"KDC" (space) message & send to 7575

نگران وزیراعظم کی تقرری کا طریقہ کار

نگران وزیراعظم کی نامزدگی کے لیے جمعرات کے روز وزیراعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کے درمیان ہونے والی ملاقات بے نتیجہ ختم ہونے کے بعد جمعہ کے روز صدرِ مملکت عارف علوی نے نگران وزیراعظم کی نامزدگی کے لیے وزیراعظم شہباز شریف کے نام خط لکھ دیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے صدرِ مملکت کی جانب سے لکھے گئے خط پر تبصرہ کرتے ہوئے صدر صاحب کو آئین کی کتاب پڑھنے کا مشورہ دے دیا۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آئین میں آٹھ دن کا وقت مقرر ہے تو صدر صاحب کو خط لکھنے کی پتا نہیں کیوں جلدی تھی۔ گوکہ وزیراعظم شہباز شریف اور راجہ ریاض کے درمیان نگران وزیراعظم کی تقرری کے لیے ہونے والی ملاقات بے نتیجہ ختم ہونے کا تاثر دیا جا رہا ہے لیکن شنید ہے کہ دونوں رہنما ایک ایسے نام پر متفق ہو چکے ہیں جو ملک میں شفاف‘ غیر جانبدار اور فرسٹ ورلڈ ڈیموکریسی کے اصولوں کے تحت انتخابات کرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ الیکشن کمیشن بھی شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کے انعقاد میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گا جس کے لیے وہ ضروری تیاریاں کر رہا ہے۔ اس ضمن میں سیاسی جماعتوں کو بھی اپنی ماضی کی روش (جب وہ شفاف اور غیر جانبدارانتخابات کو بھی ہارنے کے بعد دھاندلی زدہ قرار دے دیتی تھیں)ترک کرتے ہوئے‘ اپنی شکست کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں ووٹرز کے رجحان اور ان کی رائے کو بھی مقدم سمجھنا چاہیے کیونکہ وہ اپنے ووٹ کے حق کو اپنے پورے سیاسی شعور سے استعمال کرتے ہیں۔
جمعرات کے روز وزیراعظم سے ملاقات کے بعد اپوزیشن لیڈر راجا ریاض کا کہنا تھا کہ میں نے اور وزیراعظم نے مشاورت کے دوران یہ طے کیا ہے کہ جب تک کوئی نام حتمی نہیں ہوتا اس پر بات نہیں کریں گے کہ اس نام کا کس شعبے سے تعلق ہے۔ لیکن چند نام گزشتہ کچھ روز سے میڈیا کی زینت بنے ہوئے ہیں‘ ان میں کچھ ایسے نام بھی شامل ہیں جن پر الیکشن کمیشن کو تحفظات ہیں کیونکہ الیکشن کمیشن ان کی سیاسی وابستگی سے بخوبی واقف ہے۔ نگران وزیراعظم کے لیے زیر گردش ناموں میں جلال عباس جیلانی‘ سابق وزرائے خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ اور اسحاق ڈار‘ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی‘ سابق پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد‘ سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی‘ عبداللہ حسین ہارون‘ پیر پگارو اور مخدوم محمود احمد شامل ہیں۔نگران وزیراعظم کی نامزدگی کے لیے مشاورت کا عمل آج(ہفتہ کی) رات تک جاری رہے گا کیونکہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد لیڈر آف دی ہاؤس اور لیڈر آف دی اپوزیشن کے پاس نگران وزیراعظم کی نامزدگی کے لیے تین روز کا وقت ہوتا ہے‘ اس مدت میں نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاقِ رائے میں ناکامی پر یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا جائے گا۔ سپیکر قومی اسمبلی کے زیر صدارت پارلیمانی کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کے چار‘ چار نمائندے شامل ہوں گے اور دونوں مذاکراتی ٹیمیں دو‘ دو نام پیش کریں گی۔ تین دن کے اندر یہ کمیٹی کسی ایک نام پر اتفاق کرے گی‘ اگر پارلیمانی کمیٹی بھی کوئی نام فائنل نہیں کرتی تو حتمی مرحلے میں یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا اور چاروں نام الیکشن کمیشن کو بھجوا دیے جائیں گے جس پر الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 224اور 224(اے) کے تحت 48گھنٹوں میں ان چار میں سے کسی ایک نام کو منتخب کرنے کا پابند ہو گا اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ حتمی سمجھا جائے گا۔اگر یہ معاملہ الیکشن کمیشن تک جاتا ہے تو وزیراعظم شہباز شریف کے بیان کے مطابق نگران وزیراعظم کی تقرری میں واقعی آٹھ روز لگ سکتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ پہلے کہا ہے کہ نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق ہو چکا ہے‘ ایسے ہی وزیراعظم شہباز شریف پارلیمانی کمیٹی کے مرحلے سے پہلے ہی نگران وزیراعظم کا اعلان کردیں گے۔ وفاق میں نگران حکومت کے قیام کے ساتھ ہی سندھ اور بلوچستان میں بھی نگران صوبائی حکومتیں قائم ہو جائیں گی۔
نگران حکومتوں کے قیام کا مقصد شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کا انعقاد یقینی بنانا ہوتا ہے جس کے لیے نگران وزیراعظم‘ چاروں صوبوں کے نگران وزرائے اعلیٰ اور کابینہ کا غیر جانبدار اور غیر سیاسی ہونا ضروری ہوتا ہے۔ خیبر پختونخوا کی نگران کابینہ کی واضح سیاسی وابستگی اور سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات کی وجہ سے نگران سیٹ اَپ کی تاریخ میں پہلی بار خیبر پختونخوا کی نگران کابینہ مستعفی ہو چکی ہے اورنگران وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اعظم خان کے بعد گورنر خیبر پختونخوا نے بھی نگران حکومت کے وزرا‘ مشیروں اور معاونین کے استعفے منظور کرلیے ہیں جس کے بعد یہ کابینہ تحلیل ہوگئی ہے۔ صوبائی کابینہ تحلیل ہونے پر وزیراعلیٰ نئی کابینہ تشکیل دیں گے۔واضح رہے کہ جمعرات کے روز وزیراعلیٰ نے الیکشن کمیشن کے اعتراضات کے بعد نگران کابینہ کو ختم کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے وزرا سے استعفے طلب کیے تھے‘ 19 وزرا نے فوری استعفے دے دیے تھے بقیہ نے گزشتہ روز استعفے ارسال کیے ۔
اُدھر الیکشن کمیشن نے آئندہ عام انتخابات کیلئے پالیسی روڈمیپ تیار کر لیا ہے۔ پہلے مرحلے میں از سر نو حلقہ بندیاں کرانے کے بعد نئی مردم شماری کے ڈیٹا کو مدنظر رکھتے ہوئے انتخابی فہرستوں پر بھی نظرثانی کی جائے گی کیونکہ محکمہ شماریات نے تکنیکی بنیادوں پر وارڈز سرچارج اور مردم شماری کے مطابق بلاک بھی تبدیل کر دیے ہیں جب کہ الیکشن کمیشن نے جو انتخابی فہرستیں مرتب کرکے ان کا نوٹیفکیشن کر دیا تھا‘ نئی مردم شماری کی منظوری کے بعد وہ بھی تبدیل ہو جائیں گی۔ اس لیے الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیوں کے بعد نئی انتخابی فہرستیں بھی بلاک اور سرچارج کو مدنظر رکھتے ہوئے بنانا ہوں گی جس کیلئے کم سے کم ایک ماہ کا عرصہ درکار ہوگا۔ اس سارے عمل کا اگر جائزہ لیا جائے تو انتخابات فروری 2024ء میں ہی ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
ہمارے ہاں اشرافیہ کا لفظ معاشرے کے ایسے طبقے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کا وسائل پر کنٹرول ہوتا ہے اور وہ انہیں گروہی مفادات کے بجائے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ ہمارے عوامی نمائندے بھی اسی اشرافیہ کا حصہ ہیں۔انہیں عوام کی فلاح و بہبود اور ترقیاتی پروگراموں کے لیے اربوں کے فنڈز جاری کیے جاتے ہیں لیکن وہ عوام سے ٹیکسوں کی صورت اکٹھا کیا جانے والا یہ پیسہ اُنہی پر خرچ کرنے کے بجائے ٹھیکوں کی مد میں اپنی یا اپنے رشتہ داروں کی جیبوں میں ڈال لیتے ہیں۔ قومی اسمبلی کی تحلیل سے قبل بھی ترقیاتی فنڈز کے نام پر ملکی وسائل کی ایسی بندر بانٹ کی گئی جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بیوروکریسی بھی ان فنڈز سے اپنا حصہ وصول کرے گی۔ ان ترقیاتی فنڈز کا درست استعمال یقینی بنانے کے لیے ایک کام یہ کیا جا سکتا ہے کہ ارکانِ پارلیمنٹ ان جاری شدہ فنڈز کی تفصیلات آئندہ انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے جانے والے کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ لف کریں کہ کس رکن کو کتنی رقم ملی اور اسے کس کس منصوبے پر خرچ کیا گیا۔ اس طرح قوم کو بھی تسلی رہے گی کہ ان کے خون پسینے کی کمائی واقعی انہی پر خرچ کی جا رہی ہے۔ نہ صرف موجودہ بلکہ سابقہ ادوار میں جاری کیے جانے والے ترقیاتی فنڈز کی تفصیل بھی حاصل کی جائے۔ ملک میں ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کا سلسلہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی اسمبلی سے شروع ہوا تھا جوکہ آج تک جاری ہے لیکن اب آئندہ انتخابات کے بعدارکانِ پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز کے نام پر رشوت دینے کا یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں