"KDC" (space) message & send to 7575

حلقہ بندیوں اور فہرستوں پر نظر ثانی ‘ قانونی تقاضا

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نئی حلقہ بندیوں سے متعلق تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ نئی مردم شماری کے بعد آبادی میں بڑے پیمانے پر تبدیلی ہوئی ہے۔الیکشن کمیشن کے مطابق 2023ء میں تازہ مردم شماری کے باضابطہ طور پر نوٹیفائی ہونے والے نتائج کی بنیاد پر آئندہ عام انتخابات سے قبل نئی حلقہ بندی کرنا قانون کا لازمی تقاضا ہے۔مردم شماری کے نتائج نوٹیفائی ہونے کے بعد حلقہ بندی کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کئے گئے تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل (3)218 کے تحت فرائض کی تکمیل کو یقینی بنانے اور آئین کے آرٹیکل (2)17 کے مطابق ووٹروں‘ سیاسی جماعتوں اور انتخابی امیدواروں کی حقیقی نمائندگی اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے نئی حلقہ بندی ضروری ہے تاکہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات یقینی بنائے جاسکیں۔الیکشن کمیشن کے حکم نامے کے مطابق الیکشن ایکٹ 2017 کا سیکشن (2)17 یہ کہتی ہے کہ الیکشن کمیشن باضابطہ طور پر نوٹیفائی ہونے والی ہر مردم شماری کے بعد حلقہ بندی کروانے کا پابند ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ آئین کے آرٹیکل (8)218 کے تحت کیا گیا ہے کیونکہ آبادی میں اضافہ کی وجہ سے اضلاع کی سطح پر حلقوں کی آبادی تبدیل ہوئی ہے۔ ساتویں مردم شماری کے بعد 20 ہزار سے زائد نئے بلاکس بڑھے ہیں اور کچھ میں تبدیلیاں ہوئیں اور مردم شماری کے بعد ووٹر لسٹوں میں نئے ووٹروں کو شامل کرنا بھی ضروری ہے‘ جبکہ ووٹرلسٹ میں ووٹ کے حق داروں کا اندراج الیکشن کمیشن آف پاکستان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے ماضی کے اہم ترین فیصلوں میں بھی یہ واضح کیا گیا تھا کہ نئی حلقہ بندیوں اور تازہ ترین انتخابی فہرستوں کے بغیر پارلیمنٹ میں حقیقی نمائندگی ممکن نہ ہو گی۔ان میں حاجی سیف اللہ خان بنام فیڈریشن آف پاکستان کیس جوکہ پی ایل ڈی1989 میں رپورٹ کیا گیاہے‘ قابلِ ذکر ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں بھی انتخابات سے پہلے غلطیوں سے پاک انتخابی فہرست اور تازہ ترین حلقہ بندیاں ضروری ہیں کیونکہ آئین کے آرٹیکل (3)218 میں مذکور انتظامات صرف ڈی آر اوز‘ آر اوز‘ اے آر اوز کے تقرر اور بیلٹ پیپرز کی چھپائی تک محدود نہیں بلکہ اس میں آرٹیکل (اے)2I9 کے مطابق تجدید شدہ انتخابی فہرستوں کی تیاری اور حلقہ بندی بھی شامل ہے جبکہ غلطیوں سے مبرا انتخابی فہرست اور نئی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیاں مرتب کرنا قانونی تقاضا ہے‘ اور آئین کے آرٹیکل 219 کی شق اے الیکشن کمیشن پر یہ فرض عائد کرتی ہے کہ وہ قومی اسمبلی‘ صوبائی اسمبلی اور مقامی حکومتوں کے انتخابات کے لیے انتخابی فہرستیں تیار کرے اور ان فہرستوں کو اپ ٹو ڈیٹ رکھنے کے لیے وقتاً فوقتاً اس پر نظر ثانی کرے؛ چنانچہ اس عمل کو یقینی بنانے کے لیے15 فروری سے پہلے الیکشن متوقع نہیں۔
2017ء کی مردم شماری متنازع ہونے کی وجہ سے آئینی ترمیم کے ذریعے نظریۂ ضرورت کے تحت جولائی 2018ء میں پرانی حلقہ بندی پر انتخابات کرا لیے گئے مگر پانچ جنوری 2021ء کو یہ طے ہوا تھا کہ اگلے انتخابات نئی مردم شماری کے تحت ہوں گے اور مشترکہ مفادات کونسل میں اُس وقت کے وزیراعظم کی سربراہی میں متفقہ فیصلہ ہوا تھا کہ نئے انتخابات نئی مردم شماری اور اس کے نتیجے میں ازسر نو حلقہ بندیوں کے بعد ہوں گے‘ لہٰذا ان حالات میں آئین کے آرٹیکل 224کے تحت نوے روز میں انتخابات ناممکن ہیں کیونکہ آئین کے آرٹیکل 51 کی اہمیت آئین کے آرٹیکل 224سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ اگر نئی مردم شماری کے نوٹیفیکیشن کے بعد اس کے نتائج کو روکنے کے لیے کوشش کی جائے تو یہ قدم آئین کے آرٹیکل (5) 51سے انحراف تصور کیا جائے گا۔ نئی مردم شماری کے نتائج میں تاخیر اس بنیاد پر ہوئی کہ صوبہ سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کی جانب سے مردم شماری کے نتائج کی جانچ پڑتال کی جارہی تھی۔جہاں تک انتخابات میں نگران حکومتوں کے کردار کی بات ہے تووفاق اور چاروں صوبوں کی نگران حکومتوں کا الیکشن کے روڈمیپ میں کوئی کردار نہیں۔ ان کے معمول کے معاملات جاری رہیں گے جبکہ عام انتخابات کے لیے سازگار ماحول بنانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے جس کے تحت آنے والے انتخابات میں ملک کی سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم کئے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ضابطہ اخلاق کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کوالیکشن میں اپنے منشور کے مطابق حصہ لینے میں کوئی رکاوٹ درپیش نہیں ہو گی اور جن قائدین کے مقدمات عدالتوں میں ہیں ان کو الیکشن قوانین کے مطابق ہی کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانا ہوں گے۔
بین الاقوامی مبصرین کی آمد سے بھی سیاسی جماعتوں کو سہولت ملتی رہے گی۔ابھی حال ہی میں تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے اہم سفارتی نمائندوں سے ملاقات کی ہے جن میں امریکہ‘ برطانیہ‘ کینیڈا اور آسٹریلیا کے ہائی کمشنر اور انڈونیشیا کے سفیر شامل تھے۔ یہ ملاقات بھی اسی رابطہ کاری کے سلسلے کی ایک کڑی تھی؛ اس ملاقات میں شاہ محمود قریشی‘جن کو سفارتی آداب کا مکمل ادراک ہے‘نے یقینا ملک کی انتخابی صورتحال اور الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نئی مردم شماری‘ حلقہ بندیوں اور مستقبل قریب میں انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے تبادلہ خیالات کیا ہو گا اورعمران خان کے مستقبل کے بارے میں بھی گفتگو ہوئی ہو گی۔ تحریک انصاف کے جن رہنماؤں نے اس سفارتی بریک فاسٹ میں شرکت کی وہ سنجیدہ مزاج کے حامل ہیں‘ خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے عمران خان کے مستقبل کے بجائے تحریک انصاف کے مستقبل کے بارے میں اظہارِ خیال کیا ہو گا۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کے اہم رہنما ستمبر میں نئے انداز سے متحرک ہونے والے ہیں۔ ہماری اطلاع کے مطابق اکبر ایس بابر تحریک انصاف کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے اپنی سیاسی حکمت عملی تیار کر رہے ہیں وہ ان سیاسی کارکنوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر نا چاہتے ہیں اور ان کے عملی قدم اٹھانے سے تحریک انصاف کے ورکرز ان کے اردگرد اکٹھے ہو سکتے ہیں‘مگر اس سے جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کی تنظیموں کو بھی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔
اکبر ایس بابر کے قریبی دوستوں کی رائے ہے کہ وہ ستمبر میں تحریک انصاف کے بارے میں اہم فیصلہ کریں گے۔ ملک میں سیاسی جماعتوں نے انٹرا پارٹی الیکشن کے قانون اور اصولوں کو ہمیشہ نظرانداز کیا ہے‘ جس کی وجہ سے بحرانی کیفیت کے دوران سیاسی پارٹی کا اندرونی ڈھانچہ کمزور پڑ جاتا ہے اور جب پارٹی کے اہم رہنما مشکلات میں گھر جاتے ہیں تو پارٹی کی اشرافیہ پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لیتی ہے۔ نو مئی کے واقعات میں عمران خان کے بھانجے حسان نیازی ایڈووکیٹ کو آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت آرمی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ ان کا کیس بھی ملٹری کورٹ میں چلائے جانے کا امکان ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں