"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابات 15فروری سے قبل ہو جائیں گے؟

صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو آئندہ عام انتخابات کی تاریخ کے تعین کے لیے لکھے گئے خط کے جواب میں چیف الیکشن کمشنر نے ملاقات سے انکار کرتے ہوئے صدر کے نام لکھے گئے خط میں کہا کہ اس ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ انتخابی قوانین میں تبدیلی کے بعد عام انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا اختیار صرف الیکشن کمیشن کے پاس ہے‘ الیکشن کمیشن کو یہ اختیار جون میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری کے بعد حاصل ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن کے خط میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں 26 جون کو ترمیم کردی گئی۔ اس ترمیم سے قبل صدر الیکشن کی تاریخ کے لیے الیکشن کمیشن سے مشاورت کرتا تھا‘ سیکشن 57 میں ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ یا تاریخیں دینے کا اختیار حاصل ہے۔خط میں مزید کہا گیا کہ صدرآئین کے آرٹیکل (2) 58 اور(5) 48 کے تحت اختیارات استعمال کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کرے تو وہ الیکشن کی تاریخ دیتا ہے لیکن اگر(1) 58 کے تحت وزیراعظم کی سفارش پر صدر اسمبلی تحلیل کرے تو تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔چونکہ صدرِ مملکت نے قومی اسمبلی آئین کے آرٹیکل (1)58 کے تحت وزیراعظم کی سفارش پر 9 اگست کو تحلیل کی تھی اس لیے الیکشن کمیشن کی یہ دلیل سمجھ میں آتی ہے۔ اب ایوانِ صدر کی جانب سے الیکشن کمیشن کے جوابی خط پر وزارتِ قانون و انصاف سے رائے طلب کی گئی ہے جو کافی اہمیت کی حامل ہو گی۔صدرِ مملکت کی طرف سے چیف الیکشن کمشنر کے نام خط لکھنے کی خبر کے بعد ہم نے واضح کیا تھا کہ چونکہ اب الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری کے بعد صدر کے پاس مشاورت یا الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں اورصدر کا وزیراعظم کی ایڈوائس کے بغیر الیکشن کمیشن کو خط لکھنا غیرمنطقی ہے‘ اس لیے الیکشن کمیشن کا وفد صدرسے ملنے نہیں جائے گا اور یہ بھی کہ اگر صدرِمملکت نے آئین کے آرٹیکل 48کے تحت انتخابات کی کوئی تاریخ دے دی تو الیکشن کمیشن اسے الیکشن ایکٹ کی شق 57میں ہونے والی ترمیم کے تحت مسترد کر دے گا۔
سب کو ادراک ہونا چاہیے تھا کہ 90روزکی مدت میں انتخابات کے انعقاد میں رکاوٹ آئین کا آرٹیکل (5)51ہے۔ آئین کی اس شق کے مطابق ملک میں عام انتخابات آخری شائع شدہ مردم شماری کے مطابق ہوں گے‘ لہٰذا پانچ اگست کو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں نئی مردم شماری کی منظوری کے بعد اب آئندہ انتخابات نئی مردم شماری اور اس کے تحت ہونے والی نئی حلقہ بندیوں پر ہی منعقد ہوں گے‘ اس لیے الیکشن کمیشن نے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں نئی مردم شماری کی منظوری کے بعدالیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 17کے تحت نئی حلقہ بندیوں کا شیڈول جاری کر دیا ہے جس کے مطابق14دسمبر تک نئی حلقہ بندیوں کا عمل مکمل ہو جائے گا۔ الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ مردم شماری کا نوٹیفکیشن مسترد کرتی ہے توہی 90دن میں الیکشن ہوسکتے ہیں۔اس تناظر میں صدرِ مملکت کو چیف الیکشن کمشنر کے نام انتخابات کی تاریخ پر مشاورت کے لیے خط لکھنے کے بجائے آئین کے آرٹیکل (5)48‘ (5)51‘ 224اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 57پر رہنمائی کے لیے خط لکھنا چاہیے تھا اور الیکشن کمیشن کا موقف جاننے کے بعد ہی اس بابت اپنی کوئی رائے دینی چاہیے تھی۔اب صدرِ مملکت کے خط اور الیکشن کمیشن کے جوابی خط کے بعدایوانِ صدر اور الیکشن کمیشن کے درمیان تنائو کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔
بادی النظر میں یہی دکھائی دیتا ہے کہ ایوانِ صدر نوے روز میں انتخابات کے انعقاد کے لیے ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔ ایوانِ صدر کی طرف سے الیکشن کمیشن کے جوابی خط کے بعد وزارتِ قانون و انصاف سے اس بابت جو رائے طلب کی گئی‘ اگر وزارتِ قانون و انصاف اپنی رائے میں الیکشن کمیشن کے مؤقف کو درست قرار دیتی ہے تو کچھ بعید نہیں کہ صدرِ مملکت اس مسئلے کو سپریم کورٹ میں لے جائیں اور وہاں الیکشن ایکٹ کی شق 57میں ہونے والی ترمیم کو چیلنج کر دیں۔ وفاق میں چونکہ اس وقت نگران حکومت ہے‘ اس لیے وہ اس بابت کوئی چارہ جوئی نہیں کر سکتی۔ جہاں تک بیوروکریسی کا تعلق ہے تو وہ نگران حکومت میں وِکٹ کے دونوں طرف کھیلتی ہے۔ اور اگر سپریم کورٹ الیکشن ایکٹ کی شق 57میں ترمیم کو کالعدم قرار دے دیتی ہے تو انتخابات کی تاریخ کے تعین کا اختیار براہِ راست صدر صاحب کے پاس آ جائے گا اور وہ آئین کے آرٹیکل (5)48کے تحت اس حوالے سے مکمل طور پر بااختیار ہو جائیں گے۔جس کے بعد ملک میں ایک اور آئینی بحران سر اٹھا سکتا ہے۔
دوسری طرف الیکشن کمیشن نے آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے سیاسی جماعتوں سے مشاورت شروع کر دی ہے۔الیکشن کمیشن نے پہلے مرحلے میں تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام (ف)کے نمائندوں سے ملاقات کی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سے بھی جلد مشاورتی ملاقات متوقع ہے۔جمعرات کے روز ہونے والی ملاقات میں تحریک انصاف نے 90 دن میں انتخابات سمیت الیکشن کمیشن کے سامنے تین مطالبات رکھے جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے صرف صاف شفاف انتخابات پر زور دیا۔الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کے درمیان مشاورت کا دوسرا دور بھی ہوگا جس میں تکنیکی معاملات پر بات ہو گی۔ الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں سے مشاورت الیکشن ایکٹ کے مطابق کر رہا ہے۔ ایک اہم پیش رفت یہ بھی ہوئی ہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی فہرستوں کی تیاری کا عمل حلقہ بندیوں کے ساتھ منسلک کر دیا ہے جبکہ الیکشن کمیشن میں بیک وقت انتخابی فہرستوں اور حلقہ بندیوں پر کام جاری ہے اور 14دسمبر کو حلقہ بندیوں کے ساتھ ساتھ انتخابی فہرستوں کا گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا جائے گا۔ یہ بہت ہی اہم اور خوش آئند پیش رفت ہے۔ اطلاعات کے مطابق الیکشن کمیشن 14دسمبر تک حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں کے گزٹ نوٹیفکیشن کے اجرا کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لا رہا ہے اور حلقہ بندیوں کے گزٹ نوٹیفکیشن کے فوری بعد یعنی 15دسمبر کو الیکشن ایکٹ کی دفعہ 57کے تحت انتخابی شیڈول جاری کر نے کا خواہاں بھی ہے۔اگر الیکشن کمیشن اپنی اس منصوبہ بندی میں کامیاب ہو جاتا ہے تو انتخابات کا انعقاد 15فروری 2024ء سے قبل ہو جائے گا اور اس طرح سینیٹ کے الیکشن کے لیے تمام الیکٹورل کالجز بھی مکمل ہو جائیں گے۔
اُدھر ملک میں روز افزوں مہنگائی نے عوام کا جینا دُوبھرکر رکھا ہے۔ ادارۂ شماریات کے تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق رواں ہفتے کے دوران ملک میں 22اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مزید اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ بالخصوص عوام کی مشکلات بڑھانے کا باعث بنا ہوا ہے لیکن قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ نہ تو سبکدوش ہونے والی پی ڈی ایم کی حکومت نے مہنگائی کے تدارک کے لیے کوئی عملی اقدام کیا اور نہ ہی نگران حکومت اس حوالے سے کچھ زیادہ متحرک نظر آتی ہے۔ اگر مہنگائی میں اضافے کا سلسلہ یونہی جاری رہا تو اس کا نتیجہ تمام سیاسی جماعتوں کو آئندہ انتخابات کے نتائج میں بھگتنا پڑے گا۔ ملک میں مہنگائی کے اسباب جو بھی ہوں‘ اس کا تدارک بہر حال حکومتی ذمہ داری ہے جس سے اُسے ہر صورت عہدہ برا ہونا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں