"KDC" (space) message & send to 7575

عام انتخابات میں تاخیر کے امکانات؟

وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک ٹی وی چینل کو انٹر ویو کے دوران عندیہ دیا ہے کہ ملک میں آئندہ انتخابات رواں سال کے دوران ہونے والی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق ہوں گے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد الیکشن نہ 60 روز کے اندر ہو سکتے ہیں اور نہ ہی 90 روز کے اندر۔وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ جب نئی مردم شماری ہوئی ہے تو انتخابات اسی کے تحت ہونے چاہئیں۔ہمیں نئی مردم شماری کے تحت ہی الیکشن میں جانا ہے‘ اس کے لیے جونہی نتائج مکمل ہوتے ہیں تو ہم اس کو مشترکہ مفادات کونسل کے پاس لے کر جائیں گے۔ الیکشن میں تاخیر کا کوئی جواز نہیں ہے اور الیکشن کا انعقاد الیکشن کمیشن کی صوابدید ہے۔اس کے برعکس تقریباً دو ہفتے قبل وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا کہ الیکشن پرانی یعنی 2017ء کی مردم شماری کے مطابق ہوں گے۔ اب وزیرِ اعظم شہباز شریف کے اس اعلان سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔ آخر دو ہفتے کے دوران ایسی کیا تبدیلیاں آئیں یا ایسے کیا حالات پیدا ہوگئے کہ حکومت کو پرانی مردم شماری کے بجائے نئی مردم شماری کے تحت الیکشن کے انعقاد کی ضرورت پڑ گئی۔مزید برآں اگر نئی مردم شماری کے تحت الیکشن ہوتے ہیں تو کیا ان کا بروقت انعقاد ممکن ہو پائے گا؟ کیا انتخابات میں تاخیر کی صورت میں نگران حکومت 90 دن سے آگے چلی جائے گی؟ کیا آئینی طور پر یہ ممکن ہو پائے گا کہ نگران حکومت کی مدت کو بڑھایا جائے؟وزیر اعظم بارہا یہ عندیہ بھی دے چکے ہیں کہ 12اگست کو حکومت کی مدت مکمل ہونے سے قبل ہی وہ اسمبلی تحلیل کر دیں گے ‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسمبلی کی تحلیل کے بعد عام انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کے پاس 90 روز کا وقت ہوگا۔ وزیراعظم نے آئندہ انتخابات نئی مردم شماری کی بنیاد پر کرانے کا عندیہ تو دے دیا ہے لیکن اتحادی جماعتیں اس حوالے سے کسی منطقی نتیجے پر نہیں پہنچیں۔
شنید ہے کہ محکمہ شماریات ڈویژن نئی مردم شماری کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرنے کے لیے مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری کا منتظر ہے۔ نئی مردم شماری مکمل ہو چکی ہے جبکہ اس ضمن میں چند روز پیشتر محکمہ شماریات کی جانب سے باضابطہ طور پر پلاننگ کمیشن آف پاکستان کو آگاہ بھی کر دیا گیا ہے‘ اس لیے بادی النظر میں یہی نظر آرہا ہے کہ موجودہ حکومت کی تحلیل کے بعد نئی مردم شماری کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق وزارتِ منصوبہ بندی نے رواں برس ہونے والی نئی مردم شماری کی منظوری کے لیے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کے لیے وزیراعظم کو سمری بھجوادی ہے کیونکہ محکمہ شماریات نے مردم شماری مکمل کر کے اس کے نتائج بھی مکمل کرلیے ہیں جنہیں اب منظوری اور یا اس حوالے سے مزید رہنمائی کے لیے مشترکہ مفادات کونسل کو بھیجا گیا ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کے لیے سرکاری سمری تیار ہونا اور پھر اسے وزیراعظم کو ارسال کیا جانا واضح کرتا ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری ہونے سے قبل ہی مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کے لیے پوری تیاری کر چکی ہے۔ قبل ازیں مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس رواں ماہ کی دو تاریخ کو منعقد کیاجانا تھا تاہم ایسا نہ ہوسکا‘ لیکن اب نئی مردم شماری کے نتائج کی منظوری کے لیے سمری مشترکہ مفادات کونسل کو بھیجے جانے کے بعد یہ اجلاس جلد منعقد ہونے کا امکان ہے۔
مردم شماری کے نتائج منظور کیے جانے سے جو امکانات پیدا ہوسکتے ہیں وہ یہ ہیں کہ یا تو ان سیاسی جماعتوں کی طرف سے جنہیں اس مردم شماری کے حوالے سے تحفظات ہیں‘ یہ نتائج تسلیم نہیں کیے جائیں گے اور انتخابات پرانی مردم شماری پر ہی ہوں گے جیسا کہ2017ء میں نئی مردم شماری ہونے کے باوجود حتمی نتائج پر تحفظات ہونے کی وجہ سے 2018ء کے عام انتخابات پرانی مردم شماری کی بنیاد پر منعقد کروائے گئے تھے۔ یا پھر یہ نتائج تسلیم کر لیے جائیں گے جس کے بعد نئی حلقہ بندیوں کا مرحلہ درپیش ہوگا اور نئی حلقہ بندیوں کے لیے کم از کم چار ماہ کا وقت درکار ہوگا‘اس صورت میں انتخابات تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں۔ لیکن نئی حلقہ بندیوں کے لیے آئین کے آرٹیکل (3)51 میں ترمیم کرنا ہوگی جوکہ اسمبلی کی تحلیل کے بعد ناممکن دکھائی دیتا ہے جبکہ حکومت اور الیکشن کمیشن چاہیں تو ایسی صورت میں عبوری آرڈر جاری ہوسکتا ہے لیکن آئینی ترمیم ممکن نہ ہوئی تو پرانی حلقہ بندیوں پر انتخابات کیلئے اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہوگا۔2018ء کے انتخابات کے لیے 2017ء کی مردم شماری کے عارضی نتائج کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ نے آئین کے آرٹیکل 51(3)میں ترمیم منظور کی تھی۔
اب تک عام انتخابات کے حوالے سے عام تاثر یہ تھا کہ یہ مرحلہ اکتوبر یا نومبر میں مکمل ہو جائے گا اور الیکشن کے بعد نئی منتخب حکومت آئندہ پانچ سال کے لیے عنانِ اقتدار سنبھال لے گی‘ لیکن اس سوال نے کہ انتخابات پرانی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر ہوں یا نئی مردم شماری کے تحت نئی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر‘ اس معاملے میں شکوک و شبہات پیدا کردیے ہیں۔میری دانست میں الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ18کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستیںمختص کرنے کے لیے خصوصی آرڈینینس کے ذریعے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اختیار دیا جاسکتا ہے اور آئین کے آرٹیکل (3)51 کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نشستیں از سر نو مختص کر سکتا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر الیکشن 6 سے 8ماہ تک مؤخر ہوسکتے ہیں کیونکہ مردم شماری کے نتائج آنے کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کا بھی آبادی کی بنیاد پر تعین کرنا آئینی تقاضا ہے۔ الیکشن کمیشن کو اسمبلی کی تحلیل کے بعد اس تمام تر صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے الیکشن شیڈول جاری کرنا چاہیے کیونکہ ایک بار الیکشن شیڈول جاری کرنے کے بعد اس میں ردو بدل مشکل ہوتا ہے۔
اُدھر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انٹرا پارٹی الیکشن کے انعقاد میں ناکامی پر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کو آج(4 اگست) کو اپنے دفتر طلب کیا ہے۔ کمیشن کے سامنے پیش ہونے میں ناکامی کی صورت میں پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کیا جاسکتا ہے۔الیکشن ایکٹ2017ء کی دفعہ208 کے تحت انٹرا پارٹی الیکشن لازم ہیں اورانٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے کی صورت میں الیکشن ایکٹ2017ء کی دفعہ214کے تحت پارٹی سے انتخابی نشان واپس لیا جاسکتا ہے۔انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے تحریک انصاف کو جاری نوٹس میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ کی پارٹی کے الیکشن 13 جون 2021ء کو ہونے تھے جس کے لیے آپ کو 24 مئی 2021ء کو نوٹس بھی جاری کیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود آپ نے انٹراپارٹی الیکشن کا انعقاد نہیں کیا۔ اس کے بعد الیکشن کے انعقاد میں ناکامی پر آپ کو 27 جولائی 2021ء کو بھی شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تھا جس پر آپ نے 24 اگست 2021 ء کو خط لکھ کر انٹرا پارٹی الیکشن کے انعقاد کے لیے ایک سال کا وقت مانگا تھا جو آپ کو دے دیا تھا۔اس کے بعد آپ کو انٹراپارٹی الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے یاد دہانیوں کے متعدد نوٹس ارسال کیے گئے لیکن آپ نے ان کا کوئی جواب نہیں دیا اور مئی 2022ء کو آخری نوٹس جاری کیا گیا جس میں واضح کیا گیا تھا کہ 13 جون 2022ء تک انٹرا پارٹی الیکشن کی تاریخ میں اب مزید توسیع نہیں ہوگی۔دیکھتے ہیں کہ کیا چیئرمین پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوتے ہیں یا پیش نہ ہونے کی صورت میں اپنی پارٹی کے انتخابی نشان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں