرنا ہوگا۔ پولنگ سٹیشنوں کے اندر پولنگ ایجنٹوں اور عملے کی حرکات کو بھی نوٹ کیا جائے گا اور اس دوران جو ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی اس کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو راؤنڈ دی کلاک متحرک کرنا ہو گا اور الیکشن کمیشن کے ٹیکنیکل نظام کو شفاف انداز میں ترتیب دینا ہو گا۔امید ہے کہ چیف الیکشن کمیشن سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے ذمہ داران اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت برقرار رکھیں گے۔ 25 جولائی 2018ء کے الیکشن نتائج پر اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر تحفظات کا اظہار کر تے تو اس کا پاکستان کے انتخابی سسٹم پر گہرا اثر پڑتا۔ تاہم موجودہ دور میں اگر الیکشن میں کوئی گڑ بڑ کی کوشش کی جاتی ہے تو قوی امکان ہے کہ چیف الیکشن کمیشن خاموشی اختیار نہیں کریں گے۔ الیکشن کمیشن نے آئندہ انتخابات کی تیاری مکمل کر لی ہے لیکن الیکشن کے لیے امن و امان کی صورتحال کو تیار کرنا صوبائی نگران حکومتوں اور وفاق کی نگران حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔ اگر الیکشن شیڈول آنے پر ملک کی امن و امان کی صورتحال تسلی بخش نہ ہوئی تو الیکشن کمیشن آف پاکستان الیکشن ایکٹ کی دفعہ 58 کے تحت الیکشن کی تاریخ تبدیل کرنے کا مجاز ہے۔ الیکشن شیڈول جاری ہونے کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو آئین کے آرٹیکل 220 اور 224 کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان کی معاونت کرنا ہو گی۔ اگرنو مئی جیسے واقعات دہرانے کی کوشش کی گئی تو ملک میں غیر معینہ مدت تک کے لیے الیکشن ملتوی بھی ہوسکتے ہیں۔آئین کا آرٹیکل 234اور254 وفاقی حکومت کو مکمل تحفظ دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔
نئی مردم شماری کے بعد الیکشن پرانی مردم شماری پر کروانے کے لیے آئین کے آرٹیکل (3)51 میں ترمیم کی ضرورت ہو گی۔مگر نئی مردم شماری کا گزٹ نوٹیفکیشن لانے کے بعد حلقہ بندیوں کے لیے الیکشن کمیشن کو چار مہینے لگیں گے‘ اس صورتحال میں اکتوبر اور نومبر میں عام انتخابات ممکن نہیں۔مگر پرانی حلقہ بندیوں کی صورت میں قومی اور دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 60 یا 90 روز میں ہوسکتے ہیں اور اقتدار کی منتقلی پرامن اور شفاف انداز میں مکمل ہو سکتی ہے۔یہ واضح بات ہے کہ نئی مردم شماری تضادات کا شکارہے۔ اس ڈیجیٹل مردم شماری کا مقصد 2017ء کی مردم شماری سے جڑے تنازعات کا خاتمہ اور شفاف طریقے سے اعداد و شمار جمع کرنا تھا‘ جس پر تمام سٹیک ہولڈرز کو اتفاق ہو اور وہ اس کے نتائج کو تسلیم کریں‘ لیکن مختلف سیاسی جماعتیں اور سماجی تنظیمیں اس کے طریقہ کار پر شدید شکوک و شبہات کا اظہار کر چکی ہیں۔ سندھ اسمبلی نے اپنے تحفظات پر مبنی ایک قرار داد بھی منظور کی تھی جبکہ ایم کیو ایم کے وفد نے وفاقی وزراسے ملاقات میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ اعداد و شمار درست کرنے کے لیے ایک جائزہ کمیٹی تشکیل دی جائے۔اگر 2017ء کی طرح دوبارہ انہی تنازعات میں گھرنا تھا تو 35 ارب خرچ کرنے کاکیا فائدہ؟متنازع مردم شماری سے35 ارب روپے کے اخراجات بظاہر ضائع ہو گئے ہیں‘ لہٰذا حکومت نے صحیح فیصلہ کیا ہے کہ نئی مردم شماری کو سرکاری طور پر نوٹیفائی نہ کیا جائے۔ نئی مردم شماری کو آئین کے آرٹیکل (3)51 کے تحت گزٹ نہ کیا گیا تو الیکشن پرانی مردم شماری اور پانچ اگست 2022ء کی حلقہ بندیوں پر ہوں گے۔
نئی مردم شماری متنازع ہو چکی ہے اس لیے وفاقی حکومت رسک لینے کی پوزیشن میں نہیں‘ کیونکہ ایم کیو ایم پاکستان اور پاکستان پیپلزپارٹی کو نئی مردم شماری پر شدیداعتراضات ہیں‘ سب سے زیادہ تحفظات تو ایم کیو ایم پاکستان کو ہیں مگر پاکستان پیپلز پارٹی جو حکومت کی اہم ترین اتحادی ہے نئی مردم شماری سے وہ بھی مطمئن نہیں۔ بلوچستان میں مردم شماری کے جو نتائج آئے ہیں ان پر بھی بڑے اعتراض ہیں۔ قومی مفادات میں نئی مردم شماری پر سب کا اتفاق رائے ضروری ہے‘ لہٰذا وفاقی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے سے پیشتر نئی مردم شماری کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کرانے کے لیے اعلیٰ سطح کا کمیشن تشکیل دے۔اس ڈیجیٹل مردم شماری نے محکمہ شماریات کی کارکردگی کی قلعی کھول دی ہے کہ 2017ء میں ہونے والی مردم شماری بھی متنازع رہی تھی اور اب ڈیجیٹل مردم شماری میں آخری مرحلہ پر جو نتائج آئے تو اس سے یہ بھی تنازعات کا شکار ہو گئی اور قوم کا35 ارب روپے کا نقصان ہو گیا۔
مردم شماری اور الیکشن کے معاملات سے ہٹ کر کچھ پنجاب کی نگران حکومت کی کارکردگی کا جائزہ بھی اس کالم میں شامل ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں قابل ذکر یہ ہے کہ ماہ محرم الحرام میں امن و امان‘رواداری‘ امن اور استحکام کو برقرار رکھنے اور فرقہ وارانہ منافرت کی حوصلہ شکنی کے لیے پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ سید محسن نقوی کی زیر صدارت یہاں حال ہی میں اتحاد بین المسلمین کمیٹی کا ایک اہم اجلاس منعقد کیا گیا ہے جس میں 70 سے زائد ممتاز علما شریک ہوئے اور مشترکہ اعلامیہ میں محرم الحرام کے دوران امن و امان کے قیام کے لیے نگران حکومت کی انتظامیہ سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ مشترکہ قرارداد میں سانحہ نو مئی کے واقعات کی بھی مذمت کی گئی ہے۔پنجاب کی نگران حکومت نے صوبے میں گڈ گورننس یقینی بنانے کی بھی پوری کوشش کی ہے اور زیر تکمیل ترقیاتی منصوبے بھی مکمل کر دیے ہیں ‘ اس طرح آنے والی حکومت کے لیے رہنما اصول بھی متعین کر دیے ہیں۔
جہاں تک سانحہ نو مئی اور اس کے ذمہ داروں کی بات ہے تووفاقی حکومت کے پاس مکمل ثبوت ہیں کہ نو مئی کے واقعات کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور یہ کرنے والے کو معلوم تھا کہ گرفتاری کی صورت میں احتجاج کیا رُخ اختیار کریں گے۔منصوبہ سازی کرنے والوں کے خلاف گھیرا تنگ ہو چکا ہے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری بھی منظرعام پر آ کر سابق وزیر اعظم کے خلاف ایسے بیانات دیں گے جن کے بعد وہ آرمی ایکٹ کے تحت گرفتار ہو سکتے ہیں۔ اس طرح سابق پرنسپل سیکرٹری ذوالفقار علی بھٹو کے دور کے ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود کا کردار ادا کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔اس گواہی کے بعدسابق وزیر اعظم کے گردقانونی کا گھیرا تنگ ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں