"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کی تاریخ کون دے گا؟

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب میں الیکشن کرانے کے تفصیلی فیصلے میں الیکشن کمیشن کے 22مارچ کے فیصلے کے حوالے سے قرار دیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابات کی تاریخ از خود نہیں بڑھا سکتا اور الیکشن کرانے سے انکار کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے اور الیکشن بروقت کرانا آئین کے آرٹیکل 218(3)کے تحت الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔25 صفحات پر مشتمل یہ تفصیلی فیصلہ چار اگست کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا گیا۔واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے30اپریل کو پنجاب میں الیکشن کے شیڈول کو تبدیل کر تے ہوئے آٹھ اکتوبر کو انتخابات کرانے کا شیڈول جاری کر دیا تھا جسے سپریم کورٹ نے چار اپریل کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پنجاب میں 14 مئی کو انتخاب کرانے کا حکم دیاتھا جس کے خلاف الیکشن کمیشن نے دو مئی کو نظرثانی کی درخواست سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چاراپریل کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دی تھی۔ حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو پارلیمنٹ میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے اختیارات کو بھی کالعدم قرار دیا گیا اور الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کے التواکے فیصلے کو ٹھیک قرار دیا گیا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی نظرِثانی کی مذکورہ درخواست مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن پر جمہوریت کو پٹری سے اتارنے کا مرتکب قرار دیتے ہوئے اور آئین کے آرٹیکل254کی تشریح کرتے ہوئے فیصلہ دیاہے۔الیکشن کمیشن کو فنڈز اور سکیورٹی کی عدم فراہمی پر عدالت میں درخواست دائر کرنی چاہئے تھی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اہم آئینی نکتہ اٹھایا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 254 کی بنیاد پر الیکشن کمیشن کا انتخابات میں التوا کا مؤقف غلط ہے۔ الیکشن کمیشن کو غیر قانونی آرڈر کے بجائے قانونی راستہ اختیار کرنا چاہئے تھا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیاہے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کرانے کا ماسٹر نہیں بلکہ وہ آئینی عضو یا ایک ادارہے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دیا جا سکا ہے کہ انتخابات کی مقررہ تاریخ کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے یا نہیں؟ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن کا فرض نہ صرف انتخابات منعقد کروانا ہے بلکہ ان کا منصفانہ اور شفاف انعقاد یقینی بنانا بھی ہے۔انتخابات کے انعقاد کے بغیر جمہوریت ایک بے معنی چیز ہے اس لیے الیکشن کمیشن انتخابات کے انعقاد سے انکار نہیں کر سکتا ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق آئین الیکشن کمیشن کی کسی خطا یا کسی فیصلے کو تحفظ فراہم نہیں کرتا جبکہ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو جانچنے کا اختیار رکھتی ہے۔فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن اور حکومتی وکلانے یہ دلیل دی ہے کہ پورے ملک میں انتخابات ایک ہی دن منعقد ہونے چاہئیں‘اگر اس دلیل کو تسلیم کر لیا گیا تو وزرائے اعلیٰ کو قبل از وقت اسمبلیاں تحلیل کرنے کے آئینی اختیار کے مقابلے میں الیکشن کمیشن کو ویٹو پاور مل جائے گی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اس فیصلہ کو فل کورٹ یا لارجر بینچ میں چیلنج کرنے کی درخواست دائر کرنے کی راہ نکالنی چاہیے کیونکہ یہی فیصلہ برقرار رہا تو14مئی کو انتخاب نہ کرانے کے آئینی اثرات سامنے آئیں گے اور الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داریوں سے نمٹنے کے حوالے سے کافی سوالات جنم لیں گے۔ سپریم کورٹ کا جو فیصلہ آیا ہے اس سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ان فیصلوں پر بھی زد پڑ ے گی جو ادارے نے پچھلے کچھ عرصہ میں لیے ہیں۔ چند روز میں موجودہ حکومت بمعہ قومی اسمبلی تحلیل ہوجائے گی تو الیکشن کمیشن کا مؤقف لے کر نگران حکومت کو اعلیٰ عدلیہ میں جانے کا استحقاق حاصل نہیں ہو گا۔ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کی روشنی میں نئی مردم شماری کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہو نے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل51(5)کے تحت نئی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کرانے کے لیے اپنا آئینی کردار ادا کیا توآرٹیکل(A) 224 اور آرٹیکل48 کے تحت الیکشن90روز میں کیسے انعقاد پذیر ہوں گے؟ کیونکہ ازسرنو حلقہ بندیوں کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو کم از کم چار سے چھ ماہ کا وقت درکار ہوگا اور قومی اسمبلی کی 266نشستیں اور صوبائی اسمبلیوں کی 593نشستوں کی حلقہ بندیاں کرانے اور بعد از اں ان پرا پیلیں سننے اور فیصلہ کرنے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلوں کے خلاف عدالتوں میں بھی اپیلیں دائر کی جائیں گی اور ان کے فیصلے آنے کے بعد ہی الیکشن شیڈول جاری ہونا ہے۔ ظاہر ہے ان زمینی حقائق کی روشنی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کون سی آئینی راہ نکالنے کی پوزیشن میں ہوگا ؟ جس آرٹیکل کے سہارے الیکشن کمیشن الیکشن کی تاریخ میں ردوبدل کرنے کی پوزیشن میں تھا اس آرٹیکل یعنی254کو ناقابلِ قبول قرار دے دیاگیا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نگران حکومتوں کو بھی آئین کے آرٹیکل 224 اور(A) 224کے دائرہ کار میں لے آئی ہے۔آئین کے آرٹیکل(5) 48کے تحت صدر مملکت وزیر اعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی کی تحلیل کر دیں گے اور اسی آرٹیکل کے تحت صدر مملکت الیکشن کی تاریخ کا از خود اعلامیہ جاری کریں گے جبکہ پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ2017کی دفعہ57میں ترمیم کر کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو الیکشن کی تاریخ متعین کرنے کے جو اختیارات تقویض کئے ہیں وہ آرٹیکل(5)48کے تحت بے اثر جائیں گے کیونکہ آرٹیکل48کی بالادستی موجود ہے جبکہ آئینی شق کے مقابل ایکٹ کی حیثیت ثانوی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان ان دنوں مختلف کیسز کے حوالے سے عدالتوں میں جو مقدمہ بازی کر رہا ہے اس معاملے میں حکومتی حلقے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن اپنے دفاع میں پریس ریلیز جاری کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ الیکشن کمیشن کے ہر فیصلے کو عدالتوں میں چیلنج کیا جارہا ہے اور الیکشن کمیشن کے وکلا کمیشن کا مؤقف عدالتوں میں پیش کر رہے ہیں جبکہ اٹارنی جنرل اور ان کی ٹیم اعلیٰ عدالتوں میں وفاقی حکومت کی پیروی کررہی ہے۔ اب چونکہ وفاقی حکومت 9اگست کو تحلیل ہوجائے گی تو الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ میں تین رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرتے ہوئے فل کورٹ کی استدعا کرنی چاہیے اور اپنے 22 مارچ اور دو مئی کے فیصلوں کا دفاع کرنا چاہئے کیونکہ اسمبلی کی تحلیل کے فوراً بعد اگر صدر مملکت نے الیکشن کی تاریخ مقرر کر دی تو پھر ملک میں عام انتخابات پر تنازع کھڑا ہوجائے گا کیونکہ پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 57 میں ترمیم کرتے ہوئے الیکشن کی تاریخ کا تعین کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن آف پاکستان کو تفویض کر دیا ہے‘ جو کہ آئین کے پر آرٹیکل (4) 48سے متصادم قرار دیا جائے گا۔بہرحال صدر مملکت ریاست کے سپریم کمانڈر ہیں‘ یقینا وہ زمینی حقائق اور آئین دونوں کو ملحوظِ خاطر رکھیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں