گزشتہ قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات فروری 2024ء میں کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ دعویٰ کرتے ہوئے وہ اتنے پُر اعتماد تھے کہ انہوں نے پروگرام کے میزبان سے کہا کہ آپ کاغذ پنسل لے کر میری بات لکھ لیں کہ 17فروری سے ایک ہفتے پہلے یا 15فروری کے ایک ہفتے بعد الیکشن ہو جائیں گے۔ دورانِ انٹر ویو اُن کا کہنا تھا کہ پہلے یہی کہا جا رہا تھا کہ انتخابات کو التوا کا شکار کیا جائے مگر اب 15روز قبل فروری میں الیکشن کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں کیونکہ اگر انتخابات اکتوبر یا نومبر میں ہوتے تو نواز شریف اب تک پاکستان واپس آچکے ہوتے۔ راجہ ریاض ایک قابلِ احترام پارلیمنٹیرین ہیں‘ لیکن ان کے اس بیان کے بعد کچھ حلقے مقتدرہ کی طرف انگلیاں اٹھا رہے ہیں جبکہ مقتدر حلقے پہلے ہی دو ٹوک انداز میں سیاست میں عدم مداخلت کی پالیسی واضح کر چکے ہیں۔الیکشن کمیشن ان کے اس بیان کو کمیشن کے اختیارات میں مداخلت قرار دے کر ان سے وضاحت بھی طلب کر سکتا ہے کیونکہ الیکشن کا انعقاد صرف الیکشن کمیشن کا صوابدیدی اختیار ہے اور آئین کے آرٹیکل (3)218 کے تحت الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار بھی الیکشن کمیشن ہی کے پاس ہے۔
مشترکہ مفادات کونسل سے نئی مردم شماری کی منظوری کے بعد نئی حلقہ بندیوں کا مرحلہ درپیش ہے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 51کے تحت الیکشن آخری شائع شدہ مردم شماری کے مطابق ہوتے ہیں لیکن چونکہ مشترکہ مفادات کونسل نے یہ فیصلہ اُس وقت کیا جب اسمبلی کی تحلیل میں چند روز ہی باقی تھے‘ اس لیے الیکشن کمیشن بھی تذبذب کا شکار ہے ۔ الیکشن کمیشن کے سامنے اب دو آپشنز ہیں کہ یا تو آئین کے آرٹیکل 51پر عملدرآمد کرتے ہوئے نئی مردم شماری کی منظوری کے بعد نئی حلقہ بندیاں کرے جس میں کم از کم چار ماہ کا عرصہ درکار ہے اور پھر نئی حلقہ بندیوں پر ہی آئندہ عام انتخابات کروائے یا پھر آئین کے آرٹیکل 224کے مطابق 90روز میں الیکشن کا بروقت انعقاد یقینی بنانے کے لیے پرانی حلقہ بندیوں پر ہی الیکشن کروا دے۔الیکشن کمیشن ان آئینی شقوں کا تو پابند ہے لیکن مشترکہ مفادات کونسل کا پابند نہیں ہے۔
اصولی طور پر محکمہ شماریات ڈویژن کو نئی مردم شماری کا عمل گزشتہ سال مکمل کر لینا چاہیے تھا تاکہ 31 دسمبر 2022ء تک گزٹ نوٹیفیکیشن لازمی طور پر جاری کردیا جاتا کیونکہ مارچ 2021ء کے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں یہی فیصلہ ہوا تھا کہ نئی مردم شماری کا گزٹ نوٹیفیکیشن31 دسمبر 2022ء تک جاری کر دیا جائے گا تاکہ آئندہ عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے لیے نئی حلقہ بندیوں کا کام بروقت مکمل کر لیا جائے لیکن الیکشن کمیشن31 دسمبر 2022ء تک مردم شماری کا عمل شروع ہی نہ کروا سکا تو اس تاریخ تک گزٹ نوٹیفیکیشن کیسے جاری کر سکتا تھا۔ پھر جب رواں برس 20فروری کو پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کا عمل شروع ہوا تو ادارۂ شماریات کی طرف سے کہا گیا کہ 30اپریل تک مردم شماری کا گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کر دیا جائے گا لیکن صوبوں کے تحفظات کی وجہ سے مردم شماری کا عمل 20مئی کو ختم ہوا اور پھر حتمی گزٹ نوٹیفیکیشن کا انتظار کیا جانے لگا لیکن یہ نوٹیفیکیشن مشترکہ مفادات کونسل کے پانچ اگست کو منعقد ہ اجلاس میں نئی مردم شماری کی منظوری کے بعد جاری کیا گیا۔ مردم شماری پر 35ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود بروقت گزٹ نوٹیفیکیشن جاری نہ ہونے کی صورت میں الیکشن کمیشن اب اس مخمصے میں ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کی آئینی شق پوری کرے یا مقررہ مدت میں انتخابات کے انعقاد کی۔
الیکشن کمیشن اگرپرانی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر انتخابات کرانے کا فیصلہ کرتا ہے تو یہ آئین کے آرٹیکل 51کی شق پانچ سے انحراف نہیں تصور کیا جائے گا جس کے مطابق الیکشن نئی مردم شماری کے تحت نئی حلقہ بندیوں پر کروانا ضروری ہے کیونکہ آرٹیکل (5)51 پر عملدرآمد کے لیے آئین کے آرٹیکل (3)51پر بھی عملدرآمد ضروری ہے جس کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کے بعد قومی اسمبلی کی نشستوں میں رد و بدل کے لیے آئین میں ترمیم لازمی ہے لیکن چونکہ اس وقت کوئی منتخب قومی اسمبلی موجود نہیں‘ اس لیے ایسی کوئی ترمیم بھی نہیں ہو سکتی لیکن اگر صرف آئین کے آرٹیکل (5)51 پر ہی عملدرآمد ہوتا ہے تو پھر ایک نیا پنڈورا باکس کھل جائے گایعنی اگر نئی حلقہ بندیوں کو آئین میں ترمیم کے بغیر لاگو کیا جاتا ہے تو یہ بھی کوئی قابلِ قبول صورت نہیں ہوگی‘ اگراس راہ پر چلنے کی کوشش کی گئی تو بھی انتخابات کے التوا کا خدشہ ہے۔ اس صورتحال کے تناظر میں الیکشن کمیشن اپنے آئینی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے مقررہ مدت میں الیکشن کے انعقاد کے لیے اگست 2022ء میں جاری کی جانے والی حلقہ بندیوں پر الیکشن کروا سکتا ہے۔2018ء کے عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے لیے بھی وہ الیکشن پرانی حلقہ بندیوں پر کرائے گئے تھے۔
اُدھر الیکشن کمیشن نے میڈیا پر قبل و بعد از انتخابات ایگزٹ اور انٹری پول دونوں کی تشہیر پر پابندی عائد کر دی ہے۔ایگزٹ پول پولنگ سٹیشنوں سے نکلنے والے ووٹرز کی رائے پر مبنی سروے کو کہا جاتا ہے جس میں یہ پوچھا جاتا ہے کہ انہوں نے ووٹ کسے ڈالا‘ اسی طرح لوگوں کے ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ سٹیشنوں میں داخل ہونے سے قبل ان کی ووٹ سے متعلق رائے پوچھنا انٹری پول کہلاتا ہے۔آئندہ عام انتخابات کے لیے جاری ضابطہ اخلاق میں الیکشن کمیشن نے کسی بھی پولنگ سٹیشن یا حلقے میں کسی بھی قسم کے ایسے سروے پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے جو ممکنہ طور پر ووٹرز کے ووٹ ڈالنے کے آزادانہ انتخاب کو متاثر کر سکتا ہے۔ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی پرنٹ‘ الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم کسی امیدوار یا سیاسی جماعت سے بامعاوضہ سیاسی اشتہار قبول کرتا ہے تو وہ قانون کے مطابق سیاسی جماعت یا امیدوار کی جانب سے کیے گئے اخراجات کی تفصیلات الیکشن کمیشن آف پاکستان کو فراہم کرے گا۔ضابطہ اخلاق کے مطابق ایسے الزامات اور بیانات کو جو قومی یکجہتی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور انتخابی مہم کے دوران یا پولنگ کے روز امن و امان کی صورتحال خراب کر سکتے ہیں‘ انہیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اور کسی بھی میڈیا پرسن‘ اخبار‘ چینل‘ ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونیوالے افراد یا اداروں کے آفیشل اکاؤنٹ پر چلانے سے سختی سے گریز کیا جائے گا۔ ضابطہ اخلاق کی کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں الیکشن کمیشن متعلقہ حکام کو مناسب کارروائی کرنے کی سفارش کر سکتا ہے۔نگران وفاقی حکومت اور نگران صوبائی حکومتوں کے پاس الیکشن میں التوا کا ویسے ہی کوئی جواز موجود نہیں ہے لیکن ملک کو درپیش حالات کے پیش نظر انہیں الیکشن میں التوا کیلئے مصلحتاً بھی کوئی کردار ادا نہیں کرنا چاہیے بلکہ جس مقصد کیلئے وہ وجود میںآئی ہیں‘ الیکشن کمیشن کی اس کے حصول میں معاونت کرنی چاہیے۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو عام انتخابات سے پہلے تمام پیچیدہ معاملات حل کرنے کی ہدایت جاری کر دی ہے جبکہ حلقہ بندیوں کو شفاف بنانے کی بھی خصوصی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ دراصل کوئی بھی امیدوارحلقہ بندیوں کی بنیاد پر ہی انتخابی دنگل میں داخل ہوتا ہے ۔یہ بڑا حساس معاملہ ہے کیونکہ حلقہ بندیوں میں تبدیلی کے بعد امیدواروں کا ووٹ بینک متاثر ہوتا ہے۔ سندھ کو حلقہ بندیوں پر ہمیشہ سے اعتراض رہا ہے۔جب جب ملک میں نئی حلقہ بندیاں ہوئیں‘ سندھ سے ان پر اعتراضات اٹھائے گئے جنہیں دور کرنے میں مزید وقت صرف ہوا۔ اب بھی اگر نئی حلقہ بندیوں کے بعد ان پر اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں تو انہیں دور کرنے میں مزید وقت صرف ہو گا اور اس صورت میں انتخابی عمل مزید تاخیر کا شکار ہو گا۔