"KDC" (space) message & send to 7575

نگران وزیر اعظم ، انتخابات اور صدارتی اختیارات

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ 2023کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ نے یہ ایکٹ اختیارات سے تجاوز کر کے بنایا ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ریویو آف ججمنٹس ایکٹ کے مقدمے کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اسے آئین سے متصادم قرار دیا۔سپریم کورٹ نے 19 جون کو ریویو آف ججمنٹس ایکٹ سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے جمعے کے روز جاری کیا گیا‘ جب ایک روز پہلے قومی اسمبلی تحلیل ہوئی تھی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے اپنے متفقہ فیصلے میں اس ایکٹ کو کالعدم قرار دیا ہے۔اس فیصلے کے بعد خیال کیا جاتا ہے کہ مستقبل قریب میں مقننہ اور عدلیہ کے درمیان کشیدگی نظر آسکتی ہے اور اگر ایسے حالات پیدا ہوئے تو آئندہ ہونے والے انتخابات پر بھی ان کا گہرا اثر پڑسکتا ہے۔ اگر عدلیہ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی استدعا منظور کرتے ہوئے جوڈیشل آفیسرز کی خدمات الیکشن کمیشن کو دیں تو آئندہ کے انتخابات میں ریٹرننگ آفیسرز خودمختار ہوں گے اور الیکشن کمیشن کا عمل دخل کمزور پڑ جائے گا اور عدلیہ سے مستعار لیے ہوئے آفیسرز بیورو کریسی کو بھی تابع رکھیں گے اور ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کرانا بھی ان کا اوّلین فرض ہو گا۔اس طرح پولنگ سٹیشنوں پر ہنگامہ آرائی کا امکان نہیں رہے گا اور افواجِ پاکستان کے جوان بھی امن و امان کو خوشگوار رکھیں گے اور نتائج کی ترسیل میں بھی رکاوٹ پیدا نہیں ہو گی۔ پولنگ کا عملہ بھی ڈسکہ رپورٹ کے آنے کے بعد محتاط ہو چکا ہے اور صوبے کے چیف سیکرٹری بھی محتاط رہیں گے۔ وفاق کی سطح پر سب سے اہم انتخابات پنجاب میں ہی ہونے ہیں‘ پنجاب کی 141 نشستوں کے حصول کے لیے انتخابی مقابلوں کا سماں نظر آئے گا۔ مگر یہ کام خوش اسلوبی سے انجام پائے گا کیونکہ وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کا پنجاب کا انتظامیہ پر کنٹرول ہے اور ان کی کابینہ کے ارکان بھی متحرک ہیں۔ ان کی کسی سیاسی جماعت سے وابستگی بھی نہیں۔ موجودہ حالات میں پنجاب کی نگران حکومت جس کا میں بھی حصہ ہوں مکمل طور پر آزاد اور شفاف انتخابات پر یقین رکھتی ہے۔حال ہی میں الیکشن کمیشن کے حکم پر خیبر پختونخوا کی کابینہ تحلیل ہو گئی ہے۔ وفاق‘ سندھ اور بلوچستان پر اس کے بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور انتظامیہ اور وزرا محتاط ہو جائیں گے۔ الیکشن ایکٹ میں حالیہ اہم ترامیم سے بھی الیکشن کمیشن کو مزید بااختیار کر دیا گیا ہے؛چنانچہ اب لگتا ہے کہ اگر کسی بیورو کریٹ کو کرپٹ پریکٹس کے تحت سرزنش کی گئی تو اس کا مستقبل مشکوک ہو جائے گا اور یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ بیورو کریٹس کسی بااثر سیاسی شخصیت کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے مستقبل کے سفر پر دھیان رکھتے ہیں اور وعدہ معاف بننے میں بھی عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ لہٰذا تمام سیاسی جماعتیں مطمئن رہیں الیکشن صاف شفاف ہی ہوں گے‘ عوام کو بھی کسی قسم کے شبہات کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان میں یوٹیوب کے چینلز نے جو جال بچھایا ہوا ہے اور لوگوں نے اسے اپنی کمائی کا ذریعہ بنا کر عوام میں غلط معلومات اورمن گھڑت خبریں پھیلاکر عوام کو گمراہ کرنے کی جو مہم شروع کر رکھی ہے‘ عوام کو چاہیے کہ ان یوٹیوب چینلوں کے پراپیگنڈے کو بھی مسترد کر دیں۔پاکستان کی نگران حکومت کو بھی قدم اٹھانا پڑے گا کہ الیکشن کے حوالے سے بدگمانیاں پیدا کرنے والوں پر نظر رکھی جائے۔ 18 فروری 2008ء کے الیکشن میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے میری سفارشات‘ جو میں نے کامن ویلتھ سیکرٹریٹ کے تعاون سے تیار کی تھیں‘ کی بنیاد پر میڈیا کے لیے مثالی ضابطہ اخلاق تیار کیا تھا اور اس وقت کے سیکرٹری وزارت اطلاعات و نشریات نے مکمل طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی معاونت کی تھی۔موجودہ حکومتی مشینری کو بھی یہی کرنا چاہیے کہ ان معاملات میں الیکشن کمیشن کی مدد کریں۔
بہرحال حالات حاضرہ کی اس وقت سب سے اہم خبر تو نگران وزیراعظم کی نامزدگی ہی ہے۔ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ آج حلف بھی اٹھالیں گے۔ وہ پرانے سیاسی کارکن ہیں اوران کی شخصیت بھی غیر متنازع ہے‘ لہٰذاوہ پی ڈی ایم کی اس شرط پر پر پورا اترتے ہیں کہ نگران وزیراعظم کو سیاستدان ہونا چاہیے۔وہ 2018ء میں آزاد حیثیت میں سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ انہوں نے بلوچستان عوامی پارٹی (BAP)کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کیا اور اس پارٹی کے ترجمان بھی رہے۔کہا جاتا ہے کہ جب بلوچستان اسمبلی میں وزیراعلی جام کمال کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی میں اختلافات پیدا ہوگئے تو انوار الحق کاکڑ نے صادق سنجرانی اور عبدالقدوس بزنجو کی بجائے جام کمال کا ساتھ دیا تھا۔ کوئٹہ کے صحافتی حلقوں کے مطابق انوار الحق کاکڑ کا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے ہے اور وہ ایک تعلیم یافتہ شخص ہیں اور اچھے مقرر بھی ہیں۔ان خوبیوں کی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ انوارالحق کاکڑ کو نگران وزیر اعظم کے عہدے کے لیے رائٹ پرسن فار رائٹ جاب‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔
نگران وزیر اعظم کا آج حلف ہو جانے کے بعد قوی امکان ہے کہ صدرمملکت آئین کے آرٹیکل 48(4)کے تحت نگران وزیراعظم اور الیکشن کمیشن کو الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کے حوالے سے صدارتی حکم پر مبنی خط لکھیں گے۔چونکہ حکومت عبوری دور سے گزر رہی ہے لہٰذا صدرِ مملکت اپنا آئینی حکم جاری کریں گے۔ اگرچہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 57 میں سابق حکومت کی کروائی گئی ترامیم کے بعد الیکشن کا شیڈول جاری کرنے کے اختیارات الیکشن کمیشن کو منتقل ہو چکے ہیں لیکن ایکٹ کی دفعہ اور آرٹیکل میں واضح فرق ہے اور اسے مد نظر رکھنا ہو گا کیونکہ آرٹیکل کی بالادستی برقرار رہتی ہے جب تک کہ آرٹیکل میں ترمیم نہ کی جائے۔
صدر مملکت اپنی قانونی ٹیم سے مشورہ کر رہے ہیں اور ان کی قانونی ٹیم میں پاکستان کے اعلیٰ پائے کے وکلا شامل ہیں جن میں چند ریٹائرڈ ججز بھی ہیں۔ چونکہ سینیٹ میں اب حکمران اور اپوزیشن کی تمیز ختم ہو گئی ہے‘ لہٰذا صدر مملکت کے صدارتی فرمان کی گونج سینیٹ میں بھی سنائی دے گی اور نگران حکومت کو چونکہ عوامی تائید حاصل نہیں ہو گی لہٰذا ملک میں نگران حکومت کے قیام کے بعد آئینی بحران ابھرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ نگران وزیراعظم کو ملک کے معاشی امور کا بھی جائزہ لینا ہو گا۔ اگر ان کی کابینہ کے ارکان نے معاشی بدحالی‘ مہنگائی اور عوام کے دیگرروزمرہ کے مسائل کی طرف توجہ نہ دی تو اس کے اثرات پولنگ والے دن نظر آ جائیں گے‘ لہٰذا نگران وزیراعظم کو انتہائی مؤثر صلاحیتوں کا حامل ثابت ہونا چاہیے۔ عبوری وزیراعظم جو آئین کے آرٹیکل 94 کے تحت روزمرہ کے معاملات کو نمٹنانے کی قانونی اختیارات رکھتے ہیں ان کو کسی عدالت کے فیصلہ پررائے زنی کرنے سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ اگر سینیٹ میں اتحادی جماعت کے سینیٹروں نے نوٹس لے لیا تو ان کے لیے اپنا دفاع مشکل ہو جائے گا‘ نگران سیٹ اَپ کے بعد بطور سابق وزیراعظم وہ کسی بھی مسئلہ پر اظہارِ خیال کر سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں