"KDC" (space) message & send to 7575

بجلی کے بِلوں میں ریلیف ممکن ؟

بجلی بِلوں کے خلاف ملک گیر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ کہیں بِل جلائے جا رہے ہیں تو کہیں گرڈ سٹیشنوں اور بجلی تقسیم کار کمپنیوں کے دفاتر کا گھیراؤ کیا جا رہا ہے۔ پچھلے ڈیڑھ دو سال کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح تاریخی بلندی کو پہنچنے کی وجہ سے عوام کی معاشی سکت شدید متاثر ہو چکی ہے‘ اس معاشی تنگ دستی کے تناظر میں بجلی کے مہنگے بِل ادا کرنا تو کجا ان کے لیے اشیائے ضروریہ کی خریداری بھی مشکل ہو چکی ہے۔ دوسری طرف نگران حکومت اس گمبھیر صورتحال کے باوجود محض زبانی جمع خرچ پر اکتفا کیے ہوئے ہے۔ پیر کے روز نگران وفاقی وزیراطلاعات نے کہا تھا کہ وفاقی وزارتِ توانائی نے ملک میں جاری بجلی کے بلوں کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے تجاویز کو حتمی شکل دے دی ہے جو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کی جائیں گی اور ان کے حوالے سے حتمی فیصلہ کابینہ کے اجلاس میں کیا جائے گا لیکن گزشتہ روز اس مقصد کے لیے بلوایا گیا نگران وفاقی کابینہ کا اجلاس بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ آئی ایم ایف کی شرائط دیکھنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گااور یہ کہ ان شرائط میں نرمی یا آئی ایم ایف سے ریلیف کی اجازت ملنے کی صورت میں ہی عوام کو ریلیف مل سکتا ہے جبکہ اطلاعات ہیں کہ تاحال بجلی کے بِلوں میں ممکنہ ریلیف پر آئی ایم ایف کو اعتماد میں نہیں لیا جا سکا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ بجلی کے بِلوں میں کمی آئی ایم ایف کو اعتماد میں لیے بنا نہیں کی جا سکتی‘ اگر آئی ایم ایف کی مرضی کے بغیر بِلوں میں کمی کی گئی تو یہ آئی ایم ایف معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔ آئی ایم ایف سے دسمبر تک سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ اور ٹیکسوں کی مد میں 122 ارب روپے وصول کیے جانے کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ایک طرف نگران سیٹ اَپ عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے طریقے تلاش کرنے کے لیے مسلسل اجلاس منعقد کر رہا ہے‘ مگرتاحال کوئی کامیابی نہیں مل سکی تو دوسری طرف رواں ہفتے کے آخر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافے کی صورت میں عوام کو ایک اور دھچکا لگنے کا خدشہ ہے۔ شنید ہے کہ یکم ستمبر کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں میں ہونے والے ممکنہ اضافے کے بعد یہ 300روپے فی لٹر سے بھی اوپر جا سکتی ہیں جس کے بعد مہنگائی کا ایک اور طوفان عوام کا منتظر ہوگا۔
ملک میں مہنگی بجلی کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک سرکاری عہدیداروں کو بجلی کی مفت فراہمی بھی ہے‘جس کا بوجھ عوام کے کندھوں کو اٹھانا پڑتا ہے‘ لیکن رواں ماہ بجلی کے ہوشربا بِلوں کے بعد عوام کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ واپڈا ملازمین اور دیگر افسران کو ملنے والی مفت بجلی کا سلسلہ بند کردیا جائے کیونکہ عوام یہ بوجھ اب مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ آئیے اب ایک نظر اس پر ڈالتے ہیں کہ ملک میں کس عہدے پر فائز شخصیت کو کتنی بجلی مفت فراہم کی جا رہی ہے۔ صدرِ مملکت کی تنخواہ اور دیگر مراعات سے متعلق ایکٹ President's Salary, Allowances and Privileges Act, 1975 کے مطابق صدر کو لامحدود بجلی کے یونٹس فراہم کیے جائیں گے جبکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی صدر ماہانہ 2000 یونٹس مفت استعمال کرسکیں گے۔ وزیراعظم کو بھی لامحدود مفت بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے دیگر ججز کو دورانِ ملازمت 2000 یونٹ استعمال کرنے کا اختیار ہے جبکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کو 2000 یونٹس بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہائیکورٹ کے ججز کو بھی ماہانہ 800 یونٹ مفت فراہم کیے جاتے ہیں۔ چیئرمین نیب کو بھی ماہانہ 2000 یونٹس بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے۔ گورنر سٹیٹ بینک کو لامحدود بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے۔ دیگر سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران کو مفت بجلی فراہم کی جاتی ہے۔پاور ڈویژن کے مطابق سرکاری بجلی کمپنی کے ملازمین کو سالانہ 13ارب روپے کی بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے۔ وزارتِ توانائی کی جانب سے سینیٹ کمیٹی میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ایک لاکھ 89ہزار واپڈا ملازمین کو ایک سال میں 34کروڑ یونٹ مفت فراہم کیے گئے۔ سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ واپڈا کے 16ویں سکیل والے افسر کو ماہانہ 300 یونٹ‘ 17ویں سکیل والے کو ماہانہ 450 یونٹ‘ 18 ویں سکیل والے کو 600 یونٹ‘ 19ویں سکیل والے کو ماہانہ 880 یونٹ‘ 20ویں سکیل والے کو 1100 یونٹ جبکہ 21ویں اور 22ویں سکیل والے واپڈا افسر کو ماہانہ 1300 یونٹ بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے۔
ہر حکومت معاشی اصلاحات کے نام پر اشرافیہ کی مراعات کو تحفظ دیتی رہی ہے۔ عوام کو حقیقی ریلیف دینے کے بجائے بیان بازی کے ذریعے ان کے جذبات سے کھیلا جاتا رہاہے‘ پتہ نہیں کب اس قوم کی آنکھیں کھلیں گی اور کب عوام اپنے حق کے لیے جدوجہد کا آغاز کریں گے۔ سیاسی لیڈرز عوامی نمائندوں کا روپ دھار کر عوام ہی کا استحصال کرتے رہتے ہیں۔ آئندہ عام انتخابات میں عوام سیاست دانوں کی اس بد سلوکی کا بھرپور جواب دیں گے۔ ایک طرف بجلی کے نرخوں میں روز افزوں اضافے کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف بِلوں میں نت نئے ٹیکس بھی شامل کیے جارہے ہیں جس کی وجہ سے عوام شدید اضطراب میں مبتلا ہو چکے ہیں اور بجا طور پر یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اعلیٰ افسران کو مفت میں فراہم کی جانے والی‘ ترسیلی نظام میں نقائص کے باعث ضائع ہونے والی اور کنڈا سسٹم کے ذریعے چوری ہونے والی بجلی کا بوجھ مختلف مدات میں اُن صارفین پر کیوں ڈالا جا رہا ہے جو بجلی کے بِل باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کے بعد سننے میں آیا ہے کہ نگران حکومت نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے گریڈ 17 اور اوپر کے افسران کو بجلی یونٹس کی سہولت ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ لیکن بادی النظر میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بیورو کریسی نگران حکومت کے اس حکم کو پس پشت ڈال دے گی اور اگلی منتخب حکومت آکر پھر سے اس سہولت کو بحال کر دے گی۔
دیکھا جائے تو آئی ایم ایف سے حکومتی معاہدوں کی مجبوری تو رہی ایک طرف لیکن بجلی چوری کے تدارک‘ ترسیلی نظام میں موجود نقائص کو دور کرکے اور مفت بجلی کی سہولت ختم کرکے اس مد میں جو بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے کم از کم وہ تو ختم کیا جا سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ناقص ترسیلی نظام کی وجہ سے 30 فیصد بجلی ضائع ہو جاتی ہے لیکن اس کا بِل عوام سے وصول کیا جاتا ہے۔ نگران حکومت چاہے تو ان مسائل پر توجہ مرکوز کرکے عوام کو ریلیف فراہم کر سکتی ہے لیکن نگران حکومتوں کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ کمزور ترین حکومتیں ہوتی ہیں‘ اس لیے بیورو کریسی بھی ان کے فیصلوں کو اہمیت نہیں دیتی لیکن اب عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ اگست میں صارفین پر 15 روپے فی یونٹ کا اضافی بوجھ پڑا ہے اور اس میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ نگران حکومت کے لیے آئی ایم ایف معاہدے کے پیش نظر عوام کو بجلی کے بِلوں میں ریلیف فراہم کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا لیکن ترسیلی نظام میں موجود نقائص اور بجلی چوری کی مد میں ہونے والے نقصانات کا سلسلہ روکا جا سکتا ہے جس کے لیے حکومتی کی سنجیدگی اولین شرط ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں